بیاد گیارہ ستمبر

آج کے دن․․․․․․․اپنے محسن و مربی ڈونلڈ ٹرمپ اوردیگر بہت سے سربراہانِ مملکت کے ساتھ نیویارک میں زیروگراؤنڈ پر پچاس سے زائد ملکوں کے لگ بھگ 3500 باشندوں کی ہلاکت کا سوگ منائیں گے ۔یہ ہلاک شدگان جن میں عیسائی، یہودی،مسلمان،ہندو،سکھ،بودھ اورملحدسب ہی تھے۔دہشت گردی کے ایک واقعے میں بے قصور اوربے خطا مرے گئے ۔ان کے ماتم داران کا جس قدربھی سوگ منائیں وہ کم ہے۔
ان بے گناہوں کی ہلاکت پر غم وماتم بجا،ساری دنیا کے انسان دوست اورامن پسندان کا غم مناتے ہیں لیکن اسے کیا کہئے کہ اس زاری وبین میں اورشور شین میں مجھے دوسری جنگ عظیم سے اب تک کے وہ ہزاروں اورلاکھوں بے گناہ مقتولین یاد آتے ہیں جنہوں نے پھل تراشنے اورسبزی کاٹنے کی چھری کے سوا،ہاتھ میں کبھی کوئی ہتھیار نہ اٹھایا تھا اورپھر بھی وہ امریکا کی ریاستی دہشت گردی کے قتیل ہوئے۔
مجھے ہیروشیما اورناگاساکی کے وہ بچے ،بوڑھے ،مرد اورعورتیں یاد آتے ہیں جن کے بدن موم کی طرح بہہ گئے ،جن کی ہڈیاں لکڑیوں کی طرح سوختہ ہو گئیں۔مجھ سے کوریااورویتنام کے وہ لاکھوں کسان،کلرک،مزدوراورمحنت کش بھلائے نہیں جاتے جو کھیتوں کھلیانوں میں ،جنگلوں اورشہروں میں نیپام اورکلسٹر بموں کا نشانہ بن گئے۔جن کوجنگ کی آگ میں مکئی کے دانوں کی طرح بھون دیا گیااورپھر یکسر بھلا دیا گیا۔کانگو،پیرو،گوئٹے مالا،گریناڈا،لیبیا، ایل سلواڈور،سوڈان، نکاراگوا، پانامہ،کہاں کے مقتولین کو یاد رکھوں اورکن کو بھول جاؤں جو امریکی بمباری کانشانہ بنے۔

آج گیارہ ستمبر 2010ء کومجھے 11ستمبر1973ء کا وہ دن یاد آتا ہے جب امریکی سرپرستی میں جنرل پنوشے نے صدر آلندے کے محل کا محاصرہ کیا، ایک منتخب صدر قتل ہوااورچلی کے سینکڑوں ہزاروں جمہوریت پسندٹینکوں کے نیچے کچلے گئے،گولیوں سے اڑادیئے گئے،جب نوبل پرائز یافتہ پابلونروداایسے عظیم ادیب کے گھر میں جنرل پنوشے کے سپاہی گھسے اورانہوں نے اس ادیب کی کتابیں سنگینوں میں پروئیں،جب سان تیاگو کے اسٹیڈیم میں چلی کے مقبول اورمشہور موسیقاروکٹرجارا نے آمریت کی شان میں گیت گانے اوراورگٹار بجانے سے انکار کیا تواس کی انگلیاں قصائی کے بغدے سے قلم کردی گئیں۔یہ وہی چلی ہے جس میں جمہوریت ،امریکی وزیرخارجہ ہنری کسینجر کی نگرانی میں قتل کی گئی۔جس نے کہا تھا ’’ہم کیوں خاموش تماشائی بنے یہ دیکھتے رہیں کہ اس ملک(چلی)کے عوام کی غیرذمہ داری سے یہاں کیمونسٹ حکومت کریں”۔

ایدوآرڈوگالیانولاطینی امریکا کا شمارصفِ اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔اس نے 11ستمبر2002ء کے سانحے کے چنددن بعد لکھا کہ”ہنری کسینجر نے بن لادن سے کہیں زیادہ دہشت گردی کی ہے۔اس نے انڈونیشیا،کمبوڈیا،ایران،جنوبی افریقہ،بنگلہ دیش اورجنوبی امریکاکے بیشتر ممالک میں ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے”۔

اورمجھے توگوئٹے مالا کے وہ دولاکھ بے گناہ شہری بھی بہت یادآتے ہیں جہیں کسی مسلمان”دہشتگرد”نے نہیں بلکہ امریکا کی مختلف حکومتوں نے فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں ختم کروایا تھا۔مجھے وہ سارے بے گناہ فلسطینی شہری یاد آتے ہیں جو صابرہ اورشتیلہ کیمپ سے لیکر آج تک غزہ کی پٹی اورمقبوضہ علاقوں میں اسرئیلی سپاہیوں کے ہاتھوں ہلاک کئے جارہے ہیں لیکن جن کی ہلاکتوں کے پروانے پر “دستخط”امریکی حکمرانوں کے ہوتے ہیں اورعراق کے لاکھوں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پرنوحہ کون کرے گاجو خلیج کی جنگ میں ماردیئے گئے اورجن میں سے لاکھوں بچے عراق پر پابندیوں کے نتیجے میں ناکافی خوراک اورادویات کے نہ ملنے سے موت کا نوالہ بن گئے اور بعدازاں اسی عراق کے آسمان ایک بار پھر امریکی آتش بازی سے دہک اٹھے اوراب تک ہلاکت نے عراق کی بستیوں پر اپنے ظالمانہ وجابرانہ پنکھ پھیلائے ہوئے ہیں۔

افغانستان جسے پہلے سویت یونین کے خلاف جنگ کے نام پر امریکیوں نے تباہ وبرباد کیا اور11ستمبر 2001ء کے بعد اس کے کوچہ وبازار میں موت و حیات کا وحشیانہ رقص ہوا۔وہ افغانستان جو پہلے ہی خانہ جنگی سے جاں بہ لب تھا،ٹوئن ٹاور زکے ملبے پرصدقے واری ہوگیا۔اس کی بستی بستیاں اوراس کی بے ضررباراتیں بھی امریکی چاندماری سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔تورابورا کے غار ،مزارشریف کا مقتل،دشتِ لیلیٰ،قلعہ جنگی میں ہتھیارڈالنے کے بعد طالبان کا قتل عام ،کنٹینروں میں سینکڑوں کی تعداد میں قید کئے جانے والے وہ افغانی جنہیں دمِ واپسیں ایک گھونٹ پانی نہ مل سکااورایک امریکی جریدے کے مطابق وہ ایک دوسرے کے پسینے سے پیاس بجھاتے ہوئے ختم ہوئے۔ہم میں سے بہت سے طالبان کے نقطۂ نظر اوران کی حکمت عملی سے یکسر اختلاف رکھنے کے باوجودان کیلئے شمعیں کیوں نہ جلائیں اوران کے ماتم دار کیوں نہ ہوں کہ وہ انسان تھے اورتمام حقوق کا اطلاق ان پر بھی ہوتا تھاجن سے انسانی حقوق کے منشور کا آغاز ہوتا ہے۔

مجھے میثاقِ تہران یادآتا ہے جس کی شق نمبر10میں حقوقِ انسانی کی نفی کرنے والی کسی بھی جارحانہ کاروائی اورمسلح تصادم کی شدید مذمت کی گئی ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی صورتحال سے یااس سے پیدا ہونے والے ردعمل کے نتیجے میں دنیا بھر کے انسان عذاب ناک تکلیفیں سہتے ہیں ،چنانچہ اس میثاق پر دستخط کرنے والے تمام ممالک اوران کی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسی کسی کاروائی میں ملوث نہ ہوں اوردوسروں کو بھی اس سے باز رکھیں لیکن مقبوضہ کشمیرمیں انسانیت کے قتل عام کا آج 37واں دن ہے،مسلسل کرفیوکی وجہ سے وہاں کے مظلوم باسیوں نے اپنے عزیزوں کی تدفین بھی اپنے گھروں کے اندرہی شروع کردی ہے۔ڈاکٹروں کومحض اس لئے گرفتارکرلیاگیاہے کہ انہوں نے مریضوں کے علاج کیلئے صرف ہسپتال کے اندر نیٹ کی سہولت کامطالبہ کیا۔اس مہزب معاشرے میں دنیاکی بدترین فسطائیت ننگی رقص کررہی ہے لیکن انسانیت کاپرچارکرنے والی اقوام عالم مجرمانہ خاموشی کے ساتھ اسے نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اپنے تجارتی مفادات کی خاطر آنکھیں موندکرتماشہ سے لطف اندوزہورہی ہے۔

اس کے علاوہ اورکیا کچھ یاد نہیں آتا۔اقوامِ متحدہ کے وجود میں آنے سے دہائیوں پہلے 1899ء اور1907ء میں ہیگ میں ہونے والی وہ کانفرنسیں یاد آتی ہیں جن میں یہ طے کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کوئی سے بھی دومتحارب فریق جنگ کے دوران کن آداب پر عمل کریں گے اورکن حدودوقیود کا خیال رکھیں گے۔پہلی اوردوسری جنگِ عظیم کے دوران مغربی اقوام ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھیں توجنگ میں جائز وناجائزمعاملات کے بارے میں کسی تحریری معاہدے کی عدم موجودگی کے بغیر تمام متحارب قوتوں نے ایک دوسرے کی شہری آبادیوں کے جانی نقصانات کے بارے میں خاص خیال رکھا۔ بمباری کے دوران یہ بات ہمیشہ ہوابازوں کے سامنے رہی کہ تہذیب وتمدن کے خزانے برباد نہ ہوں۔پیرس کا آئفل ٹاورزمیں بوس نہ ہو،ٹرافالگر اسکوائرمیں نیلسن کا مجسمہ سراٹھائے کھڑارہے اورروم کے ہزاروں برس پرانے کھنڈرات کو نقصان نہ پہنچے،میلان،ماسکو،لندن،برلن اوربون میں سینکڑوں برس پر محیط یورپی مصوری کاعظیم خزانہ محفوظ رہے۔

بیسیویں صدی کے مہذب امریکا کو دوسری جنگِ عظیم میں یہ یاد نہیں رہتاکہ اس کی لڑائی شہنشاہ جاپان کی فوجوں سے ہے ،چنانچہ وہ اسے شکست دینے کی بجائے جاپان کے دوشہروں کو مکمل طور پر نیست ونابود کردیتا ہے،اس طرح دنیا کے مہلک ترین ہتھیارکوآزمانے کوشوق بھی پورا ہوجاتا ہے اورجاپان کی حکومت بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ اسی طرح شمالی ویتنام پر اگر نئے بم آزمائے جاسکتے ہیں توکیوں نہ آزمائیں جائیں؟زردفام اقوام سے تعلق رکھنے والے شہری اگر کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرتے ہیں ، اگر نیپام فاسفورس بموں سے جھلستے ہیں تو کیا حرج ہے؟زردفام اقوام کے مردوں کی آنکھیں سنگینوں سے کیوں نہ نکالی جائیں ،ان کی حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچے کیوں نہ سنگینوں پرپروئے جائیں،ان کے اسپتال ،اسکول،یتیم خانے سینی ٹوریم،شہری پناہ گاہیں اوردیہات کیوں نہ فضائی حملوں کی زدمیں آئیں؟عراق اورافغانستان پرشب وروز بمباری ہوتو شہری آبادی کا کیوں خیال رکھا جائے؟عبادت گاہوں کااحترام کیوں کیا جائے اوران کی آبادیوں پر اتنے بم کیوں نہ برسائے جائیں کہ جب بستیوں پر قبضہ ہو تووہاں اپنے مالکوں پررونے والے وفادار کتوں ،اپنے مسمارشدہ گھروں کو ڈھونڈنے والی بلیوں اورلاشوں پر منڈلانے والے مردہ خورپرندوں کے علاوہ کوئی ذی حیات نہ پایا جائے۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پرخچے اڑاتے ہوئے ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کوتہہ تیغ کردیاجائے،آٹھ ہزارسے زائدافراد کو ٹارچرسیل میں تشددکے ساتھ قتل کردیاجائے،ڈیڑھ لاکھ سے زائدافرادکوگرفتارکرکے دوردرازجیلوں میں ٹھونس دیاجائے اور جیلوں میں جگہ کم پڑنے کے بعدسنگینوں کے سائے تلے مقامی اسکولوں اورکالجوں کی عمارتوں میں بندکرکے بھوکاپیاسارکھ کر ان کی تذلیل کی جائے،23ہزارسے زائدکشمیری خواتین کوبیوہ کردیا جائے، ڈیڑھ لاکھ سے زائدبچوں کویتیم کردیا جائے 11،140 کشمیری خواتین کی جبری عصمت دری کردی جائے،ڈیڑھ لاکھ گھروں کومحض شک کی بناء پربموں سے اڑادیاجائے اور پچھلے 37دنوں سے سارے کشمیرکوجیل میں تبدیل کرکے ان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی حماقت کی جائے تومیں پھر کیسے خاموش رہوں؟

آج 11ستمبر2019ء کونیویارک گراؤنڈزیروپر محمودوایازایک ہی صف میں کھڑے ہوکرٹریڈٹاورکے مقتولین پر آنسوبہائیں گے۔میرے آنسو مقبوضہ کشمیر سےغزہ فلسطین ،ہیروشیماسے ہرات ،مائی لائی سے مزارشریف،کابل سے کرکوک اورہنوئی سے ہلمند تک ان تمام بے گناہ مقتولین کیلئے ہیں۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.