فریال تالپور کی سب جیل اور عام جیل میں کیا فرق ہے؟

پاکستان میں کسی بھی مقبول جماعت کا رہنما ہو اس نے قید میں دن ضرور گزارے ہیں۔ پھر چاہے یہ ایام جیل میں ہوں یا گھر کو جیل قرار دیا گیا ہو۔
 

image


ماضی میں پابند سلاسل رہنے والوں میں تحریک پاکستان کے رہنما جی ایم سید، موجودہ خیبر پختونخوا کے رہنما خان عبدالغفار خان، میر غوث بخش بزنجو ، نوابزادہ نصراللہ خان اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں۔

سیاست دان اور قید
جنرل ضیاالحق کے آمریتی دور سے گھر میں نظر بندی یا گھر کو سب جیل قرار دینے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ ان دنوں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ ستر کلفٹن کو سب جیل قراردیا گیا تھا، ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو گھر میں قید رہیں۔

اسی طرح سینئر سیاست دان نوابزادہ نصراللہ کو بھی گھر تک محدود رکھا گیا۔ تاہم جی ایم سید پاکستان کے واحد سیاست دان تھے جو 1972 سے لیکر انتقال تک مسلسل قید میں رہے اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔

آجکل سندھ اسمبلی میں سپیکر چیمبر کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے، اس کے علاوہ اسلام آباد میں سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فرہال تالپور کی رہائش گاہ کو بھی سب جیل میں قرار دی گیا ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شھباز شریف کی ضمانت پر رہائی سے قبل منسٹر انکلیو میں رہائش گاہ سب جیل قرار دی گئی تھی۔ جب میاں نواز شریف کی بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوا تو ان کی رہائش گاہ جاتی امرا کو سب جیل قرار دیا گیا تھا جہاں میاں نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر قید میں تھے۔

موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی وکلا تحریک کے دوران گھر میں قید رہ چکے ہیں، ان ہی دنوں میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اعتزاز احسن کو بھی گھر میں نظر بند کیا گیا تھا۔

سیاست دانوں کے علاوہ سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو سب قرار دیا گیا تھا۔ ان کے خلاف بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اسی طرح سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو اپنے گھر میں قید رکھا گیا۔ ان پر کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا الزام ہے۔

جیل کی اقسام
جیل قوانین کے تحت جیلوں کی چار اقسام ہیں سینٹرل جیل، سپیشل جیل، ڈسٹرکٹ جیل اور سب جیل۔ ان کے علاوہ تحصیل سطح پر جوڈیشل لاک اپ بھی موجود ہیں۔

سینٹرل جیل
صوبائی حکومت کی جانب سے یہ جیل بنائے جاتے ہیں ان میں قیدیوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوتی ہے۔ ان کا قیام ڈویژن کی سطح پر کیا جاتا ہے۔ حکومت کسی بھی ڈسٹرکٹ جیل یا اسپیشل جیل کو سینٹرل جیل قرار دے سکتی ہے۔

سپیشل جیل
حکومت وقتاً فوقتاً کسی بھی جیل کو سپیشل جیل قرار دے سکتی ہے، یا کسی جگہ کو بھی سپیشل جیل بنایا جاسکتا ہے، قانون کے مطابق خواتین جیل، اوپن جیل اور بچوں کے جیل، سپیشل جیل ہیں۔

ڈسٹرکٹ جیل
یہ جیل ہر ضلعے میں ہوتی ہے جہاں سینٹرل جیل، سپیشل جیل کے علاوہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
 

image


قیدیوں کی اقسام
جیلوں میں قیدیوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے، فرسٹ کلاس یا اے کلاس میں وہ قیدی شامل ہوتے ہیں جنھیں پانچ سال قید یا پانچ سال سے زائد قید کی سزا ہوتی ہے۔

سیکنڈ یا بی کلاس میں وہ عام قیدی ہوتے ہیں جن کو تین سال سے زائد قید کی سزا دی جاتی ہے۔ سی کلاس یا تھرڈ کلاس میں وہ قیدی شامل ہوتے ہیں جنھیں ایک سال سے زائد کی سزا سنائی گئی ہے۔

اسی طرح قیدیوں کو تین حصوں میں قید رکھا جاتا ہے، ایسے جرائم پیشہ قیدی جن کو فوجداری مقدمات کا سامنا ہو، سزا یافتہ ملزم جنھیں عائد الزامات میں عدالت سزا سنا چکی ہے، اور سول قیدی یعنی جو جرائم پیشہ قیدی نہیں ہیں۔

سب جیل
1894 کے جیل قوانین کے تحت حکومت خصوصی احکامات کے ذریعے کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دے سکتی ہے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ کسی جیل میں مقررہ گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں اور قیدی کو حفاظت میں وہاں نہیں رکھا جاسکتا، یا کسی جیل میں وبائی امراض پھیل سکتے ہیں یا کسی اور وجہ کے باعث کسی بھی ملزم کو عارضی شیلٹر یا محفوظ حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔

عام جیل اور سب جیل میں تفریق
عام جیلوں میں قیدیوں کے صبح کو بیرکوں سے نکلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر ہیں اور جیل مینوئل کے تحت انھیں رہائش اور خوراک سمیت دیگر بنیادی سہولیات فراہم کی جاتیں ہیں جو محدود ہوتی ہیں۔

محکمہ داخلہ کے ایک سینئر افسر کے مطابق سب جیل میں موجود سہولیات کے حوالے سے قانون میں وضاحت نہیں اگر کسی کے گھر کو سب جیل قرار دیا گیا ہے تو وہ گھر میں موجود تمام سہولیات استعمال کرسکتا ہے، یعنی ٹیلیفون لائن سے لیکر انٹرنیٹ، ٹی وی، کھانے پینے کی اشیا سب کچھ اس کے زیر استعمال ہوتی ہیں اور صرف اس کی نقل و حرکت گھر تک محدود ہوتی ہے۔

عام جیل کی طرح ان کے کھلنے اور بند ہونے کا وقت بھی مقرر نہیں ہوتا۔

جیلوں کے مقاصد
عدالت کی تسلی اور اطمینان کے لیے ملزمان کو محفوظ جگہ پر قید رکھا جاتا ہے، جیلوں کا ایک مقصد ملزمان کو اخلاقی اور قانونی طور پر ایک قانون کا پابند شہری بھی بنانا ہے جبکہ حکومت کی ذمہ داری انھیں بنیادی ضروریات اور رہائش فراہم کرنا ہے۔
 


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: