تحفظ مساجد و مدارس ۔۔؟

پاکستان تحریک انصاف جب سے برسراقتدارآئی ہے یہ اپنے ملک کے عوام کے مفادات کاتحفظ کرنے کی بجائے بین الاقوامی اداروں اورطاقتوں کے مفادات کے لیے سرگرم ہے حکومت کے ہراقدام کے پیچھے عالمی طاقتوں کی خوشنود ی نظرآتی ہے ریاست مدینہ کے نعرے کی آڑمیں ملک کوسیکولرسٹیٹ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ملک کی نظریاتی سرحدوں پرحملے کیے جارہے ہیں گستاخ رسول آسیہ مسیح کی رہائی سے لے کراسلام آبادمیں مندربنانے تک ،کرتارپورہ راہداری کھولنے سے لے کراسرائیل کوتسلیم کرنے کی مہم تک ،کشمیرکومودی کے حوالے کرنے سے لے کرکشمیری مجاہدین کوسزائیں دینے تک ،عاطف میاں کواقتصادی کونسل میں شامل کرنے سے ملک میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں تک ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ مغربی آقاراضی ہوجائیں اوراب ایف اے ٹی ایف کے نام پرجس طرح کی قانون سازی کی گئی ہے اس سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم نے اپناملک بین الاقوامی طاقتوں کے پاس گروی رکھ لیاہے۔

حکمران طبقے کی اول دن سے یہ خواہش ہے کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے اہم مورچوں مساجدومدارس کوکنٹرول کیاجائے یہی وجہ ہے کہ ماضی میں مساجدومدارس کودہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی مساجدومدارس کے خلاف ملک کے اندروباہرزہریلاپروپیگنڈہ کیاگیا این جی اوزنے مدارس ومساجدکے خلاف جعلی رپورٹس بناکربین الاقوامی اداروں کوبھیجیں مگرتمام ترحکومتی حربے اوراین جی اوزکی جعلی رپورٹیں ناکام ہوئیں وہ کسی طورپربھی مساجدومدارس سے عوام کاتعلق ختم نہ کرسکے عوام پہلے سے بڑھ کران دینی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے لگے توموجودہ حکومت اس عوامی تعلق کوختم کرنے کے لیے میدان میں آئی ہے اورپے درپے ایسے اقدامات کررہی ہے کہ جس سے دینی وعوامی حلقوں شدیدتشویش اوراضطراب پایاجاتاہے ۔

یہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کاہی نتیجہ ہے کہیں کوئی قادیانی خاندانی جھگڑے کی وجہ سے بھی قتل ہوتاہے توملک میں شورغوغاشروع ہوجاتاہے اسلام آبادمیں مندربنانے کے خلاف احتجاج ہوتاہے توان کے پیٹ میں مروڑاٹھناشروع ہوجاتے ہیں اقلیتوں اورمذہبی آزادی کاواویلاکیاجاتاہے مگرملک کی اکثریت کاکوئی پرسان حال نہیں ان کے حقوق کی بات کرناجرم بنایاجارہاہے تجاوزات ختم کرنے کی آڑمیں متعدد مساجد ومدارس کوملیامیٹ کیاگیامگرکسی حکومتی زعماء کابیان تک نہیں آیامسجدمیں دہشت گردی ہوئی علماء کوٹارگٹ کرکے شہیدکیاگیا مگرکوئی حکومتی اہلکاراظہارہمدردی کے لیے وہاں نہیں پہنچاکیوں کہ ایساکرنے سے مغربی آقاناراض ہوجائیں گے ۔

ایف اے ٹی ایف کے نام پر27ستمبر2020کوحکومت نے وقف املاک بل منظورکروایاکہ جوسراسرانسانی حقوق ،آئین پاکستان اوراسلامی اصولوں کے خلاف ہے صدرمملکت کے دستخطوں سے یہ بل اب ایکٹ بن چکاہے اب دیگرصوبوں میں بھی اس طرح کی قانون سازی کی جارہی ہے سب کومعلوم ہے کہ یہ قانون سازی یا ترمیمی بل معمول کی قانون سازی اور روایتی طریقے سے ہٹ کر اور افراتفری کے ماحول میں پاس کرایا گیا ہے۔ جب یہ بل منظوری کے تقاضے پورے ہونے کے بعد منظر عام پر آیا تو اس سے ان خدشات کو تقویت ملی کہ فی الواقع یہ بل معمول کی قانون سازی کی بجائے خالص بیرونی دبا ؤکے نتیجے میں منظور ہوا ہے

وقف املاک بل کے خلاف اپوزیشن جماعتوں اوردینی حلقوں کی طرف سے بیانات آئے مگرحکومتی حلقوں کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی ظاہرہے کہ حکومت کواس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اقدامات سے اہل پاکستان خوش ہوتے ہیں یاناراض ؟ان کی بس ایک ہی خواہش ہے کہ عالمی قوتیں راضی ہوجائیں اس ناجائزقانون سازی کے خلاف اسلام آبادکے علماء میدان میں آئے اسلامی ملک میں ،، تحفظ مساجدومدارس ،،کے نام سے تحریک کی بنیادرکھی حالانکہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے یہاں مساجدومدارس کاقیام ریاست کی ذمے داری بنتی ہے مگرریاست نے اس پہلوسے ہمیشہ غفلت برتی ہے جس کی وجہ سے عوام نے اپنی مددآپ کے تحت یہ فریضہ خودسرانجام دے رہے ہیں مگرحکمرانوں کویہ برداشت نہیں ہورہا۔

ان علماء کرام نے دیگرمسالک کوبھی اس تحریک میں شامل کیا اس تحریک کے صدر مولاناظہوراحمدعلوی ،سرپرست مولانانذیرفاروقی ،تحریک کے سیکرٹری جنرل مفتی اقبال نعیمی ،وفاق المدارس السلفیہ کے رہنما حافظ مقصوداحمد،وفاق المدارس پنچاب کے ناظم اعلی مولاناقاضی عبدالرشید،مولاناعبدالمجیدہزاروی ،جامعہ قاسمیہ کے مہتمم مولاناعبدالکریم ،جمعیت علما پاکستان کے رہنما عامرشہزاد،جماعت اسلامی کے رہنما ولی اﷲ بخاری ،متحرک عالم دین مفتی عبدالسلام ،مولانا عبدالغفار,مولانامحمدشریف ہزاروی ،مولاناخلیق الرحمن چشتی,مولاناعبدالرحمن معاویہ,مفتی محمداسلم ضیائی ،قاری محمداسرائیل،قاری سہیل احمدعباسی ،مولانامحمدثناء اﷲ غالب ودیگرنے پے درپے اجلاس اورپروگرامات منعقدکرکے تحریک کومنظم کیا اورجمعرات کومقامی ہوٹل میں آل پارٹیزتحفظ مساجدومدارس کانفرنس منعقدکی جس میں اتحادتنظیمات مدارس دینیہ اورسیاسی ومذہی جماعتوں کابڑااجتماع ہواجس میں سینکڑوں علماء کرام اورمدارس کے ذمے داران نے شرکت کرکے وقف ایکٹ کومستردکرتے ہوئے ملک گیرتحریک چلانے کااعلان کیا۔

وفاقی دارالحکومت میں 80سے زائدسرکاری مساجدہیں مگریہ علماء سرکاری مساجدمیں امام وخطیب ہونے کے باوجود کلمہ حق کہنے سے کبھی بھی بازنہیں آئے ہرتحریک میں ان علماء نے نمایاں کرداراداکیا ہے،یہی وجہ ہے کہ برسراقتدارآنے والاہرحکمران وفاقی دارالحکومت کی مساجد،مدارس اورعلماء پرخصوصی نظررکھتاہے،تمام ترحربوں اورکوششوں کے باوجودکوئی بھی حکومت اسلام ابادکے علماء کواپناہمنوانہیں بناسکی ہے۔

اسلام آبادکے علماء کی حق گوئی سے ایک واقعہ یادآیاہمارے نہایت مہربان وبزرگ قاری احسان اﷲ جوآج کل بیمارہیں اﷲ انہیں شفاء کاملہ نصیب فرمائے امین صدرضیاء الحق کااقتدارنصف النھارپرتھا انہیں رپورٹ دی گئی کہ اسلام آبادمیں غیرقانونی مساجدکے خاتمے میں علماء رکاوٹ ہیں علماء سے اگربات کی جائے توشایدکوئی راستہ نکل آئے اس حوالے سے قاری احسان اﷲ کی مسجدجوایف ایٹ گرین بیلٹ پرہے اورقدیمی مسجدہے میں اجلاس رکھاگیا صدرضیاء الحق سرکاری افسران کے لاؤلشکرسمیت اجلاس میں تشریف لائے کافی بحث وتمحیص کے بعد ضیاء الحق نے غصے میں قاری احسان اﷲ کومخاطب کرکے کہاکہ مولوی صاحب سرکاری زمین پرقبضہ کرکے مسجدبناناجائزہے ؟قاری احسان اﷲ نے اسی اندازمیں جواب دیتے ہوئے کہاپہلے یہ بتائیں کہ ایک منتخب حکومت کوختم کرکے اس پرقبضہ کرناجائزہے ؟یہ جواب سنناتھا کہ ضیاء الحق غصے میں اٹھے اورروانہ ہوگئے ۔

َْؑ؁َْؑعلماء کے اس اجتماع میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری نے اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ خیر وبرکت کے ان سرچشموں کو غیر ملکی قوتوں کی ایما پر کسی قسم کی دہشت گردی یا ظلم و عداوت کے ساتھ جوڑنا اور ان کی کردار کشی کرنا، تاریخی بددیانتی ہی نہیں بلکہ بدترین اخلاقی جرم ہے۔ وقف املاک ایکٹ 2020 دینی تعلیمات سے متصادم ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے وقف کو کسی صورت بھی اس کے مصرف کے علاوہ نہیں برتا جاسکتا، اسی طرح دینی احکام میں وقف کی خریدو فروخت اور نیلامی کی کوئی گنجائش نہیں، موجودہ ایکٹ میں وقف املاک کو بیچنے اور نیلامی کرنے کی گنجائش پیدا کرکے، کرپشن اور قبضہ کے ذریعے ان قومی اداروں کو برباد کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔آئین پاکستان، وطن عزیز کے ہر شہری کو جو آزادی فکر و عمل دیتا ہے، اس ایکٹ نے اسے بری طرح مجروح کیا ہے۔

وقف کرنے والے شخص کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجائے رجسٹریشن کے نام پر اس کے لیے ایسی ناقابل عبور رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، جس کے بعد وقف کرنا، جوئے شیرلانے کے مترادف ہوگا۔موجودہ ایکٹ نے لاکھوں پاکستانی عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے، جو ریاستی سطح پر غفلت اور کوتاہی کے باوجود، تمام رفاہی اداروں بالخصوص دینی اداروں کے تمام انتظامات اپنے تعاون سے کرتے آرہے ہیں،
اس ایکٹ سے یہ واضح ہوگیاہے کہ دنیا سے اسلامی اقتدار کے غروب کے بعد یہ انگریزی حسرت تھی کہ دینی مراکز بھی سرکاری تحویل میں لیے جائیں، یہ ایکٹ بھی اسی سوچ وفکرکانتیجہ ہے ۔

 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81565 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.