"کون تھے آخر وہ۔۔۔۔؟"

استاد معاشرے کاوہ حصہ ہیں جن کی عزت اور مقام کی اہمیت کا اندازہ لگانا بحیثیت ِ مسلمان قدرے مشکل ہے کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کو ہم مسلمانوں کے لئے خدا کی طرف سے ایک نائب ایک استاد کی حیثیت سے بھیجا گیا تھا تاکہ وہ ہماری اصلاح کرسکیں ہمیں زندگی جینے کا طریقہ سکھاسکیں اور یہہی وہ قابلِ تعریف وجہ ہے جسکی وجہ سے استادوں کا ادب اور تعظیم لازوال ہے۔

حضرت علی کا مشہور قول ہے : "جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا گویااس نے مجھے اپنا غلام بنالیا" ۔ یہ قول عام طور پر ہم اساتذہ کیلئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ اساتذہ بچپن سے لے کر جوانی اور بڑھاپے تک کے لئیے ہمیں وہ قیمتی سرمایہ سکھادیتے ہیں جسکی بدولت ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ بات چیت سے لے کر ہر چھوٹے بڑےغرض کہ دنیا کے تمام اصول و ضوابط خاندان اور گھر بار کے سواء سب سے جامع اور مکمل انداز میں ایک استاد ہی سکھاتا ہے ۔

زمانہ علمی کا پہلو ایک طالبِ علم کا استاد کی زیرِنظر گزرتا ہے اس دوران نصاب کے سبق سے لے کر شخصیت کی تخلیق تک کی ہر بنیاد کے عکس کا ناظر وہ ایک استاد ہوتا ہے جو بظاہر تو پیسے کمانے کی عوض تعلیم کو اپنا پیشہ بناتا ہےلیکن اس بات کا احساس نہ تو استاد کو ہوتا ہے اور نہ ہی طالبِ علم کو کہ اس تمام گزرے وقت کے ساتھ ساتھ یہ دونوں فریق ایک دوسرے کے کس حد تک واقف کارہوجائیں گے، بہر حال زندگی میں جہاں ہدایت اور رہنمائی کی طلب ہوتی ہے وہاں دامنِ استاد سب سے بہترین ساتھی بن جاتا ہے اور یوں تعلیم کے فیض کا کبھی نہ تھمنے والا دریا سیراب ہوتا رہتا ہے۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی کل کائنات کا حصہ ایسے ا ستاد ہیں جو آئیڈیل کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایک بہترین شخصیت کا خاکہ تیار کرتے ہیں، مگر نشیب و فراز کے اس دور میں جہاں آسمان کی بلندی کی پرواز ہوتی ہے وہیں زمین کے آخری گڈھوں کی گہرائی میں اتر کر خاک بھی چھاننی پڑجاتی ہے ۔

ان تمام خوبیوں کے ضمن چند ایسے بد نصیب طالبِ علم بھی ہوتے ہیں جنکی داد رسی کرنے کے لئیے بعض اوقات الفاظ بھی مدہم پڑجاتے ہیں ایسا ہی کچھ حال پشاور کی ایک نجی جامعہ کےچند طالبِ علموں کا بھی ہے جنھیں جامعہ کے انتساب یا اسائنمنٹ کے طور پر اساتذہ نے ایک تحقیقی مقالہ یا ریسرچ پیپر یعنی پوری ایک قبائلی علاقو ں سے متوسط تحقیق کرنے کے لئیے دی تھی جسکی تکمیل کے لئے طلبہ نے دن رات سخت محنت اور جدوجہد کی کیونکہ اس اسائنمنٹ کے بدلے اسکو امتحان میں نمبرز ملنے تھے اب آگے بڑھنے کی دوڑ میں اچھے نمبرز حاصل کرنے کی خاطر طلبہ کیا کچھ نہیں کرتے انکی محنت سے متعلق تو کوئی دو رائے نہیں ہے ، اسی طرح پشاور کی جامعہ کے ان طلبہ نے بھی کی ، لیکن ان طلبہ کو اپنے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کا اندازہ بھی نہ تھا کہ آخر جس شخص کی پیروی وہ کررہے ہیں جس کو وہ استاد کے مقدس درجے پر فائز کئِیے حکم کی طابعداری میں لگے ہیں وہ آخر کون ہے؟؟؟ کیا وہ کوئی بہروپیہ ہے یا قابلِ تکریم استاد۔۔۔؟؟ کیوں ۔۔۔؟؟ آخر کیا تھا ایسا۔۔۔؟؟ کیا تھی وجہ۔۔۔؟؟ تحقیقی کام کے عوض طلبہ کو نمبر تو ملے یا نہیں یہ بات تو دور کی بات لیکن اس کام کے عوض اساتذہ نے ایسا ناقابلِ تلافی جرم سرزد کیا کہ وہ اصل اور معیاری تحقیق کا تمام تر مواد اپنے نام سے انتہائی مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطبوع کروائے گئے کہ کسی کو بھی بھنک نہ پڑنے دی ، اور بیچارے ہونہار اور محنتی طلبہ کو اس قدر مایوس کردیا کہ وہ جس کام کی بدولت اپنی ایک ذاتی شناخت قائم کرسکتے تھے ان سے انکا حق چھین لیا گیا اورسب سے زیادہ لمحئہ فکریہ یہ ہے کہ یہ بیچارے طلبہ آخر قصوروار بھی کس کوٹہرائیں ؟ اساتذہ کو؟
جامعہ کے ایچ او ڈی سے لے کر ہر پروفیسر اور متعلقہ افسران کو اطلاع دی گئی لیکن ان کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں،،، کیونکہ اساتذہ نے کام ہی اتنی مہارت سے انجام دیا کہ کوئی ان معصوم طلبہ کی آپ بیتی پر یقین کرنے کے لئیے تیار ہی نہیں۔۔۔ اور بالاخر اس درد بھری اور خوفناک کہانی کا انجام یہ ہوا کہ طلبہ نے تعلیم کو سدا کے لئے خیر آباد کہہ دیا اور اس قدر تعلیم کے میدان سے دوری اختیار کرلی کہ آج کوئی کسی پیشے سے منسلک ہے تو کوئی کسی پیشے سے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخر کون تھے؟ اسکا جواب محض اسی بات میں پنہاہے کہ وہ کوئی اور نہیں استاد کے روپ میں پوشیدہ وہ جعلی بھیڑئیے تھے شاید جو کبھی محنت کے اس پھل کو سمجھ ہی نہ سکے اور بذاتِ خود تعلیم کی لذت سے آشنا ہی نہ تھے۔۔۔کیا یہ بھی اساتذہ ہیں جو معاشرے کے لائق فائق طلبہ کی آنکھّوں میں دھول جھونک رہے ہیں انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے انکے مستقبل کے ساتھ کشتیاں کھیل رہے ہیں؟

جدت کا عنصر لازمی معاشروں کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن جس معاشرے میں ایسے جدتی اساتذہ ہیں وہاں تعلیم کی روح بھٹکنے سے بھی گریزاں رہے گی، اساتذہ کے بھی کچھ حقوق ہیں جنکی پیروی انھیں کرنی لازمی ہے تاکہ طالبِ علموں کی ترقی سے استاد کی ترقی بھی جڑتی جائے ناکہ بچّوں کا حق مار کے اپنی ترقی کو جھوٹ ، دھوکے اور فریب کی مانند افق تک پہنچائی جائے۔

MUHAMMAD IQBAL
About the Author: MUHAMMAD IQBAL Read More Articles by MUHAMMAD IQBAL: 10 Articles with 12743 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.