تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا ظالمانہ اور متشددانہ رویہ اور اسکے تعلیم پر منفی اثرات

معلم کا لفظ آتے ہی ہمارے ذہن میں اسکے بارے میں انتہائی مقدس ، شفیق، رحمدل اور ہمدرد ی رکھنے والے تعلیم یافتہ اور نرم رو شخص کی تصویر ابھر کر آتی ہے جو معصعوم بچوں کو شفقت پدری سے مکتب یا مدرسے میں تعلیم کے زیور سے آرستہ کرتا ہو دکھائی دیتا ہے ۔ مگر افسوس کہ بادی النظر میں ایسا نہیں ہے اور اب ہمارے تعلیمی ادارے پیسے کے لالچ میں معصوم بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ بچوں سے اسکول میں پارٹیوں کے نام پر ہزاروں روپے اکٹھے کرنا اور بچوں کو معمولی سی کھانے پینے کی چیزوں پر ٹرخا دینا ، مختلف مدات میں بچوں سے پیسے اکٹھے کرنا انتہائی گٹھیا حرکت ہے مگر ہر روز ان گھٹیا حرکات کا مختلف اشکال میں اعادہ کیا جاتا ہے جو باعث شرم ہے۔اسی طرح بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کیلئے خوف ذدہ کرنا ، انتہای شرمناک ہتھکنڈوں سے انہیں ٹیوشن کیلئے مجبور کرنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے جو سرکاری اسکولوں میں خاص طور پر اور غیر سرکاری اسکولوں میں عمومی طور پر بے شرمی کی حد تک بڑھ چکا ہے اور اساتذہ اپنے فرائض سے غافل اپنے ذاتی مفاد اور لالچ میں غرق قوم کے مستقبل کو تباہ کرنے میں اپنا گھناؤنا کردار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں سے شفقت اور پیار و محبت کو پس پشت ڈالتے ہوئے بچوں کی مار پیٹ اور عمر بھر کیلئے انہیں انکے مختلف اعضاء سے محروم کردینا، انہیں مادر ذاد گالیاں دینا اور انکی عزت نفس کو مجروح کرنا انکا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ہم اپنے آپکو ایک تہذیب یافتہ مسلمان قوم کہلانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جہاں ہمارے نام نہاد سیاستدانوں نے تعلیم کا دہر ا معیار رائج کرکے تعلیم کو ایک مخصوص طبقے تک محدود کر دیا ہے وہیں رہی سہی کسر سرکاری اسکولوں کے گھٹیا میعار تعلیم اور اساتذہ کی سوچ اور فکر کا محدود ہونا اور انکا بچوں پر ظلم اور جسمانی تشدد معاشرے میں شرح تعلیم کے زوال نے نکال دی ہے۔

شرمناک حد تک شرح خواندگی ، بچوں میں عدم تحفظ، غیر یقینی کیفیت، تعلیم میں نقب زنی کرنے والے اساتذہ، اسکولوں کی شرمناک حد تک حالت زار۔ یہ کس معاشرے کی تصور کشی ہے ؟؟ ہماری کیا تہذیب ہے؟؟ یہ ایک پاکستانی اسلامی معاشرہ ہے جہاں ہر وقت اسلام کا نام لے لے کر ہر قسم کی مجرمانہ سرگرمیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ یہانتک کہ ہمارے اساتذہ نے تعلیم کو بھی نہ بخشا اور سے اپنا ذریعہ دولت بنا کر اپنی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے جو انتہائی شرمناک رویہ ہے اور اسلامی معاشرے میں ایسے اساتذہ بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں ہر روز نہ جانے کتنے بچوں کو آبروریز الفاظ استعمال کرکے ، انہیں مرغا بنا کر انکے کولہوں پر مجرموں کی طرح ٹھوکریں مارنے ، انکے ہاتھوں اور جسم کے مختلف حصوں پر ڈنڈوں اور سوٹیوں کی بارش کرنے اور انہیں مادر ذاد گالیاں دیکرانکی عزت نفس مجروح کرنے کے واقعات بھی دہرائے جاتے ہیں ۔ تعلیمی درسگاہوں میں بچوں کے کان پر تھپڑ مار کر انکے کانوں کے پردے پھاڑدینا، ہاتھوں پر ڈنڈے مار کر انکے ہاتھوں اور انگلیوں کو توڑ دینے کے واقعات، سر میں ڈنڈا مار کر سر پھاڑ دینے کے واقعات، ناک کی ہڈی توڑ دینے اور بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں توڑ دینے کے واقعات ایسے شرمناک اور قبیح واقعات ہیں جن کو سن کر ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والا سلوک اور اساتذہ کا کردار پوری دنیا میں کیا پیغام دے رہا ہے۔ جہاں تعلیم کا ایک عام طبقے کی رسائی نہ ہونے میں غربت کا بھونڈا کردار ہے وہیں ہمارے اسکولوں کے غیر تربیت یافتہ اساتذہ کامتشدادانہ، جابرانہ اور ظالمانہ رویہ بھی ہے جس نے ایسے معصوم بچوں کو تعلیم جیسی نعمت سے محروم کرنے میں خوفناک کردار ادا کیا ہے۔ معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی معصومانا غلطیاں ، اسکول سے معمولی دیر ہو جانا، غربت کی وجہ سے فیس جمع کروانے میں دیر ہو جانا، سبق یاد کرنے میں کوتاہی ہوجانا ، معصوم بچوں کا کلاس میں کسی شرارت کا سر زد ہو جانا، کسی کتاب کا گھر پر بھول جانا، ہوم ورک میں بچوں کی کوتاہی یہ تمام عوامل مختلف بچوں کے گھریلو حالات اور انکی نفسیات سے گہرا تعلق رکھتے ہیں مگر ہمارے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بچوں کی نفسیات اور ان سے ہمدردانہ اور مشفقانہ رویہ برتنے سے اجتناب کرتے ہیں اور انکی ہٹ دھرمی، معصوم بچوں کو چھوٹی چھوٹی معصومانہ غلطیوں کی پاداش میں انہیں اسکول سے نکال دینا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے جس سے بہت سے بچے اپنے والدین کے خو ف سے بجائے گھر جانے کے بازاروں میں پھرتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ بچے اساتذہ کی اس دہشت گردی کاشکار ہو کر اوباش ، مجرم اور پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور یہ معاشرے کے جرائم پیشہ افراد کے جنسی تشدد کا شکار ہو کر بغاوت پر اتر آتے ہیں اور وہ نشے کے عادی ہو جاتے ہیں اور مختلف مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال ہو کر اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ اساتذہ کے ظلم و تشدد کا شکار یہ بچے جہاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر دیتے جاتے ہیں وہیں یہ بچے ہمارے معاشرے میں ہونے والے ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں جس کی تما تر ذمہ داری ان اساتذہ پر عائد ہوتی ہے جو محبت ، شفقت اور ہمدردانہ احساسات سے عاری ہوتے ہیں اور ایسے اساتذہ کی نشاندہی پرجو معصوم بچوں کا مستقبل تباہ کر دیتے ہیں انہیں اس مجرمانہ غفلت برتنے پر انکے خلاف سخت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے ملازمتوں سے فارغ کر دینا چاہئے۔جس طرح ایک اعلیٰ قسم کا کاریگرکسی بھی دھات کو شکل دیکر اسے انمول بنا دیتا ہے اسیطرح ایک اعلیٰ ، با صلاحیت اور با کردار استاد ایک معصوم بچے کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں معاشرے کیلئے ایک سود مند اور فائدہ مند انسان بنانے میں انتہائی اہم کر دار ادا کر سکتا ہے مگر اسکے لئے اسکا سند یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور بچوں کی نفسیات پر عبور رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں 40 سے 35 ہزار بچے ہر سال اساتذہ کی مار پیٹ کے خوف سے بھاگ جاتے ہیں ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو سرکاری طور پر موصول ہوتے ہیں ان میں وہ شامل نہیں ہیں جنکی رپورٹ ہی نہیں ہوتی۔یہ بچے اسکولوں میں ایسے اساتذہ کے خوف، انکی دہشت گردانہ مار پیٹ کا شکار ہو کر تعلیم سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ تعلیم سے فرار اختیار کر لیتے ہیں جبکہ تعلیم انسان میں محبت اور شفقت کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے اور ہمارے معاشرے میں کوڑے کے ڈھیر سے کھانے پینے کی چیزیں ڈھونڈھنے والے، ورکشاپس میں چھوٹے کے روپ میں صبح سے لیکر شام تک استاد کی گالیاں کھانے والے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ، بازاروں اور گلیوں میں ٹھیلوں اور چھابڑیوں میں کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرتے ہوئے معصوم بچے، ہوٹلوں پر کام کرنے والے معصوم بیرے ، گھروں میں کام کرنے والے معصوم بچے ، کاندھوں پر تھیلہ لٹکائے ہوئے جوتوں پر پالش کرتے ہوئے معصوم بچے جہاں غربت کا شکار ہو کر اپنے چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں اور بیمار اور بوڑھے والدین کیلئے محنت مشقت کرکے دو وقت کا سامان پیدا کرتے ہیں وہیں ان میں سے بہت سے معصوم بچے ایسے ظالم اساتذہ کی دہشت گردی ، انکے ظلم و بربریت اور مار پیٹ کے خوف کا شکار ہو کر تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ایک اسلامی معاشرے میں اساتذہ کے پیشے کو پیغمبرانہ پیشے سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے کے جابر، ظالم ، متشددانہ رویوں کے حامل اساتذہ نے اس پیغمبرانہ پیشے کو دہشت گردانہ پیشے میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور اس پیشے نے قصابانہ روپ اختیار کر لیا ہے جو ہمارے معاشرے کے اساتذہ کیلئے انتہائی شرمناک بات ہے۔ اساتذہ کا معصوم بچوں پر جسمانی تشدد اور بچوں کے ساتھ بیہیمانہ سلوک سے جہاں معصوم بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے وہیں یہ بچے معاشرے کیلئے بوجھ کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔تمام اسکولوں کے ایسے شقی القلب تشدد پسنداساتذہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے اور ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ انکا متشددانہ رویہ بچوں کی تعلیم حاصل کرنے میں نہ تو معاون ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے اس پر تشدد رویے ، مار پیٹ اور شرمناک غلیظ گالم گلوچ سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر کوئی اچھے اثرات رو نما ہوتے ہیں بلکہ انکی یہ مار پیٹ بچوں کو تعلیم سے دور لے جاتی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تعلیمی ماحول سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ جسمانی تشدد اسکول کے نظم و ضبط میں تباہی کا باعث بنتا ہے جس سے ایک طالبعلم کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما میں تیزی سے کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنی عادات و خصائل میں متشددانہ رویوں کا حامل ہو جاتا ہے اور اپنے ساتھ والے بچوں پر کھیل کود اور پڑھائی کے دوران تشدد کرتا ہے۔وہ اساتذہ جو بچوں کے تشدد پر یقین رکھتے ہیں اور اسکی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا ظالمانہ رویہ بر قرار رکھے ہوئے ہیں انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ انکا یہ جبرانہ اور ظالمانہ رویہ پورے معاشرے میں انکے لئے نفر کا باعث بن رہا ہے ۔اساتذہ کو اسکول میں انتہائی نرم مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اور اسکا اپنی کلاس میں پڑھنے والے ہر بچے کی جسمانی اور ذہنی بیماری کے علاوہ اسکی نفسیات سے واقف ہونا بھی بہت ضروری ہے۔کچھ بچے انتہائی محنت سے پڑھتے ہیں مگر ذہنی کمزوری کی وجہ سے کچھ یاد نہیں کر پاتے یا وہ بھول جاتے ہیں یہ انکا ذہنی اور نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے مگر اساتذہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے ایسے بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جس سے ایسے بچے مذید کمزور ہو جاتے ہیں اور وہ پڑھائی سے اکتا کر بھاگ جاتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ ایسے بچوں کی مدد کریں اور اپنا رویہ اور لہجہ ان سے ایسا رکھیں کہ ایسے بچے انکی شفقت اور محبت سے متاثر ہو کر کچھ سیکھنے کی لگن میں مگن رہیں۔ اساتذہ کا مثبت رویہ ایسے بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانے میں ممدو معاون ہو سکتا ہے۔

ہماری حکومت کو چاہئے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کے جسمانی تشدد کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے۔مذید ایسے قوانین بنائے جائیں جو بچوں اور اساتذہ کے درمیان فاصلے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ ایسے اساتذہ کو ان قوانین کے مطابق سزائیں دی جائیں جو بچوں کی جسمانی مارپیٹ اور غلیظ زبان استعمال کرنے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اساتذہ کی ورکشاپس اور سیمینار منعقد کروائے جائیں جہاں انہیں بچوں کی نفسیاتی الجھنوں کے بارے میں بتایا جائے اور اساتذہ کو بچوں کی مار پیٹ اور انہیں غلیظ گالیوں کے استعمال اور اخلاقی پہلوؤں پر روشنی ڈال کر ان میں بچوں کیساتھ ہمدردی اور محبت و ایثار کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کی سرفرازی اور بحالی کے ادروں کا قیام عمل میں لایا جائے اور ایسے اساتذہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی عمل میں لائی جا کر انکے
خلاف بھرپور اقدامات اٹھائے جائیں۔ طلباء اور انکے لواحقین کو ایسے اساتذہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے مکمل حقوق دیئے جائیں اور ایسے بچے جن پر بے تحاشہ تشدد کرکے انکے اعضاء توڑ دیے جاتے ہیں ان پر مقدمات قائم کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

معاشرے کے ایسے تمام لوگ جو بچوں کی عزت نفس اور انکے تعلیمی حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتے ہوں انہیں ایسے تشددپسنداور ظالم اساتذہ کو رد کرنا چاہئے اور ایسے اساتذہ کی سفارش کرنا یا پھر لواحقین پر معاشرتی دباؤ ڈلوا کر انہیں خاموش کروانے والوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جانے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ بچوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے اور وہ تمام عمر کیلئے جسمانی اپاہج پن سے بچ سکیں۔ ایسے اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے جو اسکولوں میں جا کر سروے کریں تاکہ ایسے اساتذہ کی نشاندہی ہو سکے جو بچوں کو تعلیم دینے میں اپنے پیشے سے رو گردانی کرتے ہوں اور بچوں کی مار پیٹ میں ملوث ہوں ۔ یہ اداروے ایسے تمام تعلیمی اداروں اور ان میں ہونے والا بچوں کے ساتھ جسمانی تشدد اور بچوں کی تعلیم میں کوتاہ نظری برتنے والے اساتذہ اور اسکولوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور رپورٹ کرنے کے مکمل طور پر اختیارات رکھتے ہوں ایسے اسکولوں اور اساتذہ کیخلاف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں انکی نشاندہی کرکے انہیں پوری عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ آئیندہ کسی معلم کو کسی بھی معصوم طالبعلم سے متشددانہ رویہ استعمال کرنے کی جرات نہ ہو۔
 
ہم ایسی تمام تنظیموں اور اداروں سے ملتمس ہیں کہ وہ ایسی تمام سرگرمیاں جو معصوم طلباء کے تعلیمی استحقاق کیلئے در کار ہوں انہیں آشکار کرتے ہوئے طلباء اور والدین کی مدد کریں اور تعلیمی اداروں میں بچوں پر ہونے والے جسمانی تشدد اور اس میں ملوث ان اساتذہ کو منظر عام پر لائیں تاکہ انکے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو سکے۔ بچوں پر جسمانی تشدد کسی بھی مہذب معاشرے میں نا قابل برداشت ہے جو انکی تعلیمی صلاحیتوں، ذہنی صلاحیتیوں اور جسمانی صلاحتیوں پر اثر انداز ہو کر ہمارے معاشرے میں تعلیم کی شرح میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں بچوں کی مار پیٹ کو فی الفور بند کیا جائے اور مار پیٹ کے خلاف بنائے گئے موجودہ قوانین کو تعلیمی اداروں میں فی الفور رائج کرتے ہوئے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہماری قوم کے بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں اور تعلیم انکا پیدائشی ، اخلاقی، قانونی اور آئینی حق ہے قوم کے بچوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ مثبت ماحول میں آزادانہ طور پربلا جبر، بلا خوف اور بلا تشدد تعلیم حاصل کر سکیں اور ملک اور قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور اسکے راستے میں آنے والی تمام طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما ہو کر تعلیم کے شوق کو فروغ دیا جائیے تاکہ ہم ایک پڑھے لکھے معاشرہ کے افراد کہلانے کا حقدار ہو۔ ہم ایسے تمام والدین کو جنکے بچے مختلف اسکولوں میں اساتذہ کے ظلم و تشدد کا شکار ہوتے ہیں وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر بلا خوف و خطر اسکی رپورٹ قانونی اداروں میں رجسٹرڈکروائیں کیونکہ یہ ایک جرم ہے اور جرم کی بیخ کنی جہاں ضروری ہے وہیں اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ تعلیم ہمار حق ہے اور اس سے محروم کرنے والا ہر شخص بلا تفریق ملک اور قوم کا مجرم ہے جسکو سزا دلوانا ہمار قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔ اسکولوں میں بچوں پر تشدد اور مار پیٹ میں ملوث اساتذہ کے جرم کو چھپانے سے اسمیں مذید اضافہ ہوگا جس سے ایسے اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ہمیں اپنے معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانے میں ایسے ظالم اور جابر اساتذہ کے خلاف بچوں کی مار پیٹ کی رپورٹ کرکے انکی حوصلہ شکنی کرنی ہے تاکہ ہمارے معصوم بچے ان کے ظلم کا شکار ہو کر تمام عمر کیلئے جاہل نہ رہ جائیں۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.