محنت کرو اور کامیابی حاصل کرو!!!!!

حشام کالج میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا۔ وہ پڑھنے کی بہت کوشش کرتا تھا لیکن اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا۔کالج کے اساتذہ اس پر بے حد محنت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ کوئی بھی کام کر کے نہیں آتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فرسٹ ائیر سے پہلے ہی کالج چھوڑ گیا۔ گاؤں میں فارغ پھرتا تھا تو اس کے پاس کچھ چھوٹی کلاس کے بچے آنا شروع ہوگئے جن کو وہ ٹیوشن پڑھا تا تھا۔پھر کچھ دوستوں نے سکول کھولنے کا مشورہ دیا تو ایک گھر کرائے پر لے کر اس نے سکول شروع کردیا۔چند سال میں ہی اس کے سکول میں بچوں کی تعداد چارسو سے بڑھ گئی۔یہ بات رانا احسن سلیم صاحب نے ایک ملاقات میں بتائی جو گورئمنٹ کالج آف کامرس اوکاڑہ کے پرنسپل ہیں۔ اس ملاقات میں Moralitiesکے بانی جناب اعجاز علی صاحب میں موجود تھے۔ بات ہورہی تھی ہمارے آج کے نطام تعلیم کی۔ہمارا موجودہ نظام تعلیم اور اس کا نصاب وہی ہے جو آج سے کافی سال پرانا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آج اسی تعلیمی نظام کی بدولت ہم پڑھے لکھے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ نوکری کی تلاش میں ہوتے ہیں اور ان پڑھ لوگ اپنا کاروبار احسن طریقے سے چلا رہے ہوتے ہیں اور بہت سے پڑھے لکھے لوگ ان کے پاس ملازمت کے حصول کے لیئے دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ہمارے نظام تعلیم میں سارانصاب Theoritical ہے اس میں Practicalکچھ بھی نہیں ہے۔ جب ڈگری مکمل کر کے طالب علم ملازمت کے حصول کے لیئے جاتا ہے تو سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس تجربہ کتنا ہے؟۔جو چیزیں اس نے نصاب میں پڑھی ہوتی ہیں اس کا اصل زندگی میں اور کاروبار میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلا ٹارگٹ یہی ہوتا ہے کہ نوکری حاصل کرنی ہے۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنا کاروبار کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور کامیاب بھی وہی رہتے ہیں۔اپنا کاروبار کرنا ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن جو لوگ اس مشکل کام کا بیڑا اٹھا تے ہیں اﷲ بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ اﷲ نے رزق کا ذیادہ تر حصہ کاروبار میں رکھا ہے۔ کاروبار کرنے سے نہ صرف کاروبار کرنے والے کو آمدنی آنی شروع ہوجاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ایک شخص کے فیصلے کی وجہ سے بہت سے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔

ہمارا نظام تعلیم طلبا ء میں سستی اور کاہلی پیدا کرتا ہے۔ ان کو ہر چیز پکی پکائی کھانے کی عادت ہوجاتی ہے۔کچھ کرنے کی خواہش ان کے اندر سے ختم ہوجاتی ہے۔ امتحانا ت سے پہلے نوٹس اور گیس پیپرز سے رٹا لگاتے ہیں۔پریکٹیکل میں سفارش چلواتے ہیں۔امتحان میں کامیابی کے بعد ان کے اندر آفیسر بننے کی خواہش ہوتی ہے۔کہ وہ دفتر میں جائیں ۔اردگرد نوکر چاکر ہوں ان کو کوئی کام نہ کرنا پڑے اور مہینے کے اختتام پر ان کو تنخواہ دے دی جائے۔ بہت سے نوجوان جو گورئمنٹ جاب کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کے لیئے لاکھوں روپے بھی دینے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔اس کے پیچھے بھی آرام اور دولت ہی کار فرما ہوتی ہے۔اگر تو ان کو ایسی ملازمت مل گئی جس میں رشوت کا دور دورہ ہو توپھر تو کسی بھی فائل کو ہاتھ لگانے سے پہلے ان کے ہاتھ دولت سے گرم ہونے ضروری ہیں۔اگر ان کو پیسے نہ ملے تو اس فائل میں ہزاروں غلطیاں آپ کو دیکھا دی جائیں گی۔ اگران کو پیسے مل گئے تو تما م غلطیاں درست ہوجائیں گی۔اگر رشوت والی نوکری نہ ملی تو اپنا اصل کام تو گیا بھاڑ میں ۔ ساتھ میں وہ پارٹ ٹائم ملازمت شروع کردیں گے کہ خرچے پورے نہیں ہوتے۔اپنی اصل ملازمت کو صرف ایک یا دوگھنٹے دیں گے اور باقی سارا وقت اپنی پارٹ ٹائم جوب کویا اپنے پارٹ ٹائم بزنس کو دیں گے۔
 

Tanvir Ahmed
About the Author: Tanvir Ahmed Read More Articles by Tanvir Ahmed: 71 Articles with 81011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.