معیاری تعلیم میں مہارتیں

گزشتہ کالم بعنوان ’’ سکولوں میں سیکنڈ شفٹ ‘‘ میں لکھا تھا کہ خیبر پختون خوا اس بات میں دل چسپی ظاہر کر رہی ہے کہ سکولوں میں سیکنڈ شفٹ کا اجراء کیا جائے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام کے درمیان اجلاس ہو چکے ہیں لیکن تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ راقم الحروف نے اس سلسلے میں چند تجاویز گوش گزار کی تھیں ۔ اُمید ہے اُن پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔ ملک کی آبادی میں جس شرح سے اضافہ ہو رہاہے ، اس تناظر میں نئے سکولوں کا قیام اور سیکنڈ شفٹ کلاسوں کا اجراء وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ پچھلی تحریک انصاف حکومت میں بھر پور ’’ داخلہ مہم ‘‘ شروع کی تھی جس سے توقع تھی کہ سکول سے باہر بچہ سکول احاطہ میں آجائے گا۔ شاید نتائج اتنے حوصلہ افزا نہیں آئے کیوں ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت صوبے میں 34 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں جن کی تعداد 23 لاکھ 85 ہزار بنتی ہے ۔ واضح رہے کہ دنیا بھر 260 ملین سے زائد بچے اور نوجوان سکولوں سے باہر ہیں جب کہ پاکستان میں یہ تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ 40 ہزار بچوں تک پہنچ چکی ہے۔

آج کا کالم جیسے عنوان سے ظاہر ہے کہ معیاری تعلیم سے متعلق ہے لہٰذا یہاں اُن باتوں کو شامل کیا جائے گا جن کا تعلق معیار سے بنتا ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست جو پچھلے تیس برسوں سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں ، سے پوچھا کہ وہ کل اور آج کے بچوں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آج نویں و دسویں جماعت کا بچہ مضامین کی سمجھ بوجھ تو دور کی بات اُن کی ریڈنگ تک نہیں کر سکتا ہے۔ جس کی وجہ انہوں نے انگلش میڈیم نصابٹھہرائی ۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ نصاب کو تو انگلش میڈیم میں تبدیل ہوئے چند برس ہو چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ بچوں کو مضامین کی ریڈنگ تک نہیں آتی۔ انہوں نے میری بات کی تائید کی اور کہا کہ جب نصاب کو انگلش میڈیم میں کیا گیا تھا، اس وقت یہ بچہ جماعت ششم یا ہفتم میں پڑھتا ہو گا۔ اُس کی انگلش کی بنیاد کمزور تھی بلکہ سرے سے تھی ہی نہیں اور ہم نے اپنا نصاب اُردو سے انگلش میں تبدیل کردیا۔ یوں کھوکھلی بنیادوں پر عمارت کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے ۔ کوئی پانچ سے دس فیصد بچے تو اس تبدیلی سے ایڈجسٹ کر گئے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ابھی تک تگ و دو کر رہی ہے۔ جب کوئی میرے سامنے کسی مسئلے کی نشاندہی کرے تو میں ضرور اس سے مسئلے کے حل سے متعلق پوچھتا ہوں۔ میرا دوسرا سوال اس کے حل سے متعلق تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر بچوں کے اندر پڑھنے ، لکھنے اور بولنے کی مہارتوں کے ساتھ ساتھ سمجھنے کی مہارتیں بھی پیدا کرنی ہوں گی اور اگر ہم خدانخواستہ ایسے کرنے میں ناکام ہوگئے تو ہماری یہ نسل آگے بڑھنے کے لئے نقل مافیا کے ہتھوں چڑھ جائے گی اور آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے مستقبل کی کیا شکل بنے گی۔ ہمارا تعلیمی نظام پہلے ہی مقابلے کے رجحانات اور دیگر وجوہات کی بناء پر زوال کا شکار ہے۔ اوپر سے انگلش میڈیم نصاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ۔ساحر لدھیانوی فرماتے ہیں۔
فن جو نادار تک نہیں پہنچا
ابھی معیار تک نہیں پہنچا

یہاں ہم اُردو اور انگلش میڈیم کے چکر میں نہیں پڑتے کیوں کہ اس پر روزانہ کی بنیادوں پر لکھا جارہا ہے۔ البتہ پڑھنے ، لکھنے اور بولنے کی مہارتوں اور اُن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ معیاری تعلیم کا حصول ممکن ہو۔ یہ مہارتیں صرف چند دنوں یا مہنیوں سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ ان کا حصول ایک طویل سفر ہے۔ بولنے کی مہارت ماحول کی مرہون منت ہوتی ہے۔ بچہ پیدائش سے لے کر سکول جانے کی عمر تک اپنے آس پاس کے ماحول بالخصوص گھر کے اندر مادری زبان بولنا سیکھ لیتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق بچہ ایک سال کی عمر تک صرف چند الفاظ سیکھ لیتا ہے ۔ اس کے بعد ذخیرہ الفاظ میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ دو اور پانچ سال کا بچہ اوسطاًتین سو اور اکیس سو نئے الفاظ بالترتیب سیکھ جاتا ہے۔ بالک پن کے اس دور میں بچہ جتنی جلدی اور سرعت رفتار سے سیکھتا ہے ، ماہرین کے خیال میں باقی تمام عمر میں وہ اتنا نہیں سیکھتا ہے۔ اس دور میں بچوں کے ساتھ توتلی زبان میں باتیں نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ اس طرح بچہ توتلے اور ٹوٹے موٹے الفاظ سیکھ جاتا ہے اور زبان میں ہکلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ جب بچہ سکول کی چار دیواری میں داخل ہو جاتا ہے تو وہاں کا ماحول اس کے بولنے کی مہارت پر اثرانداز ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر ماحول انگلش میڈیم ہوگا تو بچے کو انگلش بول چال میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ وہ بات کو سمجھنے کے ساتھ انگلش میں بات بھی کر سکنے کے قابل ہوگا۔ ہم نے نصاب کو انگلش میڈیم بنا دیا ہے لیکن اپنے سکول کے ماحول کو تبدیل نہیں کیا ہے ۔ کیا ہمارا یہ ماحول انگلش میڈیم نصاب کو تقویت بخشے گا یا اس کی راہ میں مزید رکاؤٹ بنے گا۔

جب ہم نے نصاب کو انگلش میڈیم کر دیا ہے تو پڑھنے کی مہارت پر گرفت حاصل کرنے کی غرض سے ہمیں چاہیے کہ نرسری سے ہشتم تک کم از کم سلسلہ وار انگلش کہانیاں اور اگلی جماعتوں میں ڈراموں اور ناولوں کو شامل کیا جائے جن سے بچوں میں انگلش پڑھنے کی مہارت پیدا ہو ۔ اس مہارت سے بچوں میں کتب بینی فروغ پائے گی اور نوٹس اور خلاصوں کا کلچر کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ یہ وہ مہارت ہے جس کا تذکرہ میرے استاد دوست کر رہے تھے کہ آج کے بچے نصابی درسی کتب کی ریڈنگ تک نہیں کر سکتے۔ درحقیقت یہ مہارت پروان چڑھنے میں کئی سال لگتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے سکولوں میں اس سے متعلق کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ البتہ درسی کتب بچوں کے ہاتھوں میں تھما دی جاتی ہیں اور اُن کی ریڈنگ سے ہی یہ مہارت پیدا اور پختہ کی جاتی ہے۔

اگلی اہم مہارت لکھنے کی ہے۔ مجھے اپنے طالب علمی کے زمانے کا وہ واقعہ یاد ہے جب ہمارے استاد سکول ہیڈ ماسٹر کے پاس گئے اور اُن سے خواہش ظاہر کی کہ بچے اور اساتذہ ’’باران ڈیم ‘‘ کی سیر کو جانا چاہتے ہیں۔ ہیڈماسٹر نے اس شرط پر ہامی بھرلی تھی کہ واپسی پر ہر بندہ اس تعلیمی سیر پر ایک مضمون لکھ کر لائے گا، اس شرط پر سب خاموش ہوگئے اور دوبارہ اس خواہش کا مطالبہ نہیں کیا۔ ہمارے سکولوں میں لکھنے کی مہارت میں کمی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہمیں سالہا سال ( شاید قیام ِ پاکستان ) سے چند مخصوص مضامین ، کہانیاں ، خطوط اور درخواستیں رَٹ وائی جاتی ہیں اور اُن کی اتنی مشق کروائی جاتی ہے کہ ساری عمر ’’ میرا سکول ‘‘ مضمون ، ’’ پیاسا کوا ‘‘ کہانی ، ’’فیس معافی‘‘ کی درخواست اور ’’چاچا جان کی جانب سے گھڑی کا تحفہ ملنے پر شکریے ‘‘ کا خط یاد رہتا ہے۔ بچوں میں تخلیقی لکھنے کی صلاحیتیں پیدا ہی نہیں کی جاتیں۔ اَب جب کہ میڈیم کی تبدیلی آچکی ہے لہٰذا بچوں کے اندر مضمون ، کہانی اور خطوط نویسی وغیرہ لکھنے کی تخلیقی مہارتیں پیدا کی جائیں۔ اس سے بچوں کے اندر سوچ اور سمجھنے کی صلاحیتیں پروان چڑھیں گی۔ پس ان تمام مہارتوں سے معیاری تعلیم کا حصول ممکن ہوگا۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 264772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.