خواجہ خلیل کشمیری ۔۔۔تو نہ بھول پائے گا

 ہم نہیں ہوں گے ہم سا کو ئی اور ہو گا ،ہر دور میں کوئی اور آ جاتا ہے دوسرا یاد رہنے کے باوجود اس کی ضرورت پو ری کر لیتا ہے وہ بھی نہیں رہا اس کی یاد ستاتی رہی گی مجھے صحیح یاد نہیں لیکن یہ 'ادراک'ضرور ہے کہ اس سے پہلی ملاقات سے بنا تعلق آج کئی برس گزر کر"دوستی"بن چکا ہے۔ وہ آج بیماری کا سامنا کرنے کے بعدبہت سارے اوروں کی طرح بیماری کے ہا تھوں شکست کھا چکا چند سال وہ بیمار رہا مگر اس کے حوصلے "چٹان"کی طرح بلند رہے میں نے اس تعلق میں ایک "انفرادیت"اس میں دیکھی کہ وہ سچے زمانے کے بے غرض قوم پرستوں کی طرح کا صرف ایک "کارکن" تھا ۔ یہی اعزاز اس کے لیے سب سے بڑا ہے کچھ عر صہ وقبل مجھے جب یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ ایک مرض کا شکار ہے نہ جانے کیوں مجھے چوٹ سی لگی۔ میں اتنا حوصلہ بھی نہیں رکھتا تھا کہ بار بار اس کی "عیادت"کروں۔ کچھ دن قبل جب اس کے گھر اس کی تیمارداری کے لیے گیا تو گمان پیدا ہوا وہ بیماری سے نجات پائے گا پھر چند روز بعد جب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تیاریاں تھیں غالباً دوبار بیماری کے باوجود وہ کچہری چوک راولاکوٹ کیمپ میں آکر بیٹھا رہا۔ جب جلوس شروع ہوا تو وہ اس میں بھی شامل تھا۔ اس کے "حوصلہ"پر داد دینے کو جی چاہا مگر"ظرف"نے روک دیا۔ الٹا اس سے شکوہ کیا کہ وہ اس بیماری میں کیوں ایسا کر رہا ہے؟ گاہے بگاہے اطلاع ملتی ہے کہ اس کا علاج جاری ہے۔ آج اس کے قریبی محلہ دار نے بتایا کہ اس کے علاج میں تیزی آ خر اس کی موت کا سبب بن چکی ہے ۔ لیکن نہ جانے کیوں ایک جھٹکا سا لگا میں گناہگار اس کی مغفرت کے لیے دعا کر لیتا ہوں لیکن قلم کا سہارا اس لیے لیا کہ پڑھنے والے پڑھ کر اس کے لیے دعا کریں۔ممکن ہے کسی کی دعا میں تاثیر ہو۔ پڑھنے والوں نے اس کے گرائیں اور اس کے ہم سفر حمید کامران کے لیے بھی دعائیں کیں جو قبول ہوئیں عموماً انسان کے قصیدے اس کی زندگی کے بعد لکھے جاتے ہیں لیکن آج اس کے لیے بھی اس کی زندگی کے اختتام پر وہی ریت دہراتے میں کلمہ خیر کہنے کا قدرت نے موقع دیا جس کا مقصد صرف قارئین سے اس کی مغفرت کی دعا کرنا ہے تو ساتھ اس کے تحریکی کردار کو خراج تحسین پیش کر نا ہے ۔ وہ کسی غریب گھرانے کا کوئی بھکاری نہیں تھا دولتمند اور اہل علم گھرانے کا ایک"جیالا"تھا ۔ اس کو یہ وراثت خواجہ کبیر سے ملی یا اشفاق مجید وانی کی "خواجگی"کا اثر ہے وہ خواجہ حسن جیسا "سرپھرا"بھی نہیں تھا لیکن وہ مقبول بٹ کے کارواں کا ایک "قیمتی اثاثہ "تھا جس گھرانے میں اس کا جنم ہوا وہاں روایتی سیاست کاری کر کے شاہ غلام قادر اور خواجہ فاروق جیسوں سے "ٹبرداریـ"کر کے حکومتی ایڈجسٹمنٹ اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا بلکہ وہ خواجہ آصف اور سعد رفیق جیسوں کے "قریب"زیادہ آسانی سے ہوتا لیکن اس نے پرخطر راستہ اختیار کیا جہاں اپنی آمدن اور بھائیوں کی کمائی "تحریک"کی نذر کی جانا ثواب ہے وہ افغان بھگوڑوں کے انخلا کی تحریک میں بھی تشدد برداشت کرتا ڈنڈے کھاتا آنسو گیس کا سامنا کرتا تو منحوس خونی لکیر مٹانے ہر سفر میں وہ نمایاں رہتا۔ وہ برادری ازم کی لعنت کا شکار بھی نہ ہوا اور کچھ" کم ظرفوں" کی طرح سدھن مخالف ہو کر سدھنوں کو سامراج بھی نہ مانا۔ وہ اصولوں پر آیا تو بڑے نام چھوڑ کر صغیر خان کا ہم سفر بنا صلاحیت اور اہلیت ایسی کہ کہیں بڑے معتبر نام ہوتے وہ متحدہ جے کے ایل ایف میں بھی پونچھ جیسے حساس اور مشکل مقام پر ضلعی صدر کی ذمہ داریاں ملنے کا مستحق ٹھہرا۔ زندگی کے عروج و زوال میں صحت مند ہوتے بھی"رولے رپھڑ"کا شکار رہا۔ اس کو اپنوں نے بھی زخم خوب لگائے فرانس میں مقیم اس کے برادر اکبر اور ہر دل عزیز شخصیت ڈاکٹر شبیر کو جب قریبی رشتہ دار نے ایک کروڑ سے زائد کا مالیتی نقصان دیا وہ ہر ممکن کوشش کے باوجود اپنے بھائی کے نقصان کا ازالہ نہ کر سکا شاید اس کی زندگی میں یہ پہلی بار تھی۔ آج وہ موذی مرض کا مقابلہ کر تے بہت ساری خواہشوں اور ارمانوں کے ساتھ ہزاروں من مٹی تلے جا سویا مگر اس کے بلند حو صلے اور یادیں اب ہمارے لیے سرمایہ ہیں حالانکہ اس بیماری سے کون ہے جو ریزہ ریزہ نہ ہوا ہو۔ مگر میرے خدا کے ہاں اس کے لیے اور مہلت نہیں تھی۔ بس ہر قاری سے درخواست کہ وہ میرے اس یار کے لیے دُعا کرے۔ میرا وہ محسن میرا وہ سنگی کسی حوالے کا محتاج نہیں۔ کسی تعارف کا حقدار نہیں۔ وہ آپ اپنا تعارف ہے۔ وہ خواجہ خلیل کشمیری تھا ۔
عجب آزاد مرد تھا خدا مغفرت کرے۔

 

Asif Ashraf
About the Author: Asif Ashraf Read More Articles by Asif Ashraf: 32 Articles with 19655 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.