فیصلہ مان لیں گے کیا؟؟

آر یس یس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ کے نمائندے اندریش کمار نے واقعی میں دل کی بات کہہ دی ، انہوںنے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ جو مسلمان شریعت میں ترمیم کرنے کے لئے تین طلاق بل کے قانون کی مخالفت نہیں کرسکے وہ بابری مسجد اراضی کے فیصلے پر کیا کہیں گے ؟۔ ان کا کہنا صدفیصد درست ہے ، ویسے مسلمانوں نے امن کا امرت پی رکھا ہے اور وہ جوابی کرروائی کرنے سے گریز ہی کریںگے ۔ وہیں دوسری جانب ہمارے قائدین و عمائدین چلا چلا کر یہ کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد کی اراضی کے تعلق سے سپریم کورٹ جو فیصلہ دیگا اس فیصلے کو ہم قبول کرینگے اور اس پر منفی رد عمل ظاہر نہیں کریںگے ، اسکے علاوہ اس بات کی بھی شہادت دی جارہی ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں ، ہم جمہوریت کو ماننے والے ہیں ، عدلیہ کے پاسدار ہیں ، امن کے پیمبر ہیں ، عدل کے نمونے ہیں ، صبر و استقلال کی مورت ہیں۔ ہمارے قائدین کا جو طرز عمل اور طرزقول عوام کے سامنے آرہاہے وہ ضرور بہ ضرور مشکوک ہی ہے بھلے اس میں ہم جیسے لکھنے والے قلمکار بر ے کیوں نہ ہوجائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے قائدین کا وہ قول جس میں کہا جارہاہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو مان لیں گے وہ غلط بات ہے ۔ اگر واقعی میں مسلمان بابری مسجد کے تعلق سے لئے جانے والے فیصلے کو ماننے کے لئے تیار ہی ہوتے تو اتنے طویل عرصے سے قانونی لڑائی لڑنے کی کیا ضرورت تھی ۔ خدانہ کرے کہ بابری مسجد کی اراضی کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہ آئے یا پھر عدالت یہ کہہ دے کہ الہٰ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اسی فیصلے کے تحت کچھ نہ کچھ مفاہمت کرتے ہوئے دونوں فریقین مان لیں تو کیا مسلمان مان جائیں گے ؟۔ اگر نہیں مان سکتے ہیں تو کیونکر یہ واویلا مچارکھا ہے کہ ہم عدالت کا احترام کرینگے ، ہم عدالت کی بات کو مانیں گے ۔ جب عدلیہ پر اتنا ہی یقین ہے اور عدالتوں میں انصاف کی امیدیں بنائی رکھی جاسکتی ہیں تو ایودھیا کی نچلی عدالتوں ، فیض آباد عدالت پھر بعد میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کی درخواست کو مانا جاسکتاتھا ، کیا ضرورت تھی کہ معاملے کو سپریم کورٹ میں کیوں لے جایا گیا ؟۔ بہت ہوگئی یہ حکمت و مفاہمت کی باتیں۔ مسلمانوں کو گمراہ کر نے کے لئے سنگھ پریوار اور مسلم پریوار کی جانب سے جو بیانات دئے جارہے ہیں اس پر ذرا غور کریں کہ کس طرح سے ہمارے بیانات میں تضاد ہے ۔ ہندو فریق کہ رہا ہے کہ ایودھیا کے تعلق سے جو بھی فیصلہ آئے گا ہم مان لیں گے ، رام مندر بنانے کے لئے تیاریاں شروع ہوچکی ہیں ، مسلمان خوفزدہ نہ ہوں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا البتہ اتر پردیش میں پولیس کی مدد کے نام پر 16000 سنگھ کے کارکنوں کو پولیس کے ساتھ جوڑدیا ہے ، توسوال یہ ہے کہ جب عدالت کے فیصلے پر یقین ہے تو کیوں آپ نے مندر بنانے کے لئے ابھی سے تیاری شروع کردی ہے ؟۔ مسلمان کیوں نہ خوفزدہ ہوں ، جب آپ خدانخواستہ جیت جاتے ہیں اور مسلمانوں کو گالی گلوچ کرتے ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں تو کیا ہم خوفزدہ نہ ہوں ؟۔ جب خوفزدہ ہونے کا سوال ہی نہیں ہے تو آپ نے اتر پردیش میں کس لئے 16000 سنگھ کے کارکنوں کو پولیس کے ساتھ کردیا ہے ؟۔ وہیں مسلمانوں کو صبر سے رہنے کی ہدایت دینے والے ہمارے علماء و عمائدین و قائدین کو بھی چاہئے تھا کہ وہ مسلمانوں سے زیادہ دوسری قوم کے لوگوں میں اس بات کی اپیلیں کریں ۔ جس طرح سے مسلم لیڈران مسلمانوں سے اپیل کررہے ہیں اسے دیکھ کر ایسا لگ رہاہے کہ عیدین و تہواروں کے موقع پر محکمے پولیس پیس میٹنگ کے لئے بزرگوں اور معصوم لوگوں کو بلاکر امن قائم رکھنے کی ہدایت دیتےہے اور فسادات کے موقع پر پیس میٹنگ کے شرکاء جس طرح سے گھروں میں دبک بیٹھے رہتے ہیں اسی طرح سے ہمارے قائدین بھی امن کی درخواستیں امن قائم کرنے والے سے ہی کررہے ہیں ۔جملہ طورپر ایسا محسوس ہورہاہے کہ ہمارے اس ماہ میں اخبارات میں چھائےرہنے کے لئے بس یہ ایک مدعا ہے کہ امن کی درخواست کریں ۔ رہی بات بابری مسجد اراضی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ماننے کی بات کی تو بتائیں کہ اگر عدالت کہہ دے کہ اس زمین کو مندر کے حوالے کردیا جائے تو کیا اس حکم کو مانا جائیگا اور اگر مانا جائیگا تو کل تک دئے جانے والا وہ بیان جس میں کہا گیا تھا کہ مسجد ہو یا کوئی اور وقف کی زمین وہ تاقیامت تک منشائے وقف کے ہی مطابق رہے گی تو کل کیا قدم اٹھائینگے ۔ کہنا آسان ہے کہ فیصلہ مان لیں گے لیکن فیصلوں کو ماننے کے بعد جو منفی و مثبت امکانات ہیں اسکے جوابدہ کون ہیں ؟۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.