نیا پاکستان…..کڑا امتحان

بیک وقت کئی محاذکھل گئے ہیں۔عالمگیریت میں ایسا ہی ہوناتھا۔جب تمام معاملات جڑے ہوئے ہوتے ہیں تب کسی ایک چیزکے خراب ہونے پردوسری بہت سی چیزوں کاخراب ہوجانابھی فطری امرہے۔ اس وقت یہی ہورہا ہے۔ امریکااوریورپ مل کرجوکچھ کرتے ہیں وہ کئی ممالک ہی نہیں، بلکہ خطوں کوبھی ہلاکررکھ دیتےہیں۔امریکااوریورپ کیلئےبہت کچھ تبدیل ہورہا ہے۔ تبدیلیاں توخیرپوری دنیامیں آرہی ہیں مگرامریکاویورپ کیلئےمعاملہ بہت اہم ہے۔سبب اس کایہ ہے کہ عالمی سیاست ومعیشت کامرکزاب ایشیا کی طرف منتقل ہورہاہے۔ چین،جاپان،روس اورترکی کی معیشت غیرمعمولی رفتارسے مستحکم ہورہی ہیں۔ جنوبی کوریااورملائیشیاوغیرہ کااستحکام بھی اس معاملے میں روشن مثال کادرجہ رکھتاہے۔امریکاچاہتاہے کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اس کی فیصلہ کن حیثیت برقراررہے۔ واحد سپرپاورہونے کااس نے تین عشروں کے دوران بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ یورپ نے بھی اس کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے خوب مزے لوٹے ہیں۔ اب یہ دَور رخصت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی جوبھرپوراورکامیاب کوششیں کی تھیں اب اس کے تسلسل کیلئے دن رات کوشاں اورفکرمند ہیں کہ اب ان کی اجارہ داری مستقل طورپرختم ہونے جارہی ہے۔

ڈھائی عشروں کے دوران چین تیزی سے ابھراہے،جس نے امریکااوریورپ دونوں ہی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ چینی معیشت کا فروغ تیز رفتار رہا ہے۔ چین خود بہت بڑی مارکیٹ ہے، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر پیداواری عمل اس کیلئےہر اعتبار سے موزوں اور سودمند ہے۔ امریکا اوریورپی ممالک اس معاملے میں اس کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔اس پر مستزادیہ کہ امریکانے محسوس کرلیاہے کہ یورپ اپنی راہ بدل رہاہے اورہرمعاملے میں اس کا ساتھ دینے کوتیارنہیں۔ یورپ وہی کررہاہے،جوعقل کاتقاضاہے۔ یورپ کی بیشترقوتیں افریقااور ایشیا کے حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرچکی ہیں۔ وہ اب سوفٹ پاور(Soft Power) پر یقین رکھتی ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہر معاملے کو ہارڈ پاور (Hard Power)کے ذریعے درست کرنا نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں بلکہ بہت سی خرابیوں کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔

چار پانچ سال کے دوران چین نے باقی دنیا سے اپنا معاشی رابطہ بہتر بنانے کی بھرپور تیاریاں کی ہیں۔ اس حوالے سے "ون بیلٹ اینڈون روڈ" منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ انہی خطوط پر چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر چین پاک اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) شروع کیا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی بھرپور ترقی کی راہ بھی ہموار کرسکتا ہے۔ سی پیک کی مجموعی مالیت کم و بیش ۶۰؍ارب ڈالرہے جومستقبل میں دوگناہونے کی بھی امیدہے۔امریکا سی پیک کو واضح طور پر خطرے کی گھنٹی سمجھتا ہے اور بالآخریورپ کوبھی ہمنوابنانے میں کامیاب نظرآرہاہے۔ یہی سبب ہے کہ سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا بھی تیز کردیا گیا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان سی پیک پر نظرثانی کرے اور جہاں تک ممکن ہوسکے، اس منصوبے کو ایسا بنادے کہ اس سے پاکستان میں کوئی مثبت تبدیلی آئے نہ خطے میں۔ اس مقصد کے حصول کیلئےبھارت کے ساتھ ساتھ بنگلادیش کو بھی متحرک کیا گیا ہے۔ بھارت کو اس بات پر اعتراض ہے کہ سی پیک سے جڑے ہوئے منصوبے مقبوضہ کشمیر میں بھی شروع کیے جارہے ہیں، جو متنازع علاقہ ہے۔

عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے قبل کئی بار یہ کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف یاکسی بھی عالمی ادارے سے قرضوں کا پیکیج لینا پسند نہیں کریں گے مگر وزیر اعظم کا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے اس حوالے سے بھی یو ٹرن لے لیا اور صاف کہہ دیا کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لیےبغیر بات نہیں بنے گی کیونکہ قومی خزانے میں کچھ نہیں۔ ملک کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی اقدامات کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کے اعلان پر عمران خان کو اندرونِ ملک تو خیر تنقید کا سامنا کرنا ہی پڑا، بیرونی محاذ پر باضابطہ مورچہ کھول لیا گیا۔ امریکا کو اسی موقع کی تلاش تھی۔ پاکستان کیلئےآئی ایم ایف سے قرضوں کاحصول ناگزیرہے اوردوسری طرف امریکا چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پرایسی شرائط نافذ کرادے کہ جنہیں پورا کرنے میں اس کی ساری ترقی دھری کی دھری رہ جائے۔ ایک طرف چین سی پیک کے حوالے سے پہلے مرحلے میں کم و بیش 19؍ارب ڈالر کے منصوبوں کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے کی منزل کے بہت نزدیک ہے اوردوسری طرف عمران خان سی پیک پرنظرثانی کاعندیہ دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ چین کیلئےغیر معمولی تشویش کا باعث ہے کیونکہ سی پیک سے متعلق تمام معاہدے ریاستی سطح پرہوئے ہیں اور نظرثانی کے ذریعے ان میں کوئی بڑی تبدیلی غیر معمولی منفی نتائج بھی پیدا کر سکتی ہے۔

امریکا چاہتا ہے کہ سی پیک میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی جائے۔ اس کیلئےاس نے دو ڈھائی سال سے یہ راگ تواتر کے ساتھ الاپا ہے کہ چین نے کئی ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑ لیا ہے اور اب پاکستان کو بھی قرضوں کے شکنجے میں کسنا چاہتا ہے۔ امریکا کے علاوہ یورپ کے میڈیا آؤٹ لیٹس بھی سی پیک کے حوالے سے تحفظات پھیلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ پاکستانیوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان عملاً چین کا غلام ہو جائے گا۔ چین نے بارہا وضاحت کی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ امریکا اور یورپ نے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کو تیاری سے پہلے ہی متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

15؍اکتوبر2018ء کو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ چین آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج دیے جانے کے حوالے سے سی پیک اور دیگر امور کا جائزہ لینے کا حامی ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان کو قرضوں کا پیکیج دینے سے قبل بہتر ہے کہ سی پیک اور پاکستانی قرضوں کا بھرپور جائزہ لیا جائے، تاہم یہ سب کچھ حقیقت پسندی کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ پاک چین تعلقات کو نقصان نہ پہنچے۔ لوکانگ نے کہا کہ سی پیک دو ممالک کے درمیان طویل مشاورت کے بعد طے پانے والا معاہدہ ہے، جسے آسانی سے ختم یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کسی بھی بڑی تبدیلی کیلئےغیر معمولی دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

چینی دفتر خارجہ کی بریفنگ اس بات کا مظہر ہے کہ چین اب بھی سی پیک کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے اور اس پر نظر ثانی سے متعلق خبروں کا سنجیدگی سے نوٹس لے رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ سی پیک پرنظرثانی کی جائے اوراس سے جڑے تمام منصوبوں کوایسے مقام پرپہنچایا جائے جہاں یہ کسی کام کے نہ رہیں۔ یہ پاکستان کیلئےبھی بہت مشکل مرحلہ ہے۔ ایک طرف اسے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج بھی لیناہے اوردوسری طرف چین سے اپنے خصوصی تعلق کوبھی سنبھال رکھنا ہے۔ یہ گویا دو دھاری تلوار سے بچنے کا معاملہ ہے۔

امریکا کی مرضی بظاہر یہ ہے کہ اس مرحلے پر چین اور پاکستان کے تعلقات زیادہ بار آور ثابت نہ ہوں اور دونوں ممالک مل کر روس اور ترکی کے اشتراک سے ایشیا کو عالمی سیاست و معیشت کا مرکز بنانے کے حوالے سے زیادہ کامیاب نہ ہوں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کیلئےامریکا جو کچھ کرسکتا ہے وہ کر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کیلئےکسی بھی ملک کے دباؤکوایک خاص حد تک ہی برداشت کر سکتا ہے۔

چینی رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ نے 1970ء کے اواخر میں کہا تھا کہ ’’ترقی واحد سچائی ہے۔ اگر ہم ترقی نہیں کریں گے، تو ہمیں دھمکایا جاتا رہے گا۔‘‘آج چین کو کوئی نہیں دھمکا سکتا مگر پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رہنماءاوروزیراعظم پاکستان عمران خان کادعویٰ ہے کہ25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں کو حاصل ہونے والی عوامی حمایت تمام باتوں کے ساتھ ساتھ عوام کی قومی عزتِ نفس، کرپشن اور خون نچوڑ دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی خواہش کی ترجمان ہے۔ملک کے خالی خزانے کے ساتھ ساتھ عوام کی بڑھتی ہوئی غربت ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ پیداکررہی ہے،اسی لیے نئی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ترقیاتی میدان میں کارکردگی دکھاناہے جس کیلئے ہمیں شب وروز سخت محنت درکارہے۔

ترقی کا چیلنج بوسیدہ سیاسی و سماجی نظام کی وجہ سے مشکل ہونے کے علاوہ اس لیے بھی مشکل ہے کہ پی ٹی آئی کی آنے والی حکومت کو معاندانہ بیرونی ماحول کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے اتفاقِ رائے بڑھ رہا ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر کے خاتمے کو روکنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کیلئےبرادر ملک سعودی عرب اورچین کے دورے کے باوجودپاکستان کو ایک اور بیل آؤٹ کیلئےآئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ بدقسمتی سے یہ حاصل کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔گزشتہ دنوں آئی ایم ایف میں سابق امریکی نمائندے مارک سوبل نے اپنے ایک بلاگ میں پاکستان کوآئی ایم ایف کے متوقع پروگرام کیلئےکڑی شرائط کی حمایت کی ہے، جس میں روپے کی قدر میں مزیدگراوٹ، بلند شرحِ سود، زیادہ ٹیکس محصولات اور انتظامی اصلاحات (بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، زراعت پر ٹیکس، ریاستی اداروں کی نجکاری اور دفاعی اخراجات میں کمی) شامل ہیں۔ یاد رکھیں کہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر ان میں سے کئی کمر کسنے والے اقدامات پہلے ہی نہ صرف شامل کئے جاچکے ہیں بلکہ ان اقدامات سے ملک میں کمرتوڑمہنگائی کاجن بوتل سے باہرنکل کر خوب اودھم مچارہاہے۔
مگرسوبل نے اپنی سفارشات میں یہ اضافہ بھی
کیاہے کہ’’آئی ایم ایف کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے وسائل غیر مستحکم چینی قرضوں سے بیل آؤٹ دینے کیلئےاستعمال نہ ہوں۔ سی پیک کے تمام قرضوں سے متعلق جامع ڈیٹا، بشمول اس کی شرائط، اس کے میچورٹی کے دورانیے اور اس میں شامل فریقین کی تفصیلات، فنڈ کی انگلیوں پر ہونا چاہیے‘‘۔امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی امریکی چینل این بی سی کو ایک انٹرویو میں اس مطالبے کو دہرایاکہ’’اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئی ایم ایف کے ٹیکس ڈالرزاورامریکی ڈالرزکوچینی بانڈہولڈر اور خود چین کوبیل آؤٹ دینے کیلئےاستعمال کیاجائے‘‘۔اس بیان میں چھپی ہوئی بدنیتی پر پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسمعیل کی وضاحت نے پانی پھیر دیا کہ ’’سی پیک قرضوں پراوسط شرحِ سود3فیصد ہے۔ زیادہ ترقرضوں کا 5 سالہ گریس پیریڈہے اوراگلے5سالوں میں چین کوقرضوں اورنفع کی ادائیگی ایک ارب ڈالرسے بھی کم ہوگی جوکہ مغرب کو کی جانے والی قرض ادائیگیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔یہ مطالبہ کہ پاکستان (صرف) چینی قرضوں کوری اسٹرکچرکرے یاپھرآئی ایم ایف سی پیک منصوبوں کی شرائط اورپیش رفت کومانیٹرکرے، واضح طور پرپاکستان اورچین دونوں کیلئےناقابلِ قبول ہوگا۔پاکستان ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف منصوبے کے بغیر ہی ٹھیک ہوگا‘‘۔

تاہم امریکی میڈیامیں یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ امریکی’’دھمکیوں‘‘کامقصداب افغانستان میں پاکستانی تعاون مزید حاصل کرنا نہیں ہےکیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے بنیادی طورپرپاکستان اور عمران خان کے پیش کردہ مؤقف کوتسلیم کرلیاہے کہ افغان تنازع صرف امریکااورافغان طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دوحہ میں امریکااورطالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں مبیّنہ طورپرانہوں نے سہولت کاری کی ہے۔ امریکا نے تو اب تک سرکاری طور پر ان مذاکرات کی بھی تصدیق نہیں کی ہے، پاکستانی حکام کی سہولت کاری تو دور کی بات ہے۔ اس کے بجائے امریکی بیانات طالبان کی بڑھتی ہوئی دراندازی کیلئےپاکستان کوذمہ دار ٹھہراتے رہتے ہیں۔

اگر طالبان کے ساتھ اس کے مذاکرات مشکلات کاشکارہوجائیں توامریکا پاکستان کی مدد طلب کرنا جاری رکھ سکتا ہےمگر اب جبکہ اس نے طالبان کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم کرلیاہے توامریکا پاکستان کی مدد کے بغیربھی آگے بڑھ سکتاہے۔امریکی رپورٹس کے مطابق امریکااورطالبان دونوں ہی شراکتِ اقتدار کے فارمولے پر لچک دار ہیں اور طالبان افغانستان میں کچھ امریکی فوجیوں کے موجود رہنے پر غور کرنے کیلئےبھی تیار ہیں تاہم خطے میں اب امریکی مفادات یہ ہیں:
٭ چین اور روس کو اسٹریٹجک طور پر محدود کرنا،
٭ بھارتی غلبے والے جنوبی ایشیا کی تیاری اور
٭ ایرانی اثر و رسوخ کو کم کرنا۔
٭بین الاقوامی تجارت کیلئے ڈالرکے متبادل کسی اورکرنسی کے استعمال کی روک تھام۔

آئی ایم ایف پیکیج پرپومپیوکامؤقف پاکستان کی مالی کمزوری کا فائدہ اٹھاکرسی پیک پرعملدرآمد محدود کرنے اورچین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کونقصان پہنچانے کی امریکی خواہش کی علامت ہے۔پاکستان کے پاس معیشت کو مستحکم کرنے کیلئےہوسکتا ہے کہ چینی مالی امداد کے علاوہ اور کوئی آپشن نہ ہو۔ چین اب تک پاکستان کوادائیگیوں میں توازن میں مدد دینے میں سخی رہا ہے اور امکان ہے کہ یہ مستقبل میں بھی مددگاررہے گا۔چین اس کے علاوہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کاایک بڑاذریعہ بھی ہوسکتاہے لیکن فی الحال عمران خان کے چینی دورے کے بعدمشترکہ اعلامیے میں پاکستان کیلئے کسی بیل آوٹ پیکج یاکسی اوررعائتی نرخوں پرکسی قرضے یاامداد کااعلان نہیں ہوابلکہ ان تمام معاملات کوآئندہ مذاکرات پرچھوڑدیاگیاہے جس کی بناء پرپاکستان میں اپوزیشن اس پرتشویش کااظہارکررہی ہے لیکن پی ٹی آئی کے رہنماء علی زیدی نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیاہے کہ کراچی کیلئے چین کے ساتھ نوارب ڈالرکے ایم اے یوپردستخط ہو گئے ہیں اورجلدہی یواے ای سے بھی بڑی کوشخبری ملنے کی توقع ہے جس سے لاکھوں روزگار کے مواقع بھی پیداہوں گے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے اس کی تائیدسامنے نہیں آئی۔

تاہم بھارت اور امریکا کے منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئےسی پیک پر عملدرآمد کو تیز تر بنایا جا سکتا ہے اور اس کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے اس میں ملازمتیں پیدا کرنے، سماجی اور انسانی ترقی اورزرعی اورصنعتی ترقی لانے کی پی ٹی آئی کی ترجیحات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔جن خصوصی اکنامک زونزکامنصوبہ بنایاگیاہے،ان کے حصے کے طورپرنہایت غور وخوض سے منصوبہ تیارکیاجاسکتاہے تاکہ غیرمسابقتی صنعتوں کوچین سے پاکستان (بجائے دوسرے ایشیائی ممالک کے) لایاجائے۔ گوادر کے اصل وژن،یعنی اسے ایک بڑے پیٹرو کیمیکل پروسیسنگ اور جہاز رانی کے مرکز میں بدلنے کو بھی عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔

پاکستان اور چین کے تعلقات کے اسٹریٹجک رخ نے چین کے ساتھ عالمی اور جامع انداز میں مقابلہ کرنے کے امریکی فیصلے کی وجہ سے مزید اہمیت اختیارکرلی ہے۔ امریکا واضح طورپر پاکستان کوچینی شراکت دارتصورکرتاہے اوراب یہ اسے دشمن تصورکرنے لگاہے۔ امریکاچین کاسامنا کرنے کیلئےبھارت کومسلح کررہاہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتاہے کہ اس سے پاکستان کی سلامتی کوخطرہ لاحق ہوگا۔اس کامقصد ہے کہ یہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کوختم کردے۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم وستم کابھی حامی ہے۔پاکستان کے خلاف بھارتی دھمکیاں اوردباؤ، بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں’’دہشتگردی‘‘کے الزامات میں اورشدت آئے گی،جب مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو قوم پرستی کی بناءپر2019ء میں دوبارہ منتخب ہونا چاہے گی،اس لئے مکاربنیاء درپردہ امریکاکویہ کہہ کرورغلارہاہے کہ اگر پاکستان بھارتی غلبے کوتسلیم کرلے تو بھارت کوامریکاسے ملنے والی عسکری صلاحیتیں پاکستان کے بجائے مکمل طورپرچین کے خلاف تعینات ہوجائیں گی۔اس لئے اب انتہائی ضروری ہوگیاہے کہ بھارتی بنئے اورامریکی سازش کے خلاف ایک واضح پالیسی مرتب کرتے ہوئے اپنے ایک جیسے اسٹریٹجک مقاصد کی بناء پر پاکستان اورچین کے تعلقات میں مزیدبڑھاوےکیلئے عملی اقدامات کانہ صرف فوری اعلان کیاجائے بلکہ’’مارکیٹ اصولوں‘‘میں الجھ کر رہ جانے والی پاکستانی مشیرتجارت رزاق داؤدکی سفارش کو برملاختم کرنے کااعلان بھی کیاجائے۔ یہ یقین دلانے کے علاوہ کہ پاکستان جامع بااعتماد دفاعی صلاحیت رکھتا ہے،تاہم چین کی پاکستان کے خلاف بھارتی دھمکیوں اورامریکی دباؤکی سخت الفاظ میں مذمت جنوبی ایشیا میں امن،استحکام اورترقی کویقینی بنانے میں اہم کرداراداکرے گی۔

نئے وزیرِاعظم کیلئے مناسب ہوگا کہ وہ اب چین کے دورۂ مکمل کرکے واپس وطن لوٹ چکے ہیں اوبڑے فخرسے قوم کونئی اورمضبوط تراسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد اس کی کامیابی کی نویدبھی سناچکے ہیں اورپاکستانی وزیرخزانہ اسدعمرپاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بڑے پرمسرت لہجے میں بتاچکے ہیں کہ اب پاکستان بیرونی ادائیگوں کے دباؤسے نکل چکاہے اورپاکستان کے سرپرجودیوالیہ ہونے کی تلوارلٹک رہی تھی،اس سے پاکستان کونجات مل گئی ہے اورہم کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کوآئندہ کبھی بھی ان مشکلات کاسامنانہ ہو،اب ضروری ہوگیاہے کہ عمران خان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نئی اور مضبوط تر اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد رکھ کراقوام عالم کواس سے آگاہ کریں کہ پاکستان اپنے خلاف ہونے والی ہرسازش سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اس سے نمٹنے کیلئے بھی مکمل طورپرتیارہے۔

ظاہر ہے کہ چین کی حمایت کے ساتھ ساتھ ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ بنانے کیلئےدرکار وسائل اکٹھا کرنے کی ایک قومی مہم بھی ہونی چاہیے۔یادرہے کہ پاکستان امریکی دھمکیوں کی مزاحمت اور امریکا کے ساتھ باہمی تکریم و فائدے کا تعلق صرف تب قائم کر پائے گا، جب یہ اقتصادی اور عسکری اعتبارسے مضبوط ہوگااوراس کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ ملک کے اندر سیاسی اختلافات کوذاتی انتقام میں منتقل نہ ہونے دے ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ مرکز اورصوبائی سطح پراپنے ترجمانوں کواوراسمبلی میں اپنے اراکین کوالفاظ کے چناؤمیں محتاط ہونے کاسبق دے ۔ان دنوں چند حکومتی اراکین اوراس کے جواب میں اپوزیشن اراکین کی گفتگوجس طرح ہمارے چینل نشرکررہے ہیں،اس کودیکھتے ہوئے تمام سمجھدارافرادفوری طورپرچینل بدلنے پر مجبورہو جاتے ہیں تاکہ گھرمیں بچوں کے اخلاق پربرااثرنہ پڑے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.