کل کیا تھا کل کا وعدہ آج پھر وعدہ ء کل۔۔۔

کل کیا تھا کل کا وعدہ آج پھر وعدہ ء کل۔۔۔
افضل رضوی ایڈیلیڈ آسٹریلیا
اگلے زمانوں کی بات ہے لوگ منہ پر سچ بول دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات اس کے بدلے جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے لیکن اب ایسا زمانہ آگیا ہے کہ جھوٹ کو سچ ماننا پڑتا ہے اور سچ کہیں نظر وں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ یہ کہاوت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ دور کیو ں جاتے ہیں، ماضی قریب ہی کی بات ہے جب وطنِ عزیز میں پٹرول کی قیمتیں بڑھی تھیں تو سماجی رابطے کی ایک مشہور ایپ پر ایک سیاسی شخصیت کا عوام کے حق میں ایسا بیان شائع ہوا تھا جس سے عوام الناس سے یہ سمجھ بیٹھے تھےکہ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والا سامنے آگیا ہے اب چوروں، اچکوں اور ڈاکوؤں سے نجات مل جائے گی۔ ملک کی دولت چند افراد کی جیبوں میں جانے کے بجائے حکومتی خزانے میں جائے گی اور یوں ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ موصوف نے لکھا تھا، ”2018ء کے آغاز پرجس طرح حکومت نے غریب عوام پر پٹرول بم گرایا ہے، یہ انتہائی شرمناک بات ہے۔ حکومت نے ٹیکس میں اصلاحات لانے اور منی لانڈرنگ کے مکروہ دھندے پر قابو پانے کے بجائے اس مرتبہ تیل کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر عوام پر ایک بڑا بوجھ ڈالا ہے“۔

“Absolutely shameful how the govt has dropped a petrol bomb on the poor nation at the start of 2018. Instead of undertaking tax reforms and cracking down on money laundering, the govt continues to burden the masses- this time with a big increase in petroleum products’ prices”.

اس بیان کو آئے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے اور وہی بم ایک بار پھر بے چارے عوام پر گرا دیا گیا ہے۔ اس وقت جب کہ پوری دنیا میں تیل کی قیمتی کم ترین سطح پر ہیں اور پاکستان کے نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ بھی نہیں کیا گیا اور تیل کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی گئی ہیں۔ پہلے آٹا اور گندم سے کچھ مفاد پرستوں نے اپنی جیبیں بھری پھر چینی کی قیمتوں میں من مانی کرکے قوم کو دونوں دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ ابھی قوم اسی کشمکش سے گزر رہی تھی کہ شاید کچھ اچھا ہوکہ پٹرول کی مصنوعات میں اضافہ کرکے غریب عوام پر ایک ایسا بم گرایا گیا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو جائے گی اور اس کانتیجہ بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ چند لوگوں کو خوش کرنے کے لیے وطنِ عزیز کی اکثریت کا استحصال کیا گیا ہے؛لیکن شاید عوامِ پاکستان کی قسمت میں اچھے دن محض خواب ہیں۔ کیا یہ اچھے دن ان کی قسمت کا حصہ نہیں بن سکتے؟ کیا عوام کا یہ استحصال یونہی جاری رہے گا؟ کیا پاکستان کے عوام کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکیں گے؟ حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ وہ سیاست دان ہیں اورجانتے ہیں کہ عوام کو لالی پاپ کیسے دینا ہے۔ وہ ایک کے بعد دوسرا اور پھر ایک اور وعدہ کرتے ہیں کہ بس کل تبدیلی آجائے گی اور عوام ایک بار پھر اس دروغ گوئی میں آجاتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ان سے کیا ہوا وعدہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ بقول شاعر:

کل کیا تھا کل کا وعدہ آج پھر وعدہ کل!!!
آپ کی کل آئے گی کب کتنی کل کے بعد؟

سچ تو یہ ہے کہ یہ سیاست دروغ گوئی کا دوسرا نام ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان بہت سے عہد و پیما باندھتا ہے پھر انہیں توڑ دیتا ہے۔ شاید یہ وعدے وعید کیے ہی توڑنے کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان وعدوں کی خبر رکھنے والی ایک بڑی ذات بھی ہے جس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ وہ کب آتی ہے؟ کس پر پڑتی ہے؟ اور کیسے پڑتی ہے؟ اس کا کسی کو پتا ہی نہیں چلتا۔

آج کل سارا عالم کورونا کی وباء سے نبرد آزما ہے اور ہر روز سینکڑوں انسان جان جانِ آفرین کے سپرد کررہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی کے انتقال کی خبر نہیں آتی۔ بقول ڈاکٹر صمدانی:

کوئی دن بھی اب ایسا گزرتا نہیں
خبر میں کسی کے مرنے کی سنتا نہیں
اعصاب پر طاری اس قدر کورونا ہے
زندگی کے کسی کام میں دل لگتا نہیں

واقعی مندرجہ بالا اشعار بر مبنئ حقیقت ہیں۔ پاکستان میں لوگ پہلے ہی معاشی پریشانیوں کا شکار تھے اس عالمی وباء نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے اور لوگ مزید پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ایسے میں تیل کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا عوام پاکستان کے ساتھ زیادتی نہیں، ظلم ہے۔

اہلِ اقتدار کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے اور وطنِ عزیز میں جاری جمہوریت کے تسلسل کو آگے بڑھانے کے لیے عوامی مفاد کے فیصلے لینا ہوں گے وگرنہ نوشتہء دیوار تو کچھ اور ہی ہے اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ بھی کہہ گئے:

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در ودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ ء گندم کو جلا دو

لہٰذاہر کل ایک اور کل کا وعدہ کرنے کے بجائے کوئی ٹھوس پروگرام بنانا چاہیے جو وطنِ عزیز کے لیے بھی مفید ہو اور اس کے باسی بھی اس مستفید ہوں۔ اللہ حکمرانوں کو ملکی مفاد میں فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 171942 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More