60 سالہ پاکستانی کا وزن 330 کلو تک کیسے پہنچا؟

نور الحسن لیٹ کر کھانا کھاتے تھے۔ بیٹھ کر کھانے کی کوشش میں اِن کے ہاتھ میز تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ کھانے اور ان کے درمیان ان کا پیٹ حائل ہو جاتا تھا۔ وہ سوتے بھی پیٹ کے بل تھے کیونکہ اگر سیدھا سوتے تو ان کی سانس گھٹنے لگتی تھی۔
 

image


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد کے 60 سالہ رہائشی نورالحسن گذشتہ تقریباً آٹھ برس سے یہ معمول اپنانے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ ان کا غیر معمولی وزن ہے جو اس وقت 330 کلو گرام ہے۔ ان کی حرکت ایک ہی کمرے تک محدود تھی۔ رفع حاجت کے لیے بھی ایک مخصوص کرسی انھوں نے اسی کمرے میں بچھا رکھی تھی۔

نورالحسن کو حال ہی میں آرمی کی ہوائی ایمبولینس سے لاہور پہنچایا گیا۔ لاہور کے شالیمار ہسپتال میں وہ انتہائی درجے کے موٹاپے سے نجات حاصل کرنے کے لیے سرجری کے منتظر ہیں۔

ہسپتال کے مردانہ وارڈ میں ان کے لیے خصوصی پلنگ تیار کیا گیا تھا جس پر طبی ماہرین کی زیرِ نگرانی وہ تقریباً ایک دہائی بعد پہلی مرتبہ سیدھا لیٹ پائے ہیں۔ انھیں لیپروسکوپک سرجری کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

ہسپتال کے پلنگ سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نورالحسن نے بتایا کہ تقریباً دس برس سے وہ خود کو قید محسوس کر رہے تھے۔ 'میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میرے سگے بھتیجے کا انتقال ہو گیا اور میں اس کے جنازے پر نہیں جا سکا۔ مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا، میں بیٹھ نہیں سکتا تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ 'مجھے کسی نے بتایا کہ موٹاپے کا تو علاج ہی نہیں ہے۔ میں نے اللہ تعالٰی سے دعا کی یا تو مجھے سنبھال لے یا مجھے سکھی دن دکھا دے۔'

ان کا وزن اس قدر کیسے بڑھا؟
موٹاپے کا شکار ہونے سے قبل نورالحسن مال بردار گاڑی یا ٹرک چلاتے تھے۔ ان کے سست رو طرزِ زندگی کی وجہ سے وہ اکثر بیٹھے رہتے تھے۔ نورالحسن کے مطابق انھیں کوئی ایسی بیماری بھی لاحق نہیں تھی جس کے باعث ان کا وزن اس قدر غیر معمولی حد تک بڑھ جاتا۔
 

image


اور ایسا بھی نہیں کہ وہ کھانے کے شوقین تھے۔ 'میں وہی معمول کے مطابق کھاتا تھا، ایک پلیٹ سالن کی لے لی اور دو روٹیاں۔'

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے موٹاپے کی وجہ ان کا سست رو طرزِ زندگی بنا۔ 'میں کھانا کھا کر بیٹھ جاتا تھا، کھانا کھا کر گاڑی کا اسٹیئرنگ سنبھال لیتا'۔ پہلے ان کا وزن آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا۔ مگر انھوں نے توجہ نہیں دی۔

'میں کوئی ورزش نہیں کرتا تھا، پیدل نہیں چلتا تھا اور کوئی ایسا کام نہیں کرتا تھا کہ جس سے مجھے پسینہ آتا۔'

وزن بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کا معمولِ زندگی مزید سست رو ہوتا گیا۔ ایک وقت پر انھوں نے معمول کے مطابق چلنا پھرنا بھی کم کر دیا اور آہستہ آہستہ ترک کر دیا۔ 'دس سال قبل میں تقریباً چارپائی پر آگیا۔'

ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بعد ان کا وزن مزید تیزی سے بڑھا۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران ان کا وزن 150 کلو گرام کے قریب بڑھا ہے۔

وہ لاہور میں ہسپتال تک کیسے پہنچے؟
نورالحسن کا کہنا تھا انھوں نے مدد حاصل کرنے کے لیے کافی آواز اٹھائی مگر نہیں ملی۔ دو سال انھوں نے لاہور کے ایک ڈاکٹر سے مشورہ بھی کیا تاہم انھیں بتایا گیا کہ ان کے آپریشن اور علاج پر دس لاکھ کا خرچ آئے گا۔ اتنے پیسے ان کے پاس نہیں تھے۔ وہ بیٹھ گئے۔

ایک سال قبل ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی کہانی لاہور میں لیپروسکوپک سرجری کی مدد سے موٹاپے کا علاج کرنے کے لیے مشہور ڈاکٹر معاذ الحسن تک پہنچی۔ ڈاکٹر معاذ نے ان سے رابطہ قائم کر کے ان کا مفت علاج کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر معاذالحسن نے بتایا کہ علاج کی غرض سے چھ ماہ قبل انھوں نے نورالحسن کو مخصوص پروٹین کی خوراک دینا شروع کی۔ 'اس سے قبل ان کا وزن 360 کلو گرام تھا۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ انھیں لاہور کیسے لایا جائے۔'

صادق آباد سے لاہور کا زمینی سفر آٹھ سے نو گھنٹے پر محیط ہے۔ اس میں خطرہ تھا کہ اس قدر زیادہ وزن والے انسان میں خون کا انجماد ہو سکتا تھا۔ اس لیے ان کو ہوائی ایمبولینس میں لایا گیا۔

نورالحسن نے ایک ویڈیو کے ذریعے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تمام صاحبِ استطاعت افراد سے مدد کی اپیل کی تھی۔ آخرکار انھیں پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر میں لاہور منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹر معاذ کے مطابق پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ موٹاپے کا مریض ایئر ایمبولینس سے منتقل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال پہنچنے پر نورالحسن کے تمام تر اہم اعضا معمول کے مطابق کام کر رہے تھے جبکہ ان کی مسلسل نگرانی کی جا رہی تھی جس میں مختلف شعبہِ طب کے ماہرین کی آرا لی جا رہی ہے۔

'میں جب تک دو سو فیصد تک مطمئن نہیں ہوں گا، میں اندر (آپریشن تھیئٹر میں) نہیں جاؤں گا۔' ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل 300 کلو سے زیادہ وزن رکھنے والے افراد جن کا آپریشن کیا گیا وہ عموماً جوان تھے۔ 'پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہو گا۔'

نورالحسن کا آپریشن کیسے ہوگا؟
ڈاکٹر معاذ الحسن نے بتایا کہ نورالحسن کا آپریشن جس عمل کے تحت کیا جائے گا اسے طب کی زبان میں لیپروسکوپک سلیو گیسٹریکٹومی کہتے ہیں۔ 'اس میں مریض کے معدے کا حجم آپ 80 فیصد کم کر دیتے ہیں۔ کی ہول سرجری ہوتی ہے، کوئی پیٹ چاک نہیں کرنا ہوتا آپ نے۔'

ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کے تقریباً دو سال بعد مریض کا وزن قریباً ڈیڑھ سے دو سو کلو کم ہو جاتا ہے۔ 'جب نورالحسن کا وزن کم ہو جائے گا اور ان کے جسم پر چربی لٹک جائے گی تو اسے پلاسٹک سرجری کے ذریعے کاٹ کر درست کریں گے۔'

ڈاکٹر معاذ الحسن کے مطابق نورالحسن کو اس عمل کے لیے تیار کرنے کے لیے ایک ہفتے سے کچھ زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ نورالحسن کے وزن میں غیر معمولی اضافے کا ذمہ دار ان کا سست رو طرزِ زندگی ہے۔

'جب آپ ایک خاص حد تک وزن بڑھا لیتے ہیں اور بالکل بیٹھ جاتے ہیں تو پھر جسم کے اندر جانے والی معمول کی خوراک بھی چربی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔'
 

image


ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کون ہیں؟
ڈاکٹر معاذ الحسن کا کہنا ہے کہ وہ اس سے قبل موٹاپے کا شکار سینکڑوں افراد کے آپریشن کر چکے ہیں۔ اس میں سعودی عرب کے 600 کلو گرام وزنی شخص بھی شامل ہیں۔ اسی طرح انھوں نے ایک بچے کا آپریشن کیا جس کا وزن صرف 12 سال کی عمر میں 120 کلو گرام ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے آپریشنز میں کامیابی کا تناسب 95 فیصد ہے۔ ان کا دعوٰی ہے کہ وہ پاکستان میں باریاٹرک سرجری یعنی معدے کے بائی پاس آپریشن کی صلاحیت رکھنے والے واحد سرجن ہیں۔

نورالحسن کی گذشتہ دس برس کی 'قید' کے دنوں میں ان کی اہلیہ اور ایک بیٹی لوگوں کے گھروں میں کام کرتے تو ان کا گھر چلتا تھا۔ موٹاپے سے نجات کے بعد انھیں امید ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کاج ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس میں ان کا طرزِ زندگی سست رو نہ ہو۔
 


Partner Content: BBC

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

The 'heaviest' man of Pakistan, who weighs over 330 kg, was shifted to a hospital in the city of Lahore for his treatment, authorities said. According to reports, a group of civilian and army rescue teams transferred Noor Hassan, who hails from Sadiqabad district in Punjab province, with a special military helicopter, Xinhua news agency.