|
|
پاکستان قوم اس حوالے سے ایک خوش قسمت قوم
ہے جس کو اللہ نے ایسی افواج سے نوازہ ہے جن کا جگر شیر کا اور نظر عقاب
جیسی ہے- ہمارے شیر دل جوان ملک کی سرحدوں پر بہادری سے اپنے ملک کے دفاع
کے لیے صبح شام اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر صرف اور صرف
شہادت کی مسند ہوتی ہے ۔ پاک آرمی کے اندر سب سے اہم شعبہ اس کے کمانڈوز کا
ہوتا ہے جن کا انتخاب بہت مشکل سے کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ بہادر اور قابل ترین
لوگ ہوتے ہیں جن کو سخت ترین جانچ کے بعد منتخب کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ
اس وقت ملک بھر میں صرف 700 کمانڈوز موجود ہیں جو کہ سخت ترین تربیت کے بعد
اس گروپ کا حصہ بننے میں کامیاب ہو سکے- |
|
پاکستانی
فوج کے کمانڈوز کی اہم خصوصیات |
پاکستانی کمانڈوز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ
وہ پوری دنیا کے نمبر ون کمانڈوز قرار دیے جاتے ہیں - |
|
|
1: 75
گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہ سکتے ہیں |
پاکستانی کمانڈوز کی سب سے بڑی خصوصیت جو
کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے کمانڈوز کو حاصل نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یہ اتنے
سخت جان ہوتے ہیں کہ 75 گھنٹوں تک بھوکے اور پیاسے رہ سکتے ہیں اور اس
دوران بھی ان کی کارکردگی میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو گی- |
|
|
2: 28 ہزار
فٹ کی بلندی سے فری فال |
سخت ترین تربیت کے بعد ایک اور اہم خصوصیت
جو پاکستانی کمانڈوز کو دنیا کے دوسرے تمام کمانڈوز سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ
ہے کہ یہ کمانڈوز 28 ہزار فٹ کی بلندی سے بھی پیرا شوٹ لگا کر فری فال کر
کے اپنے ٹارگٹ پر پہنچ سکتے ہیں- |
|
|
پاکستان کے
نمایاں کمانڈوز |
|
1: کیپٹن
روح اللہ شہید |
کیپٹن روح اللہ ماں کا ایسا بیٹا جس کی
پیدائش پر صرف اس کی ماں کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام ماؤں کا سر فخر سے بلند
ہو گیا- شبقدر کے علاقے میں پیدا ہونے والے اس جری کے والد اس کو ڈاکٹر
بنانا چاہتے تھے مگر روح اللہ کو اللہ نے جس روح سے نوازہ تھا وہ مسیحا بن
کر زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ملک کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کے سامنے
سینہ سپر ہونے کے لیے بنی تھی- اس وجہ سے اس نے 2009 میں فوج میں شمولیت
اختیار کر لی اوراپنی بہترین صلاحیتوں کے سبب کمانڈوز کے عہدے پر فائز ہو
گیا- جب کوئی اپنے من پسند شعبے کا انتخاب کر لیتا ہے تو پھر اس کو آگے
جانے سے کوئی نہیں روک سکتا، یہی معاملہ روح اللہ کے ساتھ بھی تھا ۔وہ چاہے
آرمی پبلک کا محاذ ہو یا باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کا بچھایا ہوا
جال، یا پھر کرسچن کالونی کے بے گناہوں کو بچانے کا معاملہ وہ ہر جگہ فوج
کے ہر اول دستے کے ساتھ موجود رہا۔ وہ مجاہد ہر جنگ کا غازی رہا- 28 ستمبر
کو جب اس کی پوسٹنگ بلوچستان میں ہوئی تو اس نے اپنے گھر والوں کو یقین
دلایا کہ دسمبر تک وہ چھٹیاں لے کر آجائے گا تاکہ اس کے سہرے کے پھول
کھلائے جا سکیں ۔مگر کسے معلوم تھا کہ اس کے سہرے کے پھول اس دنیا کی مٹی
میں نہیں کھلنے، وہ تو جنت کو مہکانے کے لئے کھلنے تھے۔ کوئٹہ پولیس ٹریننگ
سینٹر پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر جب روح اللہ کو پہنچی تو وہ وقت ضائع
کیے بغیر بہادری سے دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے بڑھے اور ان کو جہنم واصل
کرنے لگے مگر ایک بزدل کے وار نے انہیں شدید زخمی کر دیا اور وہ زخموں کی
تاب نہ لا کر شہادت کی مسند پر براجمان ہو گئے- انہیں فوج کی جانب سے ان کی
خدمات کےعوض ستارہ جرات سے نوازہ گیا |
|
|
2: لیفٹنٹ
کرنل عامر وحید شہید |
انہوں نے 21 سال کی عمر میں فوج میں کمیشن
حاصل کیا اور اپنی خدمات کے سبب بطور کمانڈوز منتخب ہو گئے- 1988 میں انہیں
صدارتی گولڈ میڈل سے نوازہ گیا 1990 میں ان کی شمولیت پاک فوج کی گوریلا
فورس میں ہو گئی- 2005 میں ان کی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کاروائیوں کے
بدلے میں فوج کی جانب سے ان کو ستارہ بسالت سے نوازہ گیا جو کہ کسی بھی
حاضر فوجی کا ایک خواب ہوتا ہے وہ 24 ہزار فٹ کی بلندی سے فری فال کر سکتے
تھے- 2006 میں بلو چستان کے علاقے کوہلو میں دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے
جام شہادت نوش کر گئے- |
|
|
3: میجر
جنرل طاہر مسعود |
میجر جنرل صاہر مسعود اس وقت پاکستانی
کمانڈوز کی پیرا ٹروپر گروپس کی قیادت کرتے ہیں اور 10 ہزار فٹ کی بلندی سے
فری فال کرتے ہیں 23 مارچ کی تقریب میں انہوں نے اپنے گروپ کے ہمراہ 12
ہزار فٹ کی بلندی سے فری فال کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا- |
|
|
4: کیپٹن
عابد |
پاکستان کے اس جری کمانڈو کا تعلق خیبر
پختونخواہ سے ہے 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے
کا مقابلہ کرنے والی کمانڈوز فورس کو لیڈ کرنے والے کیپٹن عابد نے اپنی
بہادری اور بہترین حکمت عملی سے نہ صرف بزدل دشمنوں کو کیفر کردار تک
پہنچایا بلکہ اپنی بروقت کاروائی اور حکمت عملی سے سیکڑوں بچوں کی جانیں
بھی بچائيں یہ کمانڈو ہم سب کے لیے باعث فخر ہے - |
|