پنجاب پولیس نے ڈکیتی کے ملزم کے گھر کا کرایہ کیوں ادا کیا؟

image
 
عام طور پر جب پولیس کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں چھاپے، گرفتاریاں، تفتیش اور بکتر بند گاڑی آتی ہے۔
 
لیکن تھوڑا اپنے دل میں نرمی پیدا کیجیے کیونکہ تصورات کے برعکس آپ کی ملاقات پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے سول لائن پولیس اہلکاروں سے ہونے جا رہی ہے جنھوں نے ڈکیتی کے ملزم کی مشکلات کم کرنے میں اس کے خاندان کی مدد کی۔
 
وبا کے دنوں میں اگر کوئی آپ کے مکان کے کرائے کی ادائیگی اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے مالی مدد کر دے تو یہ کسی معجزے سے کم تو نہیں مگر یہاں معاملہ ایک منفرد ڈکیتی اور پولیس تحقیقات کا ہے۔
 
image
 
جب اندھی ڈکیتی کی تفتیش نے پولیس کی آنکھیں کھول دیں
سول لائن تھانے کی پولیس نے بتایا کہ چند روز قبل انھوں نے ایک اندھی ڈکیتی کا ناصرف سراغ لگا لیا تھا بلکہ لوٹی ہوئی رقم بھی برآمد کرلی تھی۔
 
پولیس کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں انھوں نے اس ڈکیتی سے جڑے تمام ٹھوس شواہد اکھٹے کر لیے تھے جنھیں عدالت میں جھٹلانا تقریباً ناممکن ہو گا۔
 
پولیس مزید تفتیش سے متعلق اپنی فائل بند کرنے ہی والی تھی کہ ایک خاتون اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ تھانے کے اندر داخل ہوئیں اور فرش پر بیٹھتے ہی کہا کہ وہ ملزم کی اہلیہ ہیں اور یہ ان کے پانچ بچے ہیں۔
 
پولیس اس وقت ششدر رہ گئی جب خاتون نے کہا کہ ہم ملزم کو چھڑانے نہیں آئے بلکہ یہ بتانے آئے ہیں کہ ہمیں بھی تھانے میں رکھا جائے۔
 
اس سے پہلے کہ پولیس کچھ کہتی خاتون نے اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے پولیس کو کہا کہ ان کے ساتھ ہمیں بھی جیل بھج دیں، کم از کم ان پانچ بچوں کو کھانا تو مل جائے گا۔
 
پولیس کے مطابق تھوڑا توقف سے خاتون نے انھیں بتایا کہ ’ہمارے گھر میں کئی دن سے فاقے ہیں، تین ماہ کا کرایہ نہ دینے کی وجہ سے اب مالک مکان نے بھی آخری وارننگ دے دی ہے، جس کے بعد چھت بھی نہیں رہے گی۔۔ جیل میں کم از کم چھت تو ہوگی۔'
 
یہ سننے کے بعد پولیس نے جو کیا اس کی تفصیل ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے، لیکن پہلے اس واقعے سے متعلق کچھ اہم حقائق پر نظر دوڑاتے ہیں۔
 
image
 
ملزم نے ڈکیتی کیوں کی؟
ڈی ایس پی سول لائن ایریا گوجرانوالہ کا کہنا ہے کہ ملزم گوجرانوالہ میں غیر معروف نہیں ہے۔ ملزم شہر میں کافی عرصے سے دہی بھلے کی ریڑھی لگا رہا تھا مگر جب سے کورونا وائرس کی وبا شروع ہوئی تو اس کاروبار بھی ٹھپ ہو گیا۔
 
ملزم نے پولیس کو بتایا کہ جب سے لاک ڈاؤن ہوا تو رش نہ بننے کے خدشے کے باعث انھیں مرکزی مقامات پر ریڑھی لگانے کی اجازت نہیں تھی۔
 
ملزم نے بتایا کہ انھوں نے چھپ کر گلی کوچوں میں محنت مزدوری کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس سے روزانہ صرف سو، دو سو روپیہ ہی بچ پاتے تھے، جس سے مکان کا کرایہ اور دیگر اخراجات پورے ہونا مشکل ہو گئے تھے۔
 
image
 
پولیس نے ملزم کے گھرانے کی مالی مدد کیسے کی؟
ملزم کی اہلیہ کے تھانے میں آ کر بیان دینے کے بعد پولیس نے علاقے کے لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو انھیں معلوم ہوا کہ ان خاتون کی باتوں میں سچائی ہے۔
 
پولیس نے ملزم کے گھر والوں کی مالی مدد کے لیے تھانے میں ایک فنڈ قائم کیا جس میں سب پولیس والوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا۔ پولیس نے تین ماہ کے کرائے کے علاوہ ملزم کی اہلیہ کی کچھ مالی اعانت بھی کی۔
 
ملزم کی اہلیہ نے صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خاوند نے ان سے کہا تھا کہ ’میرے پیچھے تھانے، عدالت اور جیل میں نہ آئیں، یہ اچھی جگہیں نہیں ہیں۔‘
 
ملزم کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ پولیس کی تسلیوں کے بعد وہ گھر آگئیں لیکن ’دوسرے دن پولیس پھر آئی تو مجھے لگا کہ لوگ ٹھیک کہتے تھے کہ پولیس ہم سب کو گرفتار کرے گی۔ لیکن ہمیں گرفتاری کا ڈر نہیں تھا۔‘
 
’اس سے پہلے کہ وہ ہمیں کہتے کہ تھانے چلو انھوں نے پیسے تھماتے ہوئے کہا کہ یہ مکان کا کرایہ اور یہ کچھ پیسے جس سے گھر والے کچھ دن سکون سے گزر بسر کر سکیں۔‘
 
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت مجھے شدید حیرت ہوئی اور میں پولیس کا یہ رویہ دیکھ کر رو پڑی۔
 
image
 
کورونا وائرس بے روزگاری میں اضافے کا سبب
پائیدار ترقی سے متعلق تحقیقاتی ادارے (سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ) کے مطابق لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے دوران نقد رقم کی کمی بھی بہت بڑا مسئلہ ثابت ہوا ہے۔
 
پاکستان میں کئی چھوٹے کاروبار اپنے قرض لوٹانے کے علاوہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے ان ملازمین کو فارغ کرنا پڑا ہے۔
 
تحقیق کے مطابق نقد رقم نہ ہونے کی وجہ سے دس لاکھ کے قریب چھوٹے کاروبار بند ہوگئے ہیں اور اپریل میں ان کی آمدنی میں 50 فیصد کمی نظر آئی۔
 
پاکستان میں محنت کشوں پر تحقیق کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار لیبر ریسرچ کے مطابق ملک میں روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد تقریباً 26 ملین ہے۔
 
ان میں سے تقریباً پانچ ملین کو معاوضہ روزانہ کی بنیاد پر جبکہ چار ملین کو ہفتہ وار معاوضہ ملتا ہے۔
 
حال ہی میں گیلپ اینڈ گیلانی پاکستان نے اپنے سروے میں بتایا ہے کہ کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران گذشتہ ایک ہفتے میں پاکستان کے 21 لاکھ خاندانوں کو گھر کا سامان بیچ کر ضرورتیں پوری کرنا پڑیں۔
 
سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ ایسے مقدمات میں اضافہ ہورہا ہے جس میں کسی ملزم نے اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قانون توڑا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا روزگار کے ذرائع کم ہونے سے ہو رہا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: