گندے بچے

 معصوم۔گناہ وثواب۔ذات برادری۔مذہب ومسلک۔ملک وقوم۔سیاست وتجارت سے بے نیازننھے بچے من کے سچے معاشرے۔گھرخاص طورپروالدین کی آنکھوں کے تارے۔آنگن میں مہکتے پھولوں اورچہکتے پرندوں کی مانند زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کاسبب اورسنہرے مستقبل کے خوابوں کامحور ہوتے ہیں۔والدین کیلئے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہر دور میں اہم ترین معاملہ رہا ہے۔ مختلف ادوار اورمختلف ماحول۔مختلف معاشرتی تقاضے انسانی تعلیم وتربیت میں اپناکرداراداکرتے ہیں۔دیہات یاپسماندہ علاقوں میں پیدا ہونے والے بچے اپنے ارد گردکے ماحول سے فطرت کے مطابق اثر قبول کرتے ہیں جبکہ کسی بڑے ترقی یافتہ شہر میں پیدائش کی صورت میں بچے اپنی فطرت کے مطابق وہاں کے مختلف ماحول سے اثراندازہوتے ہیں۔موجودہ ترقی یافتہ دورکے پیداکردہ ماحول میں والدین کیلئے بچوں کی تعلیم وتربیت انتہائی مشکل ہوچکی ہے۔والدین اپنے بچوں کواپنے اردگردکے غیرمحفوظ ماحول اورمعاشرتی حالات سے محفوظ رکھناچاہتے ہیں۔حالات اس قدرپریشان کن ہوچکے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کوہروقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھناچاہتے ہیں جوناممکن کے قریب ہے ۔یہ سوچ اورعمل بچوں کی فطری تعلیم وتربیت کیلئے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہورہاہے۔والدین اپنے بچوں کواردگردکے ماحول کی خرابیوں سے بچانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ہم اکثراپنے بچوں کوسمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اوربچے بھی بہت سارے سوالات کرتے ہیں۔والدین بچوں کوکچھ اندازمیں سمجھاتے ہیں۔چاکلیٹ۔ٹافی۔کینڈی آپ کے دانتوں کیلئے نقصان دہ ہے۔آئس کریم۔املی سمیت کھٹی اورٹھنڈی چیزیں آپ کے گلے کیلئے مفیدنہیں اورزکام کاباعث بھی بنتی ہیں برگر۔پاپڑ۔سلانٹی۔کرکرے۔چپس۔نوڈل۔اوران سے ملتی جلتی دیگرچیزیں آپ کاپیٹ خراب کرسکتی ہیں۔بازاری کھانے پینے کی اشیاء ملاوٹ زدہ ہوتی ہیں اورصفائی کانظام بھی ناقص ہوتاہے۔گھرسے سیدھے سکول جایاکرو۔باہرکسی سے کوئی چیزلے کرمت کھایاکرو۔دوسروں کے ساتھ زیادہ فری ہونے کی اورگھرکی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔آج کل حالات بہت خراب ہیں۔لوگ بچوں کواغواء کرکے اُن پرظلم کرتے ہیں قتل بھی کردیتے۔جرائم پیشہ عناصربچوں کومنشیات کاعادی بنادیتے ہیں۔بچوں کومعذوربناکران سے بھیک منگواتے ہیں۔بچوں سے چوری۔ڈکیتی سمیت دیگرجرائم کرواتے ہیں۔بیٹا۔والدین اپنے بچوں کیلئے ہمیشہ اچھاسوچتے ہیں۔سب والدین اپنے بچوں کواچھاانسان بناناچاہتے ہیں۔معاشرے کاکامیاب اورمثالی فردبناناچاہتے ہیں۔آپ اپنی تعلیم پرتوجہ مرکوزکیاکرو۔گلی ۔محلے میں کھیلنے والے بچے زیادہ تراَن پڑھ اوربے شعور لوگوں کے ہیں جنہیں بات کرنے کی بھی تمیزنہیں۔بات بات پرگالیاں دیتے ہیں۔بیٹاآپ نے میری بات ماننی ہے۔اچھے بچے اپنے والدین کی بات مانتے ہیں۔معصوم بچے من کے سچے کچھ اس قسم کے سوالات کرتے ہیں۔بابا۔اغواء کیاہوتاہے؟ظلم کیسااورکیوں کرتے ہیں؟قتل کیاہوتاہے؟یہ لوگ کون ہیں؟ایساکیوں کرتے ہیں؟کیاایسے لوگوں کے اپنے بچے نہیں ہوتے؟بابا۔آپ میرے لئے اس قدرفکرمندہیں۔آپ بہت سمجھدارہیں۔دنیاکی تمام کھانے پینے کی چیزیں ملاوٹ زدہ اورنقصان دہ ہیں توکیاکھانے پینے والی چیزیں فروخت کرنے والوں کے بچے نہیں ہوتے؟دنیاکے لوگ ان پڑھ ہیں اُن کے بچوں کوبات کرنے کی تمیزنہیں وہ گالیاں دیتے ہیں۔میں اتنااچھابچہ ہوں۔آپ مجھے مزیداچھااورکامیاب انسان بناناچاہتے ہیں توپھرمیں ایسی دنیامیں کیوں ہوں؟آپ نے مجھے اس قدرخراب دنیامیں پیداکیوں کیا؟بابا۔کیاآپ کے بچے دوسروں سے بہت مختلف ہیں؟باباسب والدین اپنے بچوں کواچھاانسان بناناچاہتے ہیں توپھربچوں کواغواء کرکے اُن پرظلم۔قتل کرنے۔معذوربناکربھیک منگوانے۔منشیات کاعادی بناکرجرائم کروانے والے کیوں اورکیسے گندے انسان بن جاتے ہیں؟بچوں کواغواء کرنے والے اپنے والدین کی بات نہیں مانتے؟کیاایسے گندے لوگوں کے والدین نہیں ہوتے جوانہیں کوئی اچھاانسان نہیں بناتا؟ اورپھرمیرے جیسے کم علم۔کم عقل والدین کے پاس بچوں کے سوالات کے جواب میں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں رہتااورالٹابچوں کودانٹ کرکہتے ہیں جومیں تمہیں سمجھارہاہوں اسے سمجھنے کی کوشش کروباقی سب کچھ تمہیں بڑے ہوکرمعلوم ہوجائے گا۔جبکہ حقیقت میں بچوں کواغواء کرکے اُن پرظلم۔قتل۔معذور کرنے والے وہ گندے بچے ہیں جواپنے والدین کے نافرمان اورگستاخ ہوتے ہیں۔جنہیں اپنے والدین کی عزت وآبروکی فکرنہیں ہوتی۔یہ وہ گندے بچے ہیں جہیں اپنے بچوں کواچھے بچے بنانے کی فکرہے نہ ہی احساس۔ان گندے بچوں کی گندی کردارسازی معاشرتی عدم توجہ اوربے حسی کرتی ہے۔ان گندے بچوں کی تربیت اوراصلاح کی کوشش کوئی نہیں کرتاہے۔یہ گندے بچے اکثرمعاشرتی ناانصافیوں سے دل برداشتہ ہوکرجرائم اورگندے کام کرتے ہیں۔پیدائشی طورپرکوئی گندہ بچہ نہیں ہوتاسب ہی اچھے بچے ہوتے ہیں۔بچوں کوملنے والاماحول ان کی اچھی یابری تربیت کرکے اچھے یاگندے بچے بنادیتاہے۔لہٰذااچھے بچے اپنے والدین کی بات مانتے ہیں اورہمیشہ دوسروں کے ساتھ اچھائی کاسلوک کرتے ہیں
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 512098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.