بابری مسجد کی شہادت سے ہندو شدت پسند ملزمان کے بری ہونے تک کے واقعات ایک نظر میں

مورخہ 31 اکتوبر 1992۔ہندو مذہب کے سنتوں نے دہلی میں دھرم سنسد کا انعقاد کیا۔ اسی دھرم سنسد میں انہوں نے اعلان کیا کہ 6دسمبر 1992کو ’کارسیوا‘ کا آغاز کریں گے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی نومبر میں اتر پردیش(U.P )کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ کو حلف نامہ دے کر کہا کہ وہ مسجد کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔
مورخہ 6 دسمبر 1992۔آر ایس ایس، بی جے پی، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی اپیل پر ملک کی مختلف ریاستوں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ کارسیوک ایودھیا پہنچے اور انہوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔
اسی دن ان تمام کارسیوکوں کے خلاف ڈکیتی، لوٹ پاٹ، چوٹ پہونچانے، عوامی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے، مذہب کی بنیاد پر دو گروہوں کے مابین دشمنی بڑھانے اور تقریریں کرکے لوگوں کو بھڑکانے جیسے الزامات کے ساتھ دو ایف آئی آر درج کی گئیں۔
• پہلی ایف آئی آر (197/1992) کارسیوکوں کے خلاف تھی تو وہیں دوسری ایف آئی آر (198/1992) بی جے پی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے 8افراد کے خلاف تھی، جنہوں نے رام کتھا پارک میں اسٹیج سے مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کیں۔
ایف۔آئ۔آر (198/1992) میں بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی، وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری اشوک سنگھل ، بجرنگ دل لیڈر ونئے کٹیار، اوما بھارتی، سادھوی رتمبھرا، مرلی منوہر جوشی، گریراج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا کے نام تھے۔
• ان دو ایف آئی آر کے علاوہ اسی روز 47 مزید مقدمات درج کیے گئے تھے جس میں صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ اور لوٹ پاٹ جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
مورخہ 7 دسمبر 1992 ۔ملک کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے 7 دسمبر کو پارلیمنٹ میں تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’مسجد کو گرانا ایک وحشیانہ کام تھا، حکومت اسے دوبارہ تعمیر کروائے گی۔‘ انہوں نے وعدہ کیا کہ ’میری حکومت ان طاقتوں کے خلاف کھڑی ہوگی۔ ہم اس گھناؤنے کام کے لیے بھڑکانے والے لوگوں کے خلاف ہم آئین کے مطابق سخت کارروائی کریں گے۔ اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ قانون ایسے لوگوں کو ضرور پکڑے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔‘
مورخہ 10 دسمبر 1992۔مرکزی حکومت نے ایودھیا کے انہدام کے بعد ملک میں بھڑکے فسادات کے بعد آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی ہند اور کیرالا کی اسلامک سیوگ سنگھ پر بھی پابندی لگائی۔
مورخہ 13 دسمبر 1992 ۔مرکزی حکومت نے سی بی آئی تحقیقات کے احکام دیے۔ 15 دسمبر 1992۔مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہماچل پردیش میں تینوں بی جے پی حکومتیں برخاست ہوئیں۔
مورخہ 16 دسمبر 1992 ۔پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پاس کر کے بابری مسجد کے انہدام کی سخت مذمت کی گئی۔ ساتھ ہی مسجد انہدام کے واقعے اور اس کے پیچھے ہونے والی مبینہ سازش کی تحقیقات کے لیے جسٹس ایم ایس لبراہن کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس کمیشن کو زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔
مورخہ 18 دسمبر 1992 ۔وزیر داخلہ شنکر راؤ چوہان نے راجیہ سبھا میں اعلان کیا کہ ایودھیا میں ڈھانچہ دوبارہ کھڑا کیا جائے گا اور مندر کی تعمیر کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
مورخہ 13اپریل 1993۔اتر پردیش(U.P) کے للت پور کے اسپیشل مجسٹریٹ نے پہلی ایف آئی آر (197/1992) میں لاکھوں کار سیوکوں کے خلاف مجرمانہ سازش (دفعہ 120بی) کا الزام بھی شامل کیا۔
مورخہ 8 ستمبر 1993۔اترپردیش حکومت نے دوسری ایف آئی آر (198/1992) جو بی جے پی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے 8 افراد کے خلاف تھی، لکھنؤ کی خصوصی عدالت کو سونپ دی۔
مورخہ 8 اکتوبر 1993۔یو پی حکومت نے نوٹیفکیشن میں ترمیم کی تاکہ لکھنؤ عدالت ہی میں تمام 49 مقدمات کی سماعت ہو سکے۔
مورخہ 5 نومبر 1993 ۔سی بی آئی نے لکھنؤ کی عدالت میں 48 ملزمین کے خلاف مشترکہ چارج شیٹ داخل کی۔ اس میں شیوسینا کے سابق چیف بال ٹھاکرے اور یو پی کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کا نام بھی شامل تھا۔
مورخہ 27 اگست 1994۔سی بی آئی مجسٹریٹ نے عدالتی کارروائی کا مقدمہ سیشن کورٹ کو سونپا۔ اس کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
مورخہ 27 مارچ 1995 ۔بابری مسجد انہدام کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی سیشن عدالت سے گزارش کی گئی کہ وہ تازہ ترین پریس رپورٹس کی روشنی میں اس معاملے کی تحقیقات کی سی بی آئی کو ہدایت کرے۔
مورخہ 1996 ۔سی بی آئی نے اڈوانی اور دیگر آٹھ بی جے پی اور وی ایچ پی لیڈروں کے خلاف ضمنی چارج شیٹ دائر کی۔
مورخہ 9ستمبر1997۔لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے خصوصی جج نے ایف آئی آر (198/1992) کے تمام ملزم لیڈروں کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات عائد کرنے کی ہدایت دی۔
مورخہ 12 فروری 2001۔الٰہ آباد کی عدالت نے یو پی حکومت کے اکتوبر 1993 کے اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت ایف آئی آر (198/1992) کو لکھنؤ کی عدالت کو بغیر کسی دائرہ اختیار کے بھیج دیا گیا تھا۔
مورخہ 4 مئی 2001۔لکھنؤ کی عدالت کے خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور بال ٹھاکرے سمیت 21 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔ اس کے بعد اس معاملے کو رائے بریلی کی عدالت منتقل کر دیا گیا۔
مورخہ 28 ستمبر 2002۔سی بی آئی نے 8اکتوبر 1993کے ایک نوٹیفکیشن میں عدالتی غلطیوں کی اصلاح پر زور دیا، جسے یو پی حکومت نے مسترد کر دیا۔ سی بی آئی نے یو پی حکومت کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔ 2002 سی بی آئی نے رائے بریلی عدالت میں اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور پانچ دیگر افراد کے خلاف ضمنی چارج شیٹ دائر کی۔ تاہم، اس نے مجرمانہ سازش کی دفعات کا تذکرہ نہیں کیا۔
مورخہ یکم ستمبر 2003۔سپریم کورٹ نے لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کو نوٹس جاری کیا۔ ساتھ ہی عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسجد انہدام کے لیے اکسانے والے 7 ہندو رہنماؤں کو پیشی پر بلایا جائے۔
مورخہ جنوری 2005۔لال کرشن اڈوانی کو ایودھیا کے بابری مسجد انہدام معاملے میں ان کے مبینہ کردار پر عدالت میں طلب کیا گیا۔
مورخہ 06 جولائی 2005۔الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کے دوران اشتعال انگیز تقریر کرنے کے معاملے میں لال کرشن اڈوانی کو بھی شامل کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل انہیں بری کر دیا گیا تھا۔
مورخہ 28جولائی 2005۔بابری مسجد انہدام کیس میں لال کرشن اڈوانی رائے بریلی کی ایک عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ان کے خلاف الزامات عائد کیے۔
مورخہ 20 اپریل 2006۔کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے لبراہن کمیشن کے سامنے ایک تحریری بیان میں الزام لگایا کہ بابری مسجد کا انہدام ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ تھا اور اس میں بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور شیوسینا کی ملی بھگت شامل ہے۔
مورخہ 30 جون 2009۔لبراہن کمیشن نے وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ سونپی۔ واضح رہے کہ کمیشن کو یہ رپورٹ سونپنے میں 17 سال لگے۔ ان 17 سالوں میں کمیشن کی میعاد میں 48 بار توسیع کی گئی۔ اور اس دوران کمیشن کے کام پر لگ بھگ 8 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پایا کہ مسجد کو ایک گہری سازش کے تحت منہدم کیا گیا ہے۔ نو سو صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں سنگھ پریوار، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور بی جے پی کے ممتاز قائدین کو بابری انہدام معاملے کا ذمہ دار مانا گیا اور صاف لفظوں میں کہا گیا انہی لوگوں کی وجہ سے یہ سانحہ ہیش آیا۔ کمیشن نے سازش میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔
مورخہ 24 نومبر 2009 ۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں لبراہن کمیشن کی رپورٹ پیش کی گئی۔
مورخہ 22 مئی 2010۔الٰہ آباد ہائی کورٹ نے لکھنؤ کی عدالت کے 21 ملزمان کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں دو طرح کے ملزمان تھے- ڈائس پر موجود رہنما اور دوسرے کار سیوک۔ عدالت نے کہا کہ دونوں گروہوں کے ملزموں کے خلاف مختلف الزامات ہیں اور ان کی شمولیت مختلف طریقوں سے ہونے والے جرائم میں تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی آر 198/1992 میں آٹھ ملزمان پر کبھی بھی مجرمانہ سازش کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔
مورخہ 20 مارچ 2012 ۔ایک حلف نامہ دائر کیا گیا جس میں دونوں مقدمات ایک ساتھ سماعت کے حق میں دلیل پیش کی گئی۔
مورخہ 19 اپریل 2017۔سپریم کورٹ نے ایف آئی آر 198/1992 کے معاملے کو رائے بریلی سے لکھنؤ منتقل کر دیا اور لکھنؤ کی عدالت نے لال کرشن اڈوانی، ونے کٹیار، اوما بھارتی، سادھوی رتمبھرا، مرلی منوہر جوشی اور وشنو ہری ڈالمیا کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات طے کرنے کو کہا۔ عدالت عظمیٰ مورخہ نے 5 اکتوبر 1993 کو سی بی آئی کی مشترکہ چارج شیٹ میں چمپت رائے، نرتیہ گوپال داس، کلیان سنگھ اور دیگر جن کے بھی نام تھے، ان کے خلاف مجرمانہ سازش رچنے کا الزام طے کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ بابری انہدام کیس کو روزآنہ سماعت کرنے اور اگلے دو سالوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔
مورخہ 30 مئی 2017۔ بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی دیگر ملزمان کے ساتھ لکھنؤ کی خصوصی سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئے۔ اسی دن اس خصوصی عدالت نے بابری مسجد انہدام سے متعلق مقدمے میں بی جے پی کے تین سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کے خلاف فرد جرم عائد کی۔
مورخہ مئی 2019 ۔خصوصی جج نے سپریم کورٹ سے کیس کی سماعت نمٹانے کے لیے چھ ماہ کی مہلت طلب کی۔
مورخہ 15 جولائی 2019۔سپریم کورٹ نے بابری انہدام کیس کی سماعت کرنے والے خصوصی سی بی آئی جج کی مدت کار میں فیصلہ سنانے تک توسیع کرنے اور مقدمے کی سماعت کو مکمل کرنے کے لیے نو ماہ کی مہلت دی۔
مئی 2020 ۔سپریم کورٹ نے خصوصی سی بی آئی جج سے کہا کہ وہ مقدمے کی سماعت مکمل کرے اور اگست 2020 تک اس معاملے میں فیصلہ دے۔
مورخہ 21 مئی 2020 ۔ اس معاملے میں باقاعدہ طور پر سماعت کا آغاز ہوا۔
مورخہ 2 جولائی 2020۔بی جےپی رہنما اوما بھارتی نے سی بی آئی کے خصوصی جج کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔
مورخہ 13 جولائی 2020۔یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی رہنما کلیان سنگھ سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا۔
مورخہ 23 جولائی 2020۔بی جے پی کے مارگ درشک منڈل میں شامل سینئر رہنما مرلی منوہر جوشی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اس معاملے میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
مورخہ 24 جولائی 2020 ۔ایل کے اڈوانی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ سی بی آئی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
اگست 2020۔سپریم کورٹ نے خصوصی سی بی آئی عدالت سے کہا کہ وہ مقدمے کی سماعت مکمل کرے اور 30 ستمبر تک فیصلہ سنائے۔
یکم ستمبر 2020 ۔اس پورے معاملے میں دونوں طرف سے زبانی بحث مکمل ہوئی۔
مورخہ 16 ستمبر 2020۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں حتمی فیصلہ سنانے کے لیے 30 ستمبر 2020 کی ڈیڈ لائن طے کی۔
مورخہ 30 ستمبر 2020 ۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ بابری مسجد کی گنبد پر غیر سماجی لوگ چڑھے ہوئے تھے اور ملزمان نے اس کے لیے کوئی سازش نہیں کی تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملزمان نے تو الٹے بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
یہ تھے 32 ملزم
49 میں سے صرف 32 ملزمان کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ باقی 17 ملزم فوت ہو چکے تھے۔ 32 ملزموں کے نام درج ذیل ہیں۔
لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، سادھوی رتھمبھرا، مہنت نریتیا گوپال داس، ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی، چمپت رائے، مہنت دھرم داس، ستیش پردھان، پون کمار پانڈے، للو سنگھ، پرکاش شرما، وجے بہادر سنگھ، سنتوش دوبے، گاندھی یادو، رام جی گپتا، برج بھوشن شرن سنگھ، کملیش ترپاٹھی، رامچندر کھتری، جئے بھگوان گوئل، اوم پرکاش پانڈے، امر ناتھ گوئل، جئے بھان سنگھ پوویہ، مہاراج سوامی ساکشی، ونئے کمار رائے، نوین شکلا، آر این سریواستو، آچاریہ دھرمیندر دیو، سدھیر کمار ککڑ اور دھرمیندر سنگھ گجر۔
351 افراد نے دی گواہی
بابری مسجد انہدام مقدمے کی سماعت میں 351 افراد نے گواہی دی جو 28 سال تک جاری رہی۔ 600 دستاویزات پیش کی گئیں۔
وہ ہندع جو معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے اور نفرت پھیلاتے رہے۔17 ملزم جو مر چکے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بن چکے ہیں جن 17 ملزموں کی موت ہو چکی ہے وہ ہیں ۔ اشوک سنگھل، بال ٹھاکرے،وجئے راجے سندھیا گری راج کشور ،وشنوہری ڈالمیا.مہنت ویدھناتھ پرمہنس داس ،چندرداس ،موریشور ساوے،لکشمی نارائن داس، ونود کمار وتس،رام نارائ داس، ڈی بی داس، رمیش پرتاپ سنگھ،ہرگووندھ سنگھ، بییکنٹھ لال شرما، مہامندالیشور جگدیش منی مہاراج اور ڈاکٹر ستیش ناگر اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کے رام نام کی کوئی آئٹم کوئی چیز دنیا میں کبھی تھی ہی نہیں۔یہ ہندو لوگ 34کروڑ بھگوان کی پو جا کرتے ہیں۔ جو سب کے سب خود ساختہ ہیں۔حقیقت سے دور دور تک انکا تعلق نہیں۔پھر بابری مسجد میں رام کہاں سے آگیا۔ہر پاپ کا آنت ہوتا ہے ہر عروج کو زوال ہے۔۔ دنیا مکافات عمل ہے جو ظلم۔جو نا انصافیاں ۔زیاتیاں انسان دنیا میں کرتا ہے اس کا وبال اسکی اپنی ہی جان پر پڑتا ہے۔ مسلمان تم بہت خوش قسمت ہو۔یہود ۔مشرک۔کافر۔کو اللہ نے دوزخ کا ایندھن قرار دیا جہاں ان بد بختوں نے ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کی آگ میں جلنا ہے۔


 
Syed Maqsood ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood ali Hashmi: 171 Articles with 152446 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.