آخری لیکچر۔۔۔۔!!!

ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر کے پاس گیا اور مکمل معائنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ پروفیسر بیٹھیں، اسے مکمل اعتماد میں لے کر کہا، مسٹر پروفیسر آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو برین ٹیومر ھے، اور آپ کے پاس صرف چھ ماہ کا وقت ہے، اس پر پروفیسر کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے، کیا وہ مایوس ہو گا، روئے گا، پیٹے گا، افسردہ اور غمگین ہو کر گھر لوٹے گا جاتے ہی مایوسی کے عالم میں بیڈ پر پڑا موت کا خوف لئے، انتظار کرے گا، یہی تو ھوتا ھے ھمارے معاشرے میں، آج کل کورونا کے خوف سب لوگ مایوس ھورہے ھیں، مجھ سمیت زیادہ تر لوگوں کی حالت ایسی ھے، کچھ لوگوں نے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا، کچھ نوجوان بھی مایوس، خوف زدہ اور پریشان ہیں، مگر امریکی پروفیسر ذرا بھی پریشان نہیں ھوا، اس نے اگلے لمحے ھی سوچنا شروع کر دیا، اور طے کر لیا کہ وہ کیا کرے گا؟ وہ آکر نوحے سنانے یا گھر والوں اور طلباء کو مایوس کرنے نہیں بیٹھ گیا بلکہ پورے چھ ماہ کا منصوبہ بنایا جسے اس نے چھ ماہ سے پہلے مکمل کیا وہ منصوبہ تھا" دی لاسٹ لیکچر" کے عنوان سے لکھی گئی کتاب، جس میں پروفیسر نے زندگی کا نچوڑ بھر دیا ،وہ کتاب امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ فروخت ھونے والی کتاب بنی، اس کتاب سے لوگوں نے اپنی زندگیاں بنائیں، مشن مکمل کیے، لاکھوں لوگوں کے ذھنوں میں مقصد زندگی بھر دیا، اس نے لوگوں کے فائدے کا یہ عظیم کارنامہ اس بیماری میں پورا کیا، بدقسمتی سے ھم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم تخلیق انسان کا سرعام مذاق اڑاتے اور وقت ضائع کرنے میں ماھر ھیں، ھم مالی نفسیاتی، روحانی اور اخلاقی طور پر کمزور ہو کر ھاتھ پھیلانا تو آسان سمجھتے ہیں لیکن کام اور جدوجہد کا نہیں معلوم، کہیں مایوسی، کہیں خود غرضی، اور کہیں فخر وتکبر ھمارا سکھ چین چھین لیتا ہے، کیا اپنی موت کو سامنے دیکھ کر بھی ھمارے ھاں کوئی مشن بنا سکتا ہے، ھاں آپ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو دیکھیں، ایک سال پہلے انہیں معلوم ھوا کہ انہیں ٹی بی کا مرض لاحق ہے، مگر علاج موجود نہیں تھا، انہوں نے مشن پاکستان کو تیز کر دیا صرف ایک سال میں مکمل کر کے دکھایا، لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں لکھا ھے کہ اگر مجھے معلوم ھوتا، کہ جناح بیمار ھے اور وہ مر جائے گا تو میرے لیے پاکستان ایک سال لیٹ کرنا کوئی مشکل نہیں تھا، میں بھی سوچ رہا تھا کہ آج حرف آخر کے نام سے ایک سیریز لکھوں کیوں کہ سوشل میڈیا کے ھجوم، جھوٹ، الزامات اور دھوکا دہی کے مناظر دیکھ دیکھ " تھک گیا ہوں" پھر سوچا نہیں، بے شمار طلباء ھیں، شاید ایک بندہ پڑھتا اور کوئی فایدہ حاصل کرتا ھو اس لئے قلم حرفِ آخر سے پھسل کر لاسٹ لیکچر پر رک گیا، اس لئے آنے والے لمحات کا کچھ معلوم نہیں ھوتا، مگر امید اور اللہ کی رحمت تو موجود ہے، اس یقین کے ساتھ کہ کل سورج طلوع ھو گا! پھر شروع کیا، ھمیں کورونا کے حالات دیکھ کر طویل عرصہ اس کے ساتھ رہنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے، دنیا میں متاثرین کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچنے والی ھے، سائنس بھی ارتقا کے نئے مرحلے میں ھے، چونکہ کورونا اس تاریخ کا نیا اور خطرناک وائرس ھے اس لئے ارتقاء اور تحقیق تو جاری رہے گی پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاھور اور انتہائی محدود شہر اسلام آباد میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے، اور تعداد بڑھنے کا خطرہ ہے ان حالات میں جس لوگ فرنٹ محاذ پر کام کر رہے ہیں ان کو دعاؤں، حوصلے اور حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے ان میں، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس، سیکورٹی کے ادارے، کئی سرکاری اور نجی ملازمین شامل ہیں جبکہ جن کا روز کا روزگار ھے، انہیں بھی حوصلہ چاھیے، باقی لوگوں کو مثبت سوچ، اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بہترین وقت میسر ھے اس کو مشن بنایا جا سکتا ہے، مریضوں کی سہولت اور خدمات کا راستہ موجود ہے، غریب عوام تک کھانے کی اشیاء پہنچانا بھی ایک بڑا کام ہے، صرف مایوسی اور خوف سے نکلنا ہے، سفر شروع کریں گے، قافلہ خود بنتا چلا جائے گا اور اس وبا کو اپنی اچھی عادات میں بدل دیں، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، ملاوٹ، قتل وغارت گری، عزتوں کو پامال کرنا اور رزق کو چھننے جیسے اجتماعی گناہوں سے کنارہ کش ہو جائیں، کیونکہ معتبر ایمان یہی ہے کہ روز محشر اور سزا وجزا کو مان لیں اگر پردہ اٹھ گیا تو معافی بھی قبول نہیں ھوگی، لاسٹ لیکچر کی بجائے لاسٹ سٹرگل شروع کر دیں، وقت ھے کہ گزر جائے گا،
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی!!!!!

 

Sardar Khursheed Akhter
About the Author: Sardar Khursheed Akhter Read More Articles by Sardar Khursheed Akhter: 89 Articles with 60491 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.