جب ایک بہو نے جنت کمائی


‎اب سے کافی عرصہ پہلے ہم جس محلے میں رہتے تھے وہاں ایک انڈین ہندو فیملی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے کبھی کبھار راہ چلتے سامنا ہو جاتا تھا چلتے چلتے ہی تھوڑی بہت بات چیت بھی ہو جایا کرتی تھی ۔ ان کا شوہر مقامی مندر میں منتظم تھا بوجوہ وہ بہت معمولی سا ہی لکھ پڑھ پائی تھیں اور بات بھی اپنے ایک خاص انداز سے کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ بتانے لگیں رات کو میری نند کا ( ایک دوسری اسٹیٹ سے ) فون آیا تھا کہہ رہی تھی اماں کو ( یعنی اِن کی ساس کو ) لے کر جاؤ کچھ دن تم بھی اپنے پاس رکھو ۔ میں نے اس کو بولا ہم تو گاڑی چلاتا نہیں ہوں اور تیری بھائی تو دن رات مندر میں مصروف رہتی ہے اماں آئے گا تو بولے گا مجھے اسٹور لے کر چلو شاپنگ کراؤ گھماؤ پھراؤ مجھے پارک لے کر جاؤ ، بچہ لوگ بھی اپنی پڑھائی میں مصروف رہتا ہے پھر یہ سب کیسے ہوئے گا؟ ابھی اماں کو تم ہی اپنے پاس رکھو ۔ نند بولتی کہ ایسا نہیں ہو سکتا اماں کو تو تم لوگ کو اپنے پاس لے جانا ہی پڑے گا ۔
‎پھر وہ لوگ وہاں سے کہیں اور چلے گئے بعد میں ایکبار ان کا بچہ کسی کام سے ہماری طرف آیا تو بتایا کہ دادی ہمارے ساتھ رہنے کے لیے آ گئی ہے اور ممی کو بہت ستاتی ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ کچھ تو بات ہو گی کہ بیٹی تک بیزار تھی ۔ بہرحال ہمیں تو پہلی بار ہی وہ واقعہ سن کر بہت افسوس ہؤا تھا کہ کیا وقت آ گیا ہے کہ بہو تو بہو بیٹی تک ماں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ اور یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ ماں باپ کے بڑھاپے میں ایک بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے ان کا ساتھ دیتی ہے بیٹا تو شادی کے بعد پرایا ہو جاتا ہے ، تو یہ بات اتنی بھی صحیح نہیں ہے کتنے ہی واقعات ذاتی طور سے ہمارے علم میں ہیں کہ بوڑھے بیمار لاچار ماں یا باپ بستر پر پڑے ہیں تو کوئی بہو اور بیٹا ہی ان کی خدمت اور دیکھ بھال کر رہے ہیں ۔ بیٹیاں تو بیمار پرسی کے بہانے سے آتی ہیں اور ماں باپ کے کمرے میں مورچہ بند ہو جاتی ہیں اور ہل کر پانی بھی نہیں پیتیں ، پھر وہی بہو بیچاری ان کی بھی مدارات میں مصروف ہو جاتی ہے ۔ ایسی ایسی لالچی اور خودغرض بیٹیاں ہوتی ہیں جو ماں کے مرنے کا انتظار بھی نہیں کرتیں اور اس کی زندگی میں ہی اس کے زیور کپڑوں اور قیمتی اشیاء پر ہاتھ صاف کر دیتی ہیں ، گھر میں موجود بیٹے اور بہوئیں منہ تکتے رہ جاتے ہیں ۔
‎بہو کے ایثار کی ایک اور مثال نے ہمیں تو بہت متاثر کیا ۔ یہ بھی ایک انڈین مسلم فیملی سے متعلق ہے کوئی شخص امیگرنٹ ویزے پر بمع فیملی آیا والدین کو ویزٹ ویزے پر چکر لگوایا اور سٹیزن شپ ملنے کے بعد تمام بہن بھائیوں کو سپانسر کر دیا ۔ جب تک کہ ان سب کی باری آئی باپ کا انتقال ہو چکا تھا اور ماں کی شوگر کے باعث ایک ٹانگ کاٹی جا چکی تھی اور وہ کسی طرح بھی امریکہ آنے کے قابل نہیں تھی ۔ پھر سارے بہن بھائی اپنے اپنے بال بچوں سمیت یہاں آ گئے مگر ماں کے ساتھ مقیم ایک بیٹا اور بہو نے انہیں اس حال میں چھوڑ کر امریکہ آنے سے انکار کر دیا ۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا زیادہ کریڈٹ بہو کو جاتا ہے جس نے کہا کہ میرے لیے ماں کی خدمت اور دیکھ بھال امریکہ کے ویزے سے زیادہ قیمتی ہے ۔ اور حکام کو صورتحال سے مطلع کر کے ویزا کال میں توسیع کی درخواست کر دی جو کہ منظور ہو گئی ۔ پھر چار سال بعد جب ماں کا انتقال ہو گیا تو باقی کی کارروائی مکمل کر کے وہ دونوں میاں بیوی اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آئے ۔
‎اب آپ بتائیں کہ ایسی بہو جنتی ہے کہ نہیں؟ جس نے وہ قربانی دی جو کسی بیٹی نے بھی نہیں دی ان کے لیے امریکہ زیادہ اہم تھا ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہر بہو بھی اتنی بری نہیں ہوتی جتنی کہ سمجھی جاتی ہے اور ہر بیٹی بھی اتنی اچھی نہیں ہوتی جتنا کہ اسے مشہور کر دیا گیا ہے ۔ اب اگر اس حوالے سے ہم نے مزید لکھنا شروع کر دیا تو اس مضمون کو ختم کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ آپ بھی کیا سوچتے ہوں گے کہ ہمارا سارا تجربہ مشاہدہ بس لوئر اور مڈل کلاس گھرانوں میں پائی جانے والی جہالتوں منافقتوں سیان پتیوں خود غرضیوں ناانصافیوں اور سازشی ماحول تک ہی محدود ہے ہم ہمیشہ اسی بارے میں لکھتے ہیں ۔ مگر ہم بھی کیا کریں سنی سنائی کے علاوہ اتنا کچھ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے کہ پھر نا چاہتے ہوئے بھی ضبط تحریر میں آ ہی جاتا ہے ۔ (رعنا تبسم پاشا)

 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1683105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.