ہمالیہ کے پہاڑوں میں لاشوں سے بھری جھیل کا راز

ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع ’ڈھانچہ جھیل‘ کے نام سے معروف روپ کنڈ جھیل سے ملنے والی انسانی باقیات کے ڈین این اے کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی تاریخ اندازوں سے کہیں پرانی ہے۔
 

image


19ویں صدی کے آخر سے یہ افواہیں گردش کرتی رہی تھیں کہ دشوار گزار پہاڑوں کے درمیان واقع اس گلیشیئل جھیل کے کنارے سینکڑوں انسانی ڈھانچے موجود ہیں۔

20ویں صدی کے وسط میں جھیل سے 500 انسانی ڈھانچے ملے تھے۔ 1960 کی دہائی میں ان کی ہڈیوں کا ریڈیو کاربن تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بہت سی ہڈیاں ایسے انسانوں کی بھی ہیں جو پہلی صدی عیسوی سے تعلق رکھتے تھے۔ برفانی تودوں کے زد میں آ کر ہلاک ہونے والے بہت سے افراد سے لے کر ایک بڑے برفانی اولے کے گرنے تک، کسی بھی مفروضے سے ان باقیات کی اصلیت واضح نہیں ہوتی۔

انڈیا، امریکہ اور جرمنی کے سائنس دانوں کی جانب سے کیے گیے ڈی این اے تجزیے سے محققین کو جھیل کی پُراسراریت سے متعلق کوئی اشارہ ملنا تھا، تاہم اس تحقیق کے نتائج نے سائسندانوں کے لیے مزید سوالات کو جنم دیا۔

ہارورڈ میڈیکل سکول کے علم نسلیات (جنیاتی علم) کے ماہر ڈیوڈ رئیک کا کہنا ہے کہ ’ڈی این اے کے تجزیے اور باقیات کے مستحکم آئسوٹوپس کے تجزیے سے ان کی عمر، غذا اور ریڈیو کاربن کی تاریخ کا تعین کرنے سے یہ ممکن ہوا کہ روپ کنڈ جھیل کی تاریخ کا علم لگا سکیں جو ہماری توقع سے زیادہ پیچیدہ ہے۔‘
 

image


یہ ڈھانچے جھیل کی سطح اور کناروں پر کیسے نمودار ہوئے؟
اس تحقیق کے دوران کل 23 مردوں اور 15 خواتین کے ڈھانچوں کے ڈی این اے کا جائزہ لیا گیا جو جھیل کے قریب سے ملے تھے۔ ان میں سے 38 کے جینوم (کسی بھی نسل میں جین سمیت کروموسوم کے بنیادی جوڑے) کا موازنہ 1521 قدیم دور کے افراد کے موجود ڈیٹا جبکہ 7985 جدید دور کے افراد سے کیا گیا۔

ان 38 افراد کے ڈھانچوں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کا تعلق موجودہ دور کے تین جینیاتی گروہوں سے تھا۔ ان 38 میں سے 23 افراد کا تعلق انڈیا کے دور حاضر کے جینیاتی گروہ کے قریب تر تھا۔ جبکہ 14 افراد کی باقیات کی مماثلت دور جدید میں یونان اور کریٹ میں بسنے والے افراد کی جینیاتی قسم سے تھی۔

ایک فرد کی باقیات کے جینیاتی جائزہ میں اس کی مماثلت جنوب مشرقی ایشیا میں بسنے والے افراد سے تھی۔ ان تمام لوگوں کی عمریں مختلف تھیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں سے ملتی جلتی جینوم والی باقیات کی تاریخ سات سے دسویں صدی عیسوی پرانی تھی۔

ظاہر ہے کہ یہ تمام مختلف وقت پر مرے تھے۔ جیسا کہ سائنسدان زور دیتے ہیں کہ یہ تمام ایک ہی وقت میں مر نہیں سکتے۔ مثلاً ان میں سے کچھ کسی برفانی تودے یا کسی دوسری قدرتی آفت کا شکار ہوئے ہوں گے۔

مشرقی بحیرہ روم میں بسنے والوں سے مشابہت رکھنے والی جینوٹائپ کی باقیات کے گروہ کی عمریں بھی مختلف تھی۔ ان کی تاریخ 17 سے 20ویں عیسویں صدی تک پرانی تھی۔

ان 23 مردوں اور 15 عورتوں میں سے کوئی بھی آپس میں رشتہ دار نہیں تھا، کچھ جوانی میں مر گئے تھے جبکہ چند بڑھاپے میں ہلاک ہوئے تھے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ارتقائی اور حیاتیاتی ماہر آئیڈن ہارنی کا کہنا ہے کہ ’ممکنہ طور پر مشرقی بحیرہ روم سے آنے والے لوگوں کی باقیات کی موجودگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ جھیل روپ کنڈ کو کسی وجہ سے نہ صرف مقامی باشندے جانتے تھے بلکہ یہ جگہ دنیا کے دوسرے خطوں کے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرتی تھی۔‘

اس تحقیق کے مصنفوں میں سے ایک جینیاتی ماہر نیرج رائے کا مزید یہ کہنا ہے کہ سائنسدانوں کو اب تک اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ بحیرہ روم کے افراد اس جھیل پر کیوں آتے تھے۔

اس موقف کے حق میں کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے، مستحکم آئسوٹوپس کا تجزیہ بھی، جو غذا کا تعین کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کی گواہی دیتا ہے۔ بحیرہ روم کے باشندے بنیادی طور پر گندم، جو یا چاول، اور جانوروں کا گوشت کھاتے تھے، جبکہ جنوبی ایشیاء کے باشندے باجرا کھانے والے جانور، باجرا یا گوشت بھی کھاتے تھے۔

محقیقین کو اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ان افراد کی موت کا تعلق کسی وبائی بیماری سے ہو سکتا ہے۔
 

image


مختلف مفروضوں کی بنا پر ان ڈھانچوں کی یہاں موجودگی کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مقامی کہاوتوں میں مشہور ہے ’پہاڑوں کی نندا دیوی کے مقدس حرم کی زیارت اس جھیل سے زیادہ دور نہیں تھی۔ یہاں آنے والے زائرین کی قیادت بادشاہ اور ملکہ خود کرتے تھے اور یہ زائرین اپنے جشن منانے کے غیر مناسب رویے کے سبب نندا دیوی کے غضب اور غصے کا شکار ہوئے تھے۔

نندا دیوی کے ماننے والے آج بھی یہاں موجود ہیں۔ انڈین ریاست اتراکھنڈ کے ضلع چامولی میں آج بھی ہر 12 برس بعد کئی روز تک نندا دیوی کی عبادت کے لیے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ روپ کنڈ جھیل اس جلوس کے راستے میں دائیں جانب واقع ہے۔

البتہ یونیورسٹی آف ہائڈلبرگ میں علم بشریات کے ڈِین اور نندا دیوی کے پیروکاروں کی زیارت سے متعلق کتاب کے مصنف ولیم سیک کے مطابق، نئی تحقیق کے نتائج کی روشنی میں اس کہانی کا کوئی وجود نہیں ملتا۔

انھوں نے خود اس جھیل کا تین مرتبہ دورہ کیا ہے، آخری مرتبہ سنہ 2004 میں نیشنل جیوگرافک ٹی وی کی ٹیم کے ہمراہ گیے تھے اور ان کے مطابق آج کے ہندو مذہب کی زیارتوں میں اس جھیل کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ جیسا کہ سائنسدان نے نیشنل جیوگرافک کے رسالے کو بتایا کہ زائرن عام طور پر اس جھیل پر اس لیے رکتے تھے کیونکہ وہ اونچائی پر آ جاتے تھے اور انھیں طویل سفر کرنا پڑتا تھا۔

ولیم کا کہنا ہے کہ لیکن یہ جھیل کبھی بھی زائرین کے لیے اہم یا مقدس نہیں رہی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ بلکہ یہ ایک گندی اور تاریک جگہ ہے۔‘

جیسا کہ ابھی سائنسدانوں نے صرف 38 افراد کے ڈھانچوں کی جانچ کی ہے، اس بات کا امکان ہے کہ جھیل میں مختلف نسل کے لوگوں کی باقیات بھی موجود ہوں۔ شاید ہم کبھی یہ جان نہ سکیں کہ کیا چیز اتنے سارے لوگوں کو روپ کنڈ جھیل پر کھینچ کر لاتی تھی۔ تاہم سائنسدان امید رکھتے ہیں کہ مزید جائزہ لینا اس ڈھانچہ جھیل کی پہیلی سلجھانے میں مدد کرے گا۔

اگلے برس، ایک مہم اس جھیل کے لئے روانہ ہوگی، جو جھیل میں اور اس کے آس پاس سے موجود نوادرات کا مطالعہ کرے گی۔.


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE:

For more than a thousand years, a lake 5,000 metres above sea level in the Indian Himalayas has been home to hundreds of human skeletons. No-one has known how or why they got there.