امید کی کرن

حکومت کو 100 دن پورے کئے ہوئے بھی 15 دن سے زائد دن گزر چکے ہیں مگر ابھی تک حکومت اور اپوزیشن میں لفظی بحث و تکرار جاری ہے۔اپوزیشن "کچھ دکھائی نہیں دے رہا "کی پالیسی پر گامزن ہے البتہ اس میں تھوڑی جدت کی آمیزش شامل ہے۔یعنی جو ہو رہا ہے وہ دکھائی نہیں دے رہا، جو صحیح  ہو رہا ہے وہ غلط دکھائی دے رہا ہے اور جو نہیں ہو رہا وہ تو بالکل صاف صاف دکھائی دے رہا ہے ۔دوسری طرف حکومت انہیں بینائی سے روشناس کرانے کی کوشش بھی انتہائی غیر سنجیدگی سے کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ کامیاب "آپریشن " تا حال وقوع پذیر نہیں ہو سکا۔رہی ہم جیسی عوام تو ہماری سیاسی بصیرت تو ویسے ہی کمزور واقع ہوئ ہے۔البتہ ہم نے اس مسئلے کا دیرینہ حل تلاش کر لیا ہے۔جب ملک میں تبدیلی،ترقی اور خوشحالی کا راگ سننے کا دل چاہتا ہے تو حکومت کا حمایتی کوئ چینل لگا لیتے ہیں اور بدلتے پاکستان کی تازہ بہ تازہ صورتحال پر عش عش کر اٹھتے ہیں اور جب اس تمام تر غیر یقینی صورتحال پر شک ہونے لگتا ہے تو حکومت مخالف کسی چینل کی نشریات سے فیض یاب ہو جاتے ہیں۔اسی کشمکش کے پیش نظر ہم نے اپنے کمزور اور ناتواں دماغ کو زیر استعمال لانے کا فیصلہ کیا۔
 
اور اگلی پچھلی بار بار باری لینے والی حکومتوں کے پس منظر پر غور کیا تو یہ حیرت انگیز نتائج سامنے آئے کہ ہر دور میں ہر حکومت کی 100 روزہ کارکردگی میں کافی حد تک مماثلث پائ جاتی ہے۔جیسا کہ "غیر ملکی دورے" "معاشی بحران کا رونا دھونا" اہم عہدوں پراپنی پسندیدہ شخصیات کا تبادلہ" "وزیروں اور مشیروں کی مراعات کا تعین وغیرہ" باقی ملک کے بنیادی مسائل جیسا کہ ترقیاتی کام' معیشت کی بحالی ' قانون سازی'معاشی استحکام ' پانی بجلی اور گیس کا مسئلہ ' آبادی کے مسائل 'تعلیمی نظام ' اور بیروزگاری کے خاتمے جیسے بڑے بڑے مسائل پر ہر حکومت اپنی کارکردگی کے بڑے بڑے ڈھنڈورے پیٹتی رہی ہے تاہم کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آئ۔ اب اسے نظر کی کمزوری کہیں یا حقیقت پسندی۔ بحرحال ہم جیسے عوام الناس آج تک ان مسائل کے حل کے منتظر ہیں۔اسی لئے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے بس ہم یہی آس لگا سکتے ہیں کہ 100 دن والا معاملہ تو جیسے تیسے نمٹ گیا آگے پورے پونے 5 سال پڑے ہیں ان میں ضرور ایسی موثر تبدیلیاں عمل میں لائ جائے جن سے ان مسائل کا دیرینہ حل تلاش کیا جا سکے۔اور عوام کے دلوں میں امید کی کرن جو روشن ہوئی ہے اسکی روشنی مدہم نہ پڑے۔ہر شعبے میں ترقیاتی کاموں کے لئے ماہرین کی رائے اور مناسب منصوبہ بندی عمل میں لائ جائے تو کوئی بعید نہیں کے ان دیمک کی طرح چمٹے مسائل سے نجات حاصل کی جا سکے اور پاکستان مدینے جیسی اسلامی ریاست بن کر ابھرے۔آمین۔

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 35267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.