عہد ِ حاضر کا منفرد شاعر۔۔۔۔آفتاب خان

آفتاب خان کے نئے زیر ترتیب شعری مجموعے کا مسودہ دیکھ کر اور پڑھ کر مجھے ان کا ارتقائی سفر بہت بلندی پر نظر آرہا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ آفتاب خان بلاشبہ عہدِ حاضر کے ایک مقبول اورمنفرد شاعر ہیں جن کے شعر کہنے کا اپنا ایک انداز اور مخصوص اسلوب ہے جوکسی سے مستعار نہیں لیا گیا۔اس میں ان کی اپنی ریاضت اور محنت نظر آتی ہے اور پھر قدرت کی طرف سے بھی انسان کو بہت کچھ عطاہوتا ہے جیسے کہ شاعروں پر آمد ہوتی ہے مگر آمد بھی ایک خاص حد پر آکر رُک جاتی ہے اُس سے آگے کا فنی سفر شاعر کو خود طے کرنا ہوتا ہے اوراُس میں اپنا مخصوص رنگ بھرکے جدت پیدا کرنی ہوتی ہے اور میرے خیال میں آفتاب خان نے یہ سفر بڑی خوبی اور مہارت سے طے کیا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ منفرد شاعر کہلایا ہے ۔

آفتاب خان کی غزل میں اُن کی اپنی ایک مخصوص لفظیات نظر آتی ہے ۔وہ مختلف الفاظ کو مختلف مفاہیم کی صورت شعروں میں ڈھالتے ہیں۔ان کی شاعری میں مخصوص الفاظ ضرور نظر آتے ہیں مگر مجموعی طور پر وہ بہت سارے نئے پرانے الفاظ کو اپنی غزل کاحصّہ بناتے ہیں جن میں کئی الفاظ بالکل نئے بھی ہوتے ہیں جو قبل ازیں کسی اور شاعر نے استعمال نہیں کیے۔جیسے تحت الشعور اور بین السطور وغیرہ کے الفاظ پر مبنی دواشعار دیکھیں۔ ؂
کیا خوب تم سمائے ہو تحت الشعور میں
جیسے پیے بنا کوئی آئے سُرور میں
اتنا بھی سادہ ٹھیک نہیں دل کا یہ ورق
اک نام درج کیجیے بین السطور میں

آفتاب خان کی غزل ان کی تمام ترفنی ریاضت کی مرہونِ منت دکھائی دیتی ہے ۔وہ غزل کو اس کے سبھی لوازمات سمیت صفحۂ قرطاس پر اُتارتے ہیں۔اس کے لیے جہاں وہ فنی معاملات کا بطورِ خاص خیال رکھتے ہیں وہاں نِت نئے مضامین اور خیال بھی پیش کر کے غزل کے حسن اورمعیار میں اضافہ کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تازگی اورنئے پن کی وجہ سے ان کے بہت سارے اشعار مقبول ہیں اور انہیں خواص وعوام میں یکساں پسند کیا جاتا ہے ۔
چند اشعار ملاحظہ کریں۔
جو بے خبر ہے پڑوسی کے بھوکے بچوں سے
اُسی نے زور دیا ہے یہاں نمازوں پر
جو لوگ دفن ہوئے وہ بتا نہیں سکتے
کہ کس پہ خاک جمی کس پہ نُور طاری ہے
مَیں کم عقیدہ نہیں ،ہاتھ لا، کروں بیعت
کوئی توعشق کی آیت سُنا کے دیکھ مجھے
کوئی بتا دے فرشتوں کو آدمی کا مقام
یہ ایڑیوں سے بھی زم زم نکال سکتا ہے
باپ مفلس ہو تو پھر ہاتھ بٹانے کے لیے
بیٹیاں گھر سے نکلتی ہیں کمانے کے لیے
جھکنے لگا ہے دل بھی رکوع و سجود میں
تھاما ہے اُس نے ہاتھ ،یہ ہے بارگاہِ عشق
مَیں اُس کی بزم میں گیا تو اجنبی تھا ہجوم
سو میری آہ دب گئی تھی قہقہوں کے شور میں
اُلجھا گئے حیات کے پر پیچ راستے
آئی ہے جوں ہی یادِ خدا رقص کر لیا

آفتاب خان کی غزلوں میں جو الفاظ تواترسے نظر آتے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ملاحظہ ہوں۔ عشق،آفتاب،جسم ،بدن،روح، جام،رزق،گیسو،دھوپ، صحرا،رُخسار،آگ،پیاس،رُخ،حیات،محبت،حیا،ہونٹ،آنکھ،خوشبو، شام ،وصل،ہجر،نیند،خواب ،خزانہ ،غار، نقشہ ،سُرور،نظر، آلاؤ، گھاؤ،پاؤں ،بھوک،لمس،وغیرہ ۔

تراکیبِ لفظی شاعری کا حُسن ہے ۔مگر فی زمانہ یہ خوبی کم ہوتی جارہی ہے ۔اب تراکیبِ لفظی سے شعروں کی بُنت کاری کرنے کا رواج بہت کم ہوگیاہے ۔اکثر شعراء اسی مشکل عمل سے دانستہ خود کو بچاتے ہوئے سیدھے سیدھے الفاظ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تاکہ قاری ذہنی ریاضت کے بوجھل پن سے بچ سکے ۔آفتاب خان نے بھی اسی عمل کو دُہرانے سے غالباً جان بوجھ کر جان چھڑائی ہے ۔اس لیے ان کی غزلوں میں تراکیبِ لفظی کا بہت کم استعمال ہوا ہے لیکن جہاں بھی ہوا بہت خوبی اور ہنر مندی سے نئی نئی تراکیبِ لفظی کو غزل بنایا گیا۔تراکیبِ لفظی ملاحظہ ہوں۔

حجرۂ عشق، حُسنِ تجلّی ،کوچۂ گمنام،زلفِ دراز،حرفِ دید، نگاہِ طلب،ابرِ ہجر،رُخِ روشن،خلوتِ جاں، لمسِ حُسن، چشمِ بغاوت، زبورِ وقت، لباسِ روح، جوازِ سحر، رنگِ سخن، بازارِ غم کدہ، رختِ سفر، بیاضِ شعر، وجودِ عشق، نگاہِ نوازشات،دستِ باغباں، دیدارِ آفتاب، بارگاہِ عشق،وغیرہ وغیرہ ۔

آفتاب خان کی غزل میں زندگی کے بہت سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔سماجی،معاشرتی اورسیاسی حوالے سے بہت کچھ کہاگیا ہے مگران کا اصل جوہر ان کی رومانوی شاعری میں کھلتا ہے ۔آفتاب خان کی رومانی غزل کا اپنا ہی منفرد لہجہ ہے ۔انھوں نے محبوب کے حُسن وجمال اور عشق میں ڈوبی ہوئی شاعری کو رومان کی انتہائی بلند سطح عطا کی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ وہ کسی کے عشق میں ڈوب کر اور محبوب کو سامنے بٹھا کر اُس کے حُسن وجمال کی تعریفیں کررہے ہیں۔اس کا اندازہ ان کے ان رومانی اشعار سے ہوتا ہے ۔
بہت کٹھن ہے تری روح سے بدن کا سفر
جو تیرا لمس ملا ہے تو مَیں غرور میں ہوں
مَیں تیرے جسم کے اسرار جانتا ہوں سبھی
مَیں اس کتابِ محبت کی سب سطور میں ہوں
رچا بسا ہوا ہے عشق میری پَور پَور میں
نصیب سے ملا مجھے، وہ نفرتوں کے دور میں
مَیں خود کو بھول چکا اب ترا مرید ہوں مَیں
سو تجھ سے عشق بھی کرتا بہت شدید ہوں مَیں
دیکھا حیا کا نور تمہاری نگاہ میں
سرخ و سفید گال سے کرنے لگا ہوں عشق

مقطع بھی شاعری کا ایک خاص وصف ہے اور آفتاب خان کے مقطع میں ایک خاص قسم کی شاعرانہ تعلی پائی جاتی ہے ۔ان کے مقطوں میں تخلص آفتابؔ کو اُس کے حقیقی معنی کی صورت میں نِت نئے زاویوں سے نمایاں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آفتاب خان کے مقطے ایک خاص قسم کا منفرد اور نرالا لطف دیتے ہیں۔چند مقطے ملاحظہ ہوں۔
یہ میرا عشق سرایت نہ تجھ میں کر جائے
مَیں آفتابؔ ہوں نظریں جھکا کے دیکھ مجھے
اِس آفتابؔ کا ہے مرتبہ سبھی سے الگ
نہ سوچ تُو بھی ،تری سوچ سے بعید ہوں مَیں
فضا میں بانٹتا پھرتا ہے آفتابؔ چمک
یہ کام صرف وہی کر رہا ہے سب تو نہیں
مَیں آفتابؔ سخن ور ہوں ہر زمانے کا
مقام الگ ہی ملا سب کے درمیان مجھے

آفتابؔ خان کے ایسے اور بھی بہت سے اشعار موجود ہیں جو جذبے کی شدت اورصداقت سے مالا مال ہیں۔کئی سال پہلے اس کا اولین مجموعۂ کلام ’’شام‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا جس کی ادبی حلقوں میں اب تک گونج سُنائی دے رہی ہے۔ مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ اس کانیا مجموعۂ غزل اس سے کہیں زیادہ پذیرائی حاصل کرے گا۔
٭٭٭

Masood Tanha
About the Author: Masood Tanha Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.