کراچی کا سفر - پانچویں قسط

بس اسی کشمکش میں دو دنوں کا بائی روڑ سفر بلآخر اختتام پزیر ہونے والا تھا اور صبح عین فجر کے وقت کراچی اڑّے پہ جا پہنچنا تھا ۔ان آخری گھنٹوں میں میرا کام صرف یہی رہ گیا تھا کہ میں بغیر پلکے جھپکاۓ عین نظروں کے سامنے سجی گھڑی کی طرف اپنی پوری توجہ مرکوز کرکے ایک ایک لمحے کو گنتے ہوۓ فجر کے اس پہر کی آمد کا انتظار کرتی جو ہمیں کراچی اڑّے پہنچے کی نوید سناتا ۔ خدا خدا کرکے بلآخر وہ بابرکت لمحہ آہی گیا اور میں نے پہلی بار روشنیوں کا شہر کہلانے والی کراچی کو اپنے ہر طرف محسوس کیا ۔ بلندوبالا عمارتوں سے سجا ہوا کراچی کا وہ خوبصورت شہر جسے میں نے اس سے پہلے صرف خبروں اور ڈراموں میں دیکھا تھا ۔ فجر کے اس ابتدائی روشنی میں گزری ہوئی رات کے ہلکے ہلکے سیاہی مائل سائیں ابھی بھی موجود تھے ۔اس وقت کراچی کا شہر اور اس کی سڑکیں کانوں کے پردے ہلانے والی شور،قطاروں ہی قطاروں میں لدی ہوئی ٹریفک اور ہر طرف موجود لوگوں کی جھرمڑ سے پاک نظر آرہا تھا ۔ دور دور تک کراچی کا سما خاموش اور پرسکون نظر آیا ۔ آدھے کراچی والے نیند میں اپنے خوابوں کے اختتام پزیر ہونے کا انتظر کرہے تھے تو آدھے اپنے نئی صبح کا آغاز کرنے کے لیئے ابھی ہاتھ پیر ہلانے میں مصروف تھے ۔بس سے اترتے ساتھ ہی کراچی پہنچنے کی خوشی ، اپنے کزنس سے ملنے کی بے چینی اور آنے والے دنوں میں کراچی گھومنے کی مسرت جیسے دل میں سوئے ہوۓ جزبات دوبارہ سے جاگ اٹھے تھے ۔

اڑّے پہ بس سےنکل کر چچا اور چچی اپنے اپنے سامان بس سے اتارنے اور اکھٹا کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ تب تک میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ میں برابر ميں ہی موجود ايک خشک درخت کے سوکھے ہوۓ ٹہنیوں کے زیر سایہ کھڑے ہوکر اپنے آپ کو اس بات کا یقین دلاوں کہ " بیٹا !تو بلآخر کراچی پہنچ ہی گئی " ۔ پھرہر طرف دور دور تک نظروں میں پھیلے ہوئے ان بلڑنس پہ غور کرتی رہی ۔ان عمارتوں میں وقت کا چکر کاٹتے ہوۓ وہ سبھی لوگ ،ان کا رہن سہن ، انکے اپنے الگ زندگی گزارنے کے طور طریقے اور نجانے کیا کیا خیالات زہن کو الجھانے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک لڑ کھڑاتی ہوئی آواز جیسے تصوراتی دنیا کے سبھی دیواروں کو پھلانگتے ہوۓ قریب آتی گئی اور ساتھ ساتھ شدت بھی اختیار کرتی گئ ۔پھر ایسا لگا جیسے وہ آواز ایک ہی لمحے میں مجھے خیالوں کی دنیا سے نکال کر میرے قدم حقیقی دنیا میں رکھوا چکی ہو ۔جب دھیان عمارتوں سے ہٹ کر سامنے مرکوز ہوا تو دو تین قدم کے فاصلے پہ ایک ظعیف کانپتے وجود کے ساتھ ہاتھ پھیلاۓ عمر رسیدہ خاتون کو کھڑا پایا جو مجھ سے مخاطب تھی ۔ بڑی غور وفکر کے باوجود مجھے یہ تو سمجھ میں نہیں آسکا کہ وہ آخر کہہ کیا رہی ہے ہاں البتہ ان کے ہلیے اور بولنے کے انداز سے یہ ضرور سمجھ میں آیا کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہے ۔ ابھی سوچا ہی تھا کہ پرس میں ہاتھ ڈالکر پچاس روپے پکڑاکر چلتا کروں ویسے بھی پہلی بار کراچی آئی تھی اور کراچی کی زمین پہ قدم رکھتے ساتھ ہی نیکی کرنے کو مل رہی تھی پھر میری نظر ہاتھ میں لٹکتے ہوۓ تھیلے پہ پڑی جس میں دو تین قسم کے کچھ پھل ، کچھ بسکٹس کے بچے کچے ڈبّے اور ایک جوس کا پورا ڈبّہ پڑا ہوا تھا ۔بس پھر بے اختیار تھیلے والا ہاتھ اس خاتون کی طرف بڑھا دیا ۔وہ خاتون کچھ دیر کے لیۓ کبھی مجھے تو کبھی اس تھیلے کو دیکھتی رہی ۔شاید اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اس تھیلے میں ہے کیا ؟ یا پھر اسے لگ رہا تھا جیسے میں کوئی مزاق کر رہی ہوں ۔کچھ دیر کے لیۓ تو مجھے بھی سمجھ نہیں آیا کہ آخر اس کے چہرے پہ ہر سو پھیلی اس حیرانگی کی وجہ کیا ہے ۔اس خاتون کے تجسس اور حیرانگی میں ڑوبے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر تو کچھ لمحوں کے لیۓ میرے دل میں ایک شرمندگی کا احساس بھی پیدا ہوا ۔سوچا کہ تھیلے ميں میرے بقایا بچے کچے کھانے پینے کے اشیاء قبول کرنا شاید اسے پسند نہ آۓ ۔اس عورت نے ہاتھ بڑھایا ،تھیلہ پکڑتے ساتھ ہی اسے کھول کر ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے لگی ۔پھر ایک دم سے اس کا کچھ دیر پہلے تک حیرانگی میں ڑوبا ہوا چہرہ ایسے کھل اٹھا جیسے کسی صحرا میں خشکی سے مرجھایا ہوا پودا بارش برسنے پہ دوبارہ کھل اٹھتا ہے ۔اس کے چہرے پہ خوشی اور مسرت کے آثار شدت سے نمایا ہورہے تھے ۔اس کے خوشی سے منور ہوتے چہرے کی روشنی میرے دل کو بھی روشن کر رہی تھی ۔مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میرے اس عمل سے اس خاتون کے جزبات ایسے ہونگے ۔اس خاتون کی غیر متوقع خوشی سے مسرت کی لہر تو دل میں پیدا ہوئی مگر اس کے زبان سے نکلنے والے وہ دعائیاں جملے جیسے دل میں پیدا ہونے والی ان لہروں میں اضافہ کر رہے تھے ۔پھر آخر میں وہ خاتون میرے سر پہ اپنا ہاتھ پھیر کردعاؤں کے ساتھ جاری زبان اور مسکراتے ہوۓ چہرے کے ساتھ وہاں سے گزر گئی ۔وہ چلی تو گئی مگر پیچھے میرے لیۓ ایک سوال ضرور چھوڑ گئی ۔وہ سوال جو میں نے خدا سے کیا ۔وہ یہ کہ خدایا !کیا میں اس نیکی کے قابل تھی ؟ کیا میں اس قابل تھی کہ میں کسی کے چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ کی وجہ بنوں ۔اگر ایسا تھا تو خدا کا شکر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Noorin shafa
About the Author: Noorin shafa Read More Articles by Noorin shafa: 20 Articles with 17320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.