فنی تعلیم اور چند غور طلب باتیں

ہم تعلیمی میدان میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ بات ہر عام و خاص کے علم میں ہے، روازنہ اس پر تبصرے ، تجزیے ہوتے ہیں لیکن زبانی جمع خرچ، کسی کے پاس حل موجود نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیمی پالیسیاں باقاعدگی سے بنتی آرہی ہیں لیکن باوجود اس کے ہم صحیح سمت کا تعین نہیں کر پا رہے ہیں جس کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد اور نتائج حاصل نہیں ہو تے ہیں۔ تعلیم میں مقاصد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ مقاصد قومی ضرورتوں اور اُمنگوں سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ ان مقاصد کا حصول بہترین مواد کے چناؤ و ترتیب اور تدریسی طریقوں سے ممکن ہوتا ہے۔ آخر میں طالب علموں کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے مقاصد کون سے ، کتنے اور کس حد تک حاصل کئے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام نصاب سازی کے عمل سے لے کر امتحانی نظام تک بُری طرح فیل ہوچکا ہے۔ ہم نصاب میں تبدیلی اور نظر ثانی کے مفہوم سے ناواقف ہیں۔ اساتذہ کرام کے زبانوں پر ہر سال یہی ایک بات ہوتی ہے کہ نصاب تبدیل ہوگیا ہے اور ساتھ میں یہ کہا جاتا ہے کہ صرف سرِ ورق کی تبدیلی ہوئی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے، نصاب کے حوالے سے حالیہ خیبر پختون خوا ٹیکسٹ بُک بورڈ کی اسلامیات ( چہارم کی کتاب ) میں غلطیوں کی وجہ سے دوبارہ چھپائی کا عمل ہوا، جس سے نہ صرف سرکاری پیسوں کا زیاں ہوا بلکہ بچوں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوا۔ ٹیکسٹ بُک کے حوالے سے اس قسم کے واقعات صوبوں کے دیگر ٹیکسٹ بُک بورڈوں میں بھی رونما ہوئے۔ خیبر پختون خوا حکومت اساتذہ کے تربیتی مراکز کو ختم کرنے کے دَرپے ہے، یہ عمل ایسا ہوگا جیسا کہ سایہ دار شجر کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔ تعلیمی نظام میں امتحان کلیدی حیثیت رکھتا ہے لیکن تعلیمی بورڈوں کا حال و کردار سب کے سامنے ہے، دن بدن ان کی کارکردگی زوال پذیر ہے اور بد قسمتی سے کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام میں جنرل ایجوکیشن کے اداروں کے علاوہ فنی تعلیمی ادارے بھی کام کر رہے ہیں جن کو گزشتہ خیبر پختون خوا حکومت نے نجی تحویل میں دے دیا تھا، ابھی تک ان کے حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آئے، وہی پُرانا حال بے حال ہے۔ ان اداروں کا دورہ کریں ، بڑی بڑی ورکشاپ دیکھنے کو ملیں گی لیکن جب آپ کا عملی میدان میں الیکٹریشن ، ویلڈر اور میکنیکس وغیرہ سے واسطہ پڑتا ہے تو وہاں آپ کو اَن پڑھ لوگ یا تھوڑی بہت جنرل تعلیم کے حامل افراد ملیں گے۔ فنی تعلیم کے لئے ہر صوبے میں فنی تعلیمی بورڈ کام کر رہے ہیں، ان کا قبلہ بھی جنرل تعلیمی بورڈوں کی طرح بگڑا ہوا ہے۔ اس بورڈ کے زیر اہتمام ٹی ایس سی ، ڈی اے ای، ڈی کام اور ڈی آئی ٹی وغیرہ کے امتحانات ہوتے ہیں۔ چھبیس جون کو ڈپلومہ ان انفارمیشن ٹیکنالوجی ( ڈی آئی ٹی ) کے نتائج کا اعلان ہوا ، پھر کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک کہرام برپا ہو گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں طالب علم ناکام ٹھہرے، میڈیا پر یہ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ جن پرچوں میں ہزاروں کی تعداد میں طالب علموں کو فیل کیا گیا ہے وہ پرچے بورڈ حکام سے گم ہو چکے ہیں۔ اس ضمن میں راقم الحروف کے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں کہ کیا واقعی پرچے گم ہوئے ہیں؟ طالب علموں کی آوازوں کو بھی رَد نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ نتائج کے اعلان میں چار ماہ تاخیر ہوئی ، حالاں کہ عملی امتحان کے نمبر ناظم امتحانات کوممتحن حضرات نے واٹس ایپ پر روزانہ کی بنیادوں پر جمع کرائے تھے۔ طالب علموں کو اُمید تھی کہ اس بار نتیجہ وقت سے پہلے تیار ہو جائے گا لیکن ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود زیادہ تاخیر کا شکار ہوا جس نے شکوک و شبہات کو مزید ہَوا دی۔

میرا ذہن اس حوالے سے دو باتوں کی جانب مائل ہو رہا ہے۔ پہلا ، سات ہزار سے زائد طالب علموں کی کمپارٹمنٹ سے فنی تعلیمی بورڈ کو ایک کروڑ چھتیس لاکھ کے لگ بھگ کی آمدن ہوگی جس سے بجٹ میں کٹوتی کے خسارے کو پورا کیا جائے گا۔ بورڈ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ تھیوری پرچے میں فیل طالب علموں سے دوسو پچاس روپے پریکٹیکل فیس بھی وصول کی جاتی ہے۔ دوم ، یہ نہایت اہم اور غور طلب بات ہے۔ ڈپلومہ ان انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کورس سال2011 ء میں نظرثانی شدہ ہے جب کہ اُس وقت اس ڈپلومہ میں داخلے کی اہلیت ایف اے ، ایف ایس سی ، ڈی کام یا مساوی تعلیمی قابلیت رکھی گئی تھی۔ چند سال بعد اہلیت میٹرک پاس کردی گئی اور کورس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اہلیت میں کمی کے ساتھ کورس کا لیول بھی کم کیا جاتا ۔ یوں میٹرک پاس طالب علم اس کو آسانی سے سمجھ سکتے اور پاس کرسکتے۔ میرے مطابق فیل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ میری متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ وہ ان افواہوں اور حقائق کا جواب سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانکس میڈیا پر دیں تاکہ طالب علموں کے خدشات دور ہوں اور اُن کا اعتماد بحال ہو۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 265570 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.