بچے جو ہم سب کی محبتوں کا محور ہوتے ہیں ان کو
خوشگوار زندگی فراہم کرنا ان کے ماں باپ کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری ہے
اور بچوں کو مناسب غذا کی فراہمی تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا
ریاست کی اولین ذمہ داری قرار دی گئی ہے-
|
|
مگر ڈیرہ اسماعیل خان کی سڑکوں پر اکثر ایسے معصوم بچے نظر آتے ہیں جن کی
عمریں چار سال سے دس سال کے درمیان ہوتی ہیں یہ افغانی بچے جو سرخ و سپید
رنگت ، سنہری بالوں اور چمکدار براؤن آنکھوں کے ساتھ ہر دیکھنے والے کی نظر
اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں-
حالیہ دنوں میں ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ان بچوں میں سے ہی ایک
بچی شاہین بھی ہے جس کی عمر چار سال ہے اور جو اپنے کمزور کاندھوں پر جوتے
پالش کرنے والے تھیلے کے ساتھ اپنے پورے گھر کے اخراجات کا بوجھ بھی اٹھا
رہی ہے-
شاہین کے مطابق اس کے والد بیمار ہیں اور وہ لوگوں کے بوٹ پالش کر کے
روزانہ دو سو روپے تک کما لیتی ہے شاہین کے مطابق ان کی قوم میں جب لڑکی
بڑی ہو جاتی ہے تو گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ہے-
|
|
وہ لوگ افغانستان سے ہجرت کر کے آئے تھے کیوں کہ وہاں پر خانہ جنگی کے سبب
ان کو نہ تو غذا ملتی تھی اور نہ ہی دوائیں میسر تھیں ۔ شاہین نے اس موقع
پر یہ بھی کہا کہ وہ بھی چاہتی ہے کہ دوسرے بچوں کی طرح اسکول جائے مگر
پیسوں کی کمی کی وجہ سے وہ لوگوں کے جوتے پالش کرنے پر مجبور ہے-
ایسے کم عمر بچوں کا سڑکوں پر اس طرح محنت مزدوری کرنا چائلڈ ایکٹ کی شدید
ترین خلاف ورزی ہے
اور ان بچوں کا اس طرح کام کرنا انسانی حقوق کی بھی شدید خلاف ورزی ہے مگر
سوال یہ ہے کہ شاہین اور اس جیسے دوسرے بچے جو ہمیں اپنے ارد گرد نظر آتے
ہیں ان پر صرف افسوس کرنے کے بجائے ان کی بہبود کے لیے اقدامات کرنا صرف
حکومت یا اقوام متحدہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری ہم سب پر
بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم ان بچوں کی بہبود کے لیۓ کام کریں اور ایسے بچوں کو
اسکولوں میں داخل کروائیں-
|