جھیل ستی سرسے پانی کا اخراج اورخطہ کشمیر کی وجہ تسمیہ

3880ق م میں طوفان نوح کے بتیجے میں جب خطہ کشمیر زیر آب آ گیا تو ’’ستی مہادیو ‘‘ کا یہاں سے گزر ہوا تو ستی کو یہ جگہ بہت پسند آئی۔اس خطہ کی دلفریبی اور حسن رعنائی سے متاثر ہو کر ستی مہادیو نے اس کو سیر و تفریح کے لیے چنا جس کی وجہ سے اس جھیل کو ’’ستی سر‘‘ کا نام دیا گیا۔وقت کی ٖضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگ اس جھیل کر سیر و تفریح کے لیے آتے رہے ہیں۔سیر و تفریح سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں پر کشتیاں بھی چلاہی جانے لگی۔ان کشتیوں کو باندھنے کے لیے جھیل ستی سر کے کنارے موجود پتھروں میں سوراخ کیے گئے جن کے آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔جھیل ستی سر سے پانی کا اخراج ہوا اور یہ خطہ کشمیر معرض وجود میں آیا ۔اس حوالے سے مورخین کی آراء مختلف ہیں۔

’’نیلہ مت پوران‘‘کے مطابق وادی کشمیر کو’’ جھیل ستی سر‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔محمد الدین فوق کے مطابق کشمیر کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بتائی جاتی ہے۔کہ شاستری زبان میں’’کم‘‘پانی اور’’شمیر‘‘نکالنے کو کہا جاتا ہے۔چونکہ جھیل ستی سر سے پانی کا اخراج ہوا اس وجہ سے اس کو ’’کم شیر‘‘ کا نام دیا گیا جو بعد میں کشمیر ہو گیا۔

پنڈت کلہن نے راج ترنگنی میں کشمیر کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی ہے کہ جھیل ستی سرمیں سے پانی کے اخراج کے بعد اس خطہ کا پہلا حکمران’’کشپ‘‘ تھا ۔کشپ کی وجہ سے اس کو ’’کشپ مر‘‘ کہا جانے لگا۔اور بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے یہ کشمیرہو گیا۔Greeksنے اس خطہ کشمیر کو Kasperiaبھی کہا ہے۔

اس حوالے سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ بنو اسرائیل کے کچھ قبائل وسط ایشیاء سے افغانستان اور گلگت سے ہوتے ہوئے کشمیر میں آکر آباد ہوئے۔کشمیر کی خونصورتی سے بے حد متاثر ہوئے اور کہا کہ یہ علاقہ شام جیسا ہے۔شام سے مماثلت کے باعث اس کو ’’کا اسیر ‘‘ کہنے لگے۔’’کا‘‘ کا مطلب جیسا اور’’اسیر‘‘ کا مطلب شام یعنی وہ علاقہ جو شام کی طرح کا ہے۔A land look like syria" " ۔
Charles Elison Batesنے اپنی کتابA Gazetter of Kashmirمیں لکھا ہے کہ لفظ"Kashmir"دو الفاظ"Kas"اور"Mir" کا مرکب ہے۔"Kas"کا مطلب "Light"اور میر کا مطلب"Ocean"ہے یعنیLight of ocean.علم و آگہی کی روشنی کا سمندر۔

G.M.D.Sufiکے مطابق جھیل ستی سر سے پانی کے اخراج کے بعد اس کو Kasamiraدکھا گیا۔یہ لفظ دو الفاظ کا "Ka"اور "Samira"کا مرکب ہے ۔"Ka"کا مطلب پانی اور "Samira"کا مطلب Desicated landیاDry landہے۔یعنی وہ خطہ جو پانی سے خشکی میں تبدیل ہوا ہو۔

G.M.D.Sufiنے کشمیر کی ایک اور وجہ تسمیہ بھی بتائی ہے۔کہ لفظ "Kashmir"دو الفاظ کا"Kash"اور"Mir"کا مرکب ہے۔"Kash"کا مطلب ندی نالے اور"Mir"کا مطلب پہاڑیعنی ندی نالوں اور پہاڑوں کی سر زمین۔ موجودہ کشمیر کے جغرافیائی اور طبعی خدوخال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔کہ سر زمین کشمیرندی نالوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک خطہ ہے۔

مسلم تاریخ دانوں کے مطابق جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کا گزرکرہ ارض کے اس خطہ سے ہوا تو ’’جھیل ستی سر‘‘ کو دیکھ کر حضرت سلیمان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس جھیل کا پانی خشک کر کے اس خطہ پر آبادی کا قیام ممکن بنایاجائے۔وہاں پر موجود ’’کشف‘‘ نامی جن جو کہ ’’میر‘‘ نامی پری کا عاشق تھا نے اس شرط پر جھیل سے پانی کے اخراج کی ذمہ داری قبول کی کے اس کے بعد’’ کشف ‘‘کی شادی’’میر‘‘سے کروائی جائے۔ جب ’’کشف‘‘ نے جھیل کو کاٹ کر پانی کا اخراج کر دیا تو اس کی شادی’’میر‘‘سے کر دی گئی۔اس نسبت سے اس دلفریب خطہ کشمیر کو عاشق و معشوق کی محبت میں ’’کشف میر‘‘کا نام دیا گیا۔جو بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے کشمیر بن گیا۔

ہندو نقطہ نظر سے’’ جھیل ستی سر‘‘ چاروں اطراف سے برف پوش پہاڑوں اورگھنے جنگلوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔اس جھیل میں ایک آدم خور جن’’جلد بھو‘‘ رہتا تھا۔جو ستی سر کے کنارے موجود لوگوں کو تنگ کرتا تھا اور شدید نقصان پہنچاتا تھا۔جلد بھو کے ظلم کی داستان جھیل کے اطراف سے لے کر بھمبر اور راجوری کے علاقوں تک بھیلی ہوئی تھی۔اس آدم خور جن سے لوگ مقابلہ کی سکت نہ رکھتے تھے اور بہت مایوس تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دوران برہما کا پوتا ’’کشپ رشی‘‘عبادت کی غرض اور معابد کی زیارت کے سلسلے میں جھیل ستی سر کی طرف آیا۔کشپ رشی زہد و تقوی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔جب کشپ رشی کی آمد کی اطلاع بونیر کے علاقہ راجوری میں ہوئی تو ویاں کے باسیوں نے اس کو ’’جلدبھوـ‘‘ کے ظلم وستم کی داستان سناتے ہوئے اس سے چھٹکارے کی التجا کی۔کشپ رشی کو ان مظلوم لوگوں پر ترس آیا اور جلد بھو کو انجام تک پہچانے کی ٹھان لی۔کشپ رشی نے برہما کی آشیر باد سے بارہ مولاکے قریب سے اپنے آلہ جکھرسے پہاڑی کو کاٹ کر پانی کا اخراج کیا۔ جھیل کے خشک ہونے کی صورت میں زمین نمودار ہوئی جس کے نتیجہ میں دیو ہیکل جن جلدبھو انجام کو پہنچا۔اسطرح طوفان نوح کے تقریبادو تین سو سال کے بعد زمیں نمودار ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ دریا دیوکے زمانے میں اس خطہ کا کوئی اور نام تھا۔لیکن جب اس جھیل سے کشپ رشی نے پانی نکالاتو اس نسبت سے اس کو کشپ میر کا نام دیا گیاجو کثرت استعمال سے کشمیر بن گیا۔جھیل کی خشکی کے بعد اس کے قرب وجوار سے چھ برگزیدہ برہمن لا کر آباد کیے ۔اس طرح موجودہ کشمیر کی بنیاد پڑی اوریہاں موجودہ اقوام کشمیر کا آغاز ہوا۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ کشپ رشی کی بیگم کا نام میر تھا۔جب کشپ اور میر نے اس خطہ میں رہنے کا فیصلہ کیاتو اس کو کشپ میر کہا جانے لگا۔جو بعد میں اختلاف لہجہ کے باعث کشمیر ہوگیا۔

بہرحال رائے کچھ بھی ہو لیکن تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ زمانہ قدیم میں کچھ عرصہ تک یہ خطہ پانی کے نیچے تھا۔اور آبادی کے قیام سے قبل اس سے پانی کا اخراج کیا گیا۔جھیل ستی سر کے خشک ہونے کے بعد یہاں پر جو آبادی قیام پذیر ہوئی۔اس میں ہر شخص اپنے اپنے گھر کا حکمران تھا۔اور قبیلہ کے سردارگاؤں کے علیحدہ علیحدہ حکمران تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکمرانی کی حدود میں وسعت کا شوق دامن گیر ہوا۔یہاں تک کے ایک گاؤں کے سردار نے دوسرے بہت سے گاؤں پر قبضہ کر لیا۔ قلعہ نما کوٹ تعمیر کروائے۔جس کے کشمیر میں کوٹ راج نظام قائم ہوا۔جن میں اندر کوٹ،انہر کوٹ،شبیرہ کوٹ،سودہ کوٹ،شالکوٹ،دردکوٹ،اور ہنہ کوٹ مشہور تھے۔کوٹ کے سردار کو متر کہا جاتا تھا۔عرصہ دراز تک کشمیر میں کوٹ راج کا نظام قائم رہا۔مقامی سرداروں کی آپس کے لڑائی جھگڑوں کے باعث کوٹ راج کا سلسلہ ختم ہوا۔کیونکہ اس لڑائی جھگڑے سے تنگ آکر اس وقت کے معززین نے اس نظام سے چھٹکارے کی ٖغرض سے والئی جموں پورن کرن کو دعوت دی۔ پورن کرن نے یہ دعوت بخوشی قبول کرتے ہوئے اپنے بیٹے دیا کرن کو فوج دے کے اس نظام(کو ٹ راج)کے جاتمہ کے لیے بھیجا۔دیا کرن نے3180ق م کو کشمیر ہر قبضہ کرتے ہوئے یہاں پر پہلی شخصی حکومت کی بنیاد رکھی۔جس کوکوٹ راج نظام تنگ لوگوں نے خوشی سے قبول کیا اور دیا کرن کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا۔
 

AMAR JAHANGIR
About the Author: AMAR JAHANGIR Read More Articles by AMAR JAHANGIR: 33 Articles with 26869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.