مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

سیدعلی گیلانی اعلیٰ تعلیم کیلئےاورینٹل کالج لاہورآئے مگریہاں سے علامہ اقبال اورمولانامودودی کواپنے دل میں ایسابسایاکہ آخری سانس تک ان کے گرویدہ رہے۔ علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پرمشتمل تین کتابوں اورخود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً 30کتابیں بھی تصنیف کیں۔جہاں اپنی خودنوشت کی دونوں نسخے اوردیگرکئی کتابیں اپنے قلمی خصوصی پیغام کے ساتھ عنائت فرمائیں وہاں پچھلے تیس سالوں سے زائداپنے شانوں پررکھی شال کوبطورخاص تحفہ میرے حوالے بھی کیا،تاکہ میں ان کی مبارک مہک سے مستفیذہوتارہوں۔

کشمیرواپسی پرانہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیارکی۔شعروسخن سے شغف اورحُسنِ خطابت کی وجہ سے بہت جلدجماعت کے اہم رہنماکے طورمشہور ہو گئے۔ انہوں نے1972/1977اور1987میں جماعت کے ٹکٹ پرالیکشن جیتا۔مقامی اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے، تاہم 87 رُکنی ایوان میں جماعت کوچندسیٹیں ہی ملتی تھیں لہذا ُن کی سیاست اسمبلی کے اندرحاشیے پرہی رہی۔آپ نے1987ءمیں مسئلہ کشمیر کے حل کی حامی کئی پاکستان نوازتنظیموں کے اتحادمسلم متحدہ محاذ کی حمایت میں الیکشن لڑکر اُس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کوتاریخی چیلنج پیش کیا،تاہم انتخابات میں بدترین دھاندلیوں اور کانگریس کی حمایت سے فاروق عبداللہ اقتداربرقراررکھنے میں کامیاب رہااورسیدعلی گیلانی سمیت محاذ کے بھی اُمیدواروں نے الیکشن جیت لیا۔چند سال بعد جب کشمیرمیں پاکستان کی حمایت سے ہمہ گیرمسلح جدوجہدبرپاہوئی اورمحاذکے ایک رُکن اسمبلی عبدالرزاق بچروپُراسرار حالات میں شہیدکردِئے گئے توآپ سمیت چاروں ارکان،اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ ان کے ساتھ روشن خیال پیپلز کانفرنس کے رہنماعبدالغنی لون نے بھی استعفیٰ دیااوردونوں نے تحریکِ آزادی کی حمایت کااعلان کردیا لیکن صرف دوسال کے اندراندرکشمیرمیں گورنرراج نافذہوااورفاروق عبداللہ لندن میں مقیم ہوگئے۔
سیدعلی گیلانی نے مسلح تحریک کی کھل کرحمایت کی اوراسے کشمیریوں کی طرف سے”تنگ آمد بہ جنگ آمد”کے مصداق ایک ردِّعمل قراردیا۔انہوں نے کشمیرکو پاکستان کا قدرتی حصہ قراردے کرمسئلہ کشمیرکوتقسیم ہندکانامکمل ایجنڈا قراردیا۔1990کی دہائی کے اوائل میں ہی گیلانی ایک ایسےمقبول عام رہنماکے طور اُبھرے جومسئلہ کشمیرکواسلامی مسئلہ اورجاری مسلح تحریک کوجہادسے تعبیرکرتے تھے جبکہ دیگرکشمیری رہنماکشیرکوسیاسی مسئلہ کہتے تھے لیکن اس کے باوجود گیلانی اورلون نے کُل جماعتی حریت کانفرنس کے قیام میں کلیدی کردارنبھایااورنظریاتی جنگ تھم گئی اوراسی پس منظرمیں حریت میں دونوں مکاتب فکر کی جماعتیں شامل ہیں۔حریت کانفرنس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کوبنیادی مطالبہ بنایااورکشمیریوں،پاکستان اورانڈیاکے درمیان بیک وقت مذاکرات کو متبادل کے طورپیش کیالیکن1996میں سخت ترین فوجی محاصرے میں ہوئے انتخابات کے بعدہندوتائیدسےجب فاروق عبداللہ نے دوبارہ اقتدارسنبھال لیا۔

اسی اثنا میں نئی دلی نے بھی حریت کانفرنس کی”ماڈریٹ”قیادت کے ساتھ پینگیں بڑھاناشروع کردیں۔واجپائی اورمنموہن سنگھ دونوں کی حکومتوں نے حریت قیادت کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوارکیے لیکن ہربارگیلانی ان مذاکرات کو”فضول مشق”اور”وقت گزاری”سے تعبیر کرتے رہے جس کی وجہ سے ان مذاکرات کوعوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔انہی دنوں امریکاپرنائن الیون حملوں کے وقت ملک کی کمان فوجی حکمران پرویزمشرف کے ہاتھ میں تھی اورامریکانے پاکستان کواپنی جارحیت میں حلیف بنالیاتھا۔مذاکرات کی مخالفت پردلی میں اکثرحلقوں نے گیلانی کے اعتراض کوپاکستانی کارستانی جانالیکن جب مشرف نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو کنارے کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کاچارنکاتی فارمولہ پیش کیاتوسید علی گیلانی نے اس کی بھرپورمخالفت کی۔ نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے میں مشرف اورسید علی گیلانی کے درمیان2005میں ہونے والی ملاقات میں انہوں نے پرویز مشرف سے برملاکہا کہ اُنہیں کشمیریوں کواعتماد میں لیے بغیراُن کے سیاسی مستقبل کایکطرفہ فیصلہ لینے کاکوئی حق نہیں جس کے جواب میں پرویزمشرف نے جھلاکرکہاکہ”میں نے جو تجاویزدی ہیں دراصل مغرب مسئلہ کشمیرکاحتمی حل انہی شرائط پرچاہتا ہے،جس پرسیدعلی گیلانی نے اقبال کے اس شعرپرمشرف کامنہ بندکردیاکہ:
بتوں سے تجھ کوامیدیں خداسے نومیدی
مجھے بتاتوسہی اورکافری کیاہے

مشرف کوچیلنج کرنے سے گیلانی کی مقبولیت میں اضافہ اوراُن کامؤ قف مزیدمضبوط ہوگیااوروہ نوجوانوں کے غیرمتنازعہ لیڈربن گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان اُن کی تصویرایک انقلابی رہنماکے طوربلندکرنے لگے۔اپنے موقف پرڈٹے رہنے کی وجہ سے نوجوانوں نے گیلانی کی حمایت میں کئی نعرے بھی اختراع کیے مثلاً “کون کرے گا ترجمانی،سیدعلی گیلانی”اور’نہ جُھکنے والاگیلانی،نہ رُکنے والا گیلانی”۔سید علی گیلانی سے کئی مرتبہ نئی دلی کے کئی مصالحت کاروں نے اُن سے رابطہ کرکے اُن سے مؤقف میں لچک لانے کی فرمائش کی تاہم وہ اعادہ کرتے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہوناہے اوراگراس میں دلی کودِقت ہے تو پاکستان،انڈیااورکشمیری قیادت کے درمیان بیک وقف سہ فریقی بات چیت بھی ایک متبادل ہے۔”پھروقت نے سیدعلی گیلانی کی بصیرت سے ثابت کردیااورمودی کے دورحکومت میں ماڈریٹ حلقوں کالہجہ گیلانی کے ساتھ ملنے لگااورنظریاتی اختلاف کے باوجودمیرواعظ عمرفاروق،سیدعلی گیلانی اور یاسین ملک کی سیاسی سمت ایک جیسی نظرآنے لگی۔سید علی گیلانی نے اشرف صحرائی صاحب کوحریت کواپنامتبادل مقررکرتے ہوئے واضح کیاکہ”نہ قلب وذہن کی قوت موقوف ہوئی ہے اورنہ ہی میرے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیاہے۔اس دیارفانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمارکے خلاف نبردآزمارہوں گااوراپنی قوم کی رہنمائی کاحق حسبِ استطاعت اداکرتارہوں گا۔”
2014 میں جب نریندر مودی نے نئی دلی میں بی جے پی کی غالب اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا تو کشمیر کے تئیں نئی دلی کا رویہ سخت ترین ہو گیا۔ خدشات اور خوف کی فضا کے بیچ حریت کانفرنس کے 2016ءمیں مقبول کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد برپا ہونے والی عوامی تحریک نے تینوں رہنماؤں کو مشترکہ مزاحمتی فورم نامی بینر تلے اِکھٹا کر لیا اور عوام کی غالب اکثریت نے اس اتحاد پر اطمینان کا اظہاربھی کیا، کیونکہ فورم کی اپیلوں پر ہڑتالیں ہوتی تھیں اور مظاہرے بھی ہوتے تھے۔ اس فورم کی قیادت میں ہی ہندمخالف تحریک 2019 کے موسم گرما تک چلی۔ لیکن مودی کے دوبارہ برسراقتدار آتے ہی جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا اور سینکڑوں رہنماؤں سمیت یاسین ملک کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔ سیدعلی گیلانی پہلے ہی دس سالوں سے گھر میں نظر بند تھے۔ پھر 51/ اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا جس کے نتائج کشمیری آج بھی قدغنوں، گرفتاریوں اور خوف و ہراس کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

آخرسید علی گیلانی کے مؤقف کو اس قدر مقبولیت کیوں ملی؟اس سے قبل کشمیریوں نے شیخ محمد عبداللہ کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اسے خوب پیا ردیا لیکن22 سال تک رائے شماری کی تحریک چلانے اور اتنی ہی مدت جیل میں گزارنے کے بعد 1971 میں جب انہوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے کشمیر کا اقتدار سنبھالا تو کشمیریوں کی توقعات کا قتل ہو گیا۔لیکن سیدعلی گیلانی نے مواقع دستیاب ہونے کے باوجود کوئی سمجھوتہ نہیں کیااورلوگوں کوگیلانی میں ایک حقیقی نجات دہندہ نظرآیا۔ایک وقت ایسا لگا گیلانی چاہتے تھے کہ انہیں اسلام کے محافظ کے طور پر جانا جائے، لیکن طویل سیاسی سفر میں انھوں نے جس طرح اپنے مؤقف پر وقتی بہاؤ کو حاوی نہ ہونے دیا وہی اُن کا قابل قدر ورثہ ہے۔ان کے ساتھیوں نے نئی دلی اور اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار کیے، لیکن گیلانی کے اعتراض کی وجہ سے وہ کسی بھی سمجھوتہ کو مقبول عام نہ بنا سکے۔ اُن دنوں مشرف افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا حلیف بننے کے بعد بھارتی سرحد سے بے فکر ہونا چاہتے تھے۔حالانکہ مشرف کے وزیرخارجہ خورشید قصوری نے دعویٰ کیا ہے کہ چار نکاتی فارمولہ پر بھارت اور پاکستان اتفاق رائے کے نہایت قریب آچکے تھے۔
پھرایک ایساوقت بھی آیاکہ سید علی گیلانی نے جدوجہدآزادی کی علم بردار کثیر الجماعتی اتحاد حریت کانفرنس سے الگ ہونے کا اعلان کیا لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وہ “بھارتی استعمار”سے تاحیات برسرِ پیکار رہیں گے۔جدوجہدآزادی کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر پانچ دہائیوں تک چھائے رہنے والے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے ایک مختصر آڈیو پیغام کے ذریعے کئی تنظیموں کے اتحاد حریت کانفرنس کے اُس دھڑے سے علیحدگی کا اعلان کیا جس کے وہ 17 سال قبل تاحیات چئیرمین منتخب ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر جاری کی گئی 47 سیکنڈ کی آڈیو کلپ میں کل جماعتی حریت کانفرنس کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔ اس ضمن میں فورم کی تمام اکائیوں کو ایک مفصل خط کے ذریعے مطلع کر دیا گیا ہے۔دو صفحات پر مشتمل اس تفصیلی خط میں گیلانی نے کسی کا نام لیے بغیر حریت کانفرنس کی اکائیوں کے قائدین پر نظم شکنی اور مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا۔ کسی کا نام لیے بغیر گیلانی نے حریت کے قائدین اور کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا “تاریخی قدغنوں اور زیرِحراست ہونے کے باوجود میں نے آپ حضرات کو بہت تلاش کیا، پیغامات کے ذریعے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی مگر کوئی بھی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوئی اور آپ تلاش بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہوئے۔”

گیلانی مزید لکھتے ہیں :مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل پیش کرنے اور ان حالات میں قوم کی رہنمائی کرنے میں میری صحت اور نہ ہی ایک دہائی کی حراست کبھی میرے سامنے حائل ہوئی۔ آج جب آپ کے سروں پر احتساب کی تلوار لٹکنے لگی، جوابدہی کی تپش محسوس ہونے لگی، مالی بے ضابطگیوں سے پردہ سرکنے لگا اور اپنے منصب چھِن جانے کا خوف طاری ہوا تو وبائی مارا ماری اور سرکاری بندشوں کے باوجود آپ حضرات نام نہاد شوریٰ اجلاس منعقد کرنے کیلئےجمع ہوئے اور اپنے نمائندوں کے غیر آئینی فیصلے کی حمایت اور تصدیق کر کے یکجہتی اور یکسوئی کی انوکھی مثال قائم کی اور اس ڈرامے کو اپنے چہیتے نشریاتی اداروں کے ذریعے تشہیر دے کر انہیں بھی اس گناہِ بے لذّت میں شریک کیا۔

واضح رہے 2003 میں نئی دلی کے ساتھ مذاکرات اور جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی حمایت کے معاملوں پر سید علی گیلانی نے میر واعظ عمر فاروق سمیت کئی قائدین پر تحریکی اہداف سے انحراف کا الزام عائد کیا تھا۔ یہ تنازع کئی ماہ تک جاری رہا اور بعد میں حریت کی بعض اکائیوں نے سید علی گیلانی کو حریت کانفرنس کا چئیرمین منتخب کیا۔ اس طرح حریت کانفرنس دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ گیلانی خط میں لکھتے ہیں :2003 میں کل جماعتی حریت کانفرنس جموں کشمیر کی قیادت سنبھالنے اور پھر تاحیات اس کی سربراہی کیلئےآپ لوگوں نے ہی مجھے مجبور کیا۔ اس فورم کی کارکردگی اور بے ضابطگیوں کو اکثر تحریک کے وسیع تر مفاد کے لبادے میں نظر انداز کیا گیا۔ حکومتی عذاب و عتاب، مسلسل گرفتاریوں، معاشی بدحالی اور ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے جوابدہی کا سخت اور متوقع نظام قائم نہیں ہوسکا۔ لیکن آج آپ تمام حدود و قیود کو پامال کر کے نظم شکنی ہی نہیں بلکہ قیادت سے کھلی اور اعلاناً بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

گیلانی کہتے ہیں کہ وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ اس فورم کے ساتھیوں کی کارکردگی کیلئےجوابدہی کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیے موجودہ صورت حال کے پیش نظر، تمام حالات پر غور و فکر کے بعد میں کل جماعتی حریت کانفرنس جموں کشمیر سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔۔۔آپ تمام حضرات اپنے لیے فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔تاہم سیدعلی گیلانی اپنے دیرینہ مؤقف کی صورت حریت کے تمام رہنماءوں کیلئے ایسا سیاسی اور نظریاتی ورثہ چھوڑ گئے ہیں جو مختلف اور متضاد نظریات رکھنے والے لوگوں کو بھی متحد کرتا ہے۔

یقیناًسیدعلی گیلانی اس فانی دنیاسے دار بقاءکی طرف تشریف لے گئے ہیں،اس عارضی زندگی کی بہاروں اورگلوں کی خوشبوؤں سے منہ موڑکردائمی بہار، سدا خوشبوؤں ومہک کے گلستانوں میں براجمان ہوگئے ہیں اوراپنے ہرتعلق رکھنے والوں کوچھوڑکراپنے مولاکے ساتھ مضبوط تعلق کارشتہ جوڑچکے ہیں۔ہرکوئی جانتا ہے کہ موت توکوئی نئی چیز نہیں۔موت توہرایک کوآنی ہے۔موت کے قانون سے نہ تو کوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔جوبھی آیاہے اپنامقررہ وقت پوراکرکے اس دنیاسے رخصت ہوجاتاہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں،پھرکس کی مجال جواس میں خیانت کرسکے۔کسی کااس طرح ساری زندگی اللہ اوراس کے محبوب نبی اکرم ﷺ کے احکام کی تابعداری میں صعوبتیں برداشت کرنااورمجاہدانہ کرداراداکرتے ہوئے حالتِ ایمان اورراہِ خدامیں قربان ہوجانااس کے حق میں بڑی نعمت ہے اورپھرکیوں نہ ہو،ایسی موت تووصل حبیب اوربقائے حبیب کاخوبصورت سبب اور حسین ذریعہ ہے اورپھربقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت کیا ہو گی۔اس دنیامیں جوبھی آیاہے اسے یقیناًایک دن جاناہے اوراس دنیامیں آناہی درحقیقت جانے کی تمہیدہے مگربعض جانے والے اپنے ماں باپ، لواحقین اوراہل وطن کیلئے ایسی دولت اورفخروانبساط کی ایسی وراثت چھوڑجاتے ہیں کہ جس کے آگے خزائن وحشم سے مالا مال شہنشاہ بھی سوفقیروں کے فقیراورسو کنگالوں کے کنگال لگتے ہیں۔

سیدعلی گیلانی اپنی قوم کے نوجوانوں کے قلب وذہن کے اندرپچھلی کئی دہائیوں سے عملِ خیرکابیج بوچکے تھے،اس بیج پرمشیت کی برسائی ہوئی برسات نے بالآخر کس طرح عمل خیرکی لہلہاتی ہوئی کھیتی اگادی کہ اب ہربچہ برہان وانی کی تقلیدمیں صرف شہادت میں عقبیٰ وآخرت کی نجات پریقین رکھتاہے۔اگراس فصل کی تقسیم شروع کردی جائے توسب کوہی اپنادامن تنگ نظرآئے گا۔سیدعلی گیلانی کی تعلیمات نےپائے رسولﷺکے نقوش کوایسااجاگرکیا ہے کہ ہرنوجوان اورہرکسی کو اب اپنے خونِ دل اورجان کی قربانی سے اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے۔للہٰیت،اخلاص نیت اوربے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکرلئے ہیں جس کی تمناانبیاء،اصحابہ اورصالحین نے ہمیشہ کی۔اب سیدعلی گیلانی کی یاد تاقیامت تک کفر کے تاریک جزیروں پرایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی،مکارہندوکے قریب اس سیدزادے کاسب سے بڑایہی جرم ہے کہ انہوں نے آخری سانس تک اپنے عمل سے پاکستان سے اپنی بے لوث محبت کانہ صرف ثبوت دیابلکہ ان کے لبوں پرآخری وقت میں کلمہ طیبہ کے ساتھ پاک سرزمین زندہ باد جاری رہا۔

سیدعلی گیلانی کی عمربھرکی جدوجہدنے جہاں اوربے شمارباتوں کاسبق یاددلایاہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین کروائی ہے کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیروجودبھی تخلیق اسباب اورترتیب نتائج میں اپناحصہ رکھتاہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش بھی آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح عمل خیرکاایک لمحہ بھی عالم کے اجتماعی خیرکے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتاہے اورمیزان نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے اوریوں آخرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہوں گے توسیدگیلانی بھی نوجوان شہداء کے کے گروہ میں شامل اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضر ہوں گے کہ تمام عالم ان پررشک کرے گا۔

ربِّ ذوالجلال سے ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے،خداجانے کب……؟خداجانے کہاں……؟اورکس حال میں ہوں گے؟کتنی بڑی ملاقات ہوگی جب ایک عبدذلیل اپنے معبوداکبر سے ملے گا!جب مخلوق دیکھے گی کہ خوداس کاخالقِ اکبراس کے سامنے ہے ،ربِّ کعبہ کی قسم…..! کیسے خوش نصیب ہیں یہ علی گیلانی کہ نوجوان کشمیری شہداء کے گروہ درگروہ کے ساتھ جلوہ گاہ میں اس شان سے جائیں گے کہ اس ملاقات کے موقع پراللہ کونذرکرنے کیلئے اللہ کاکوکوئی انتہائی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجود ہوگا۔ جی ہاں!ان کفنوں کی جھولیوں میں جن میں بدن اورسچے حریت پسندکے ایمان وعمل کی لاش ہوگی جوہندوکفار کی طرف سےپہنچائی جانے والی اپنی ساری زندگی کی صعوبتوں کاتحفہ پیش کرے گااوراپنے رب کی تعلیمات سے منوران شہداءکوپیش کرے گاجن کے سینے شہادت کے طمطراق تمغوں سے سجے ہوں گے۔ان تمغوں کوخدائے برترکی رحمت لپک لپک کربوسے دے گی اوراعلان ہوگا
توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے
یہ بندۂ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے

کاش ہمیں بھی اس ملاقات اوریقینی ملاقات کاکوئی خیال آتااورتڑپادیتا،کاش ہم بھی ایسی موت سے ہمکنارہوجائیں جہاں فانی جسم کے تمام اعضاء باری باری قربان ہو جائیں،سب خداکیلئے کٹ جائیں،سب اسی کے پائے نازپرنثارہوجائیں جس کے دستِ خاص نے ان کووجودکے سانچے میں ڈھالاہے۔
یقیناًمکاروعیار ہندوسید علی گیلانی کے جسدفانی سے بھی اس قدرخوفزدہ تھاکہ اس نے لواحقین سے ان کی میت کو چھین کران کی وصیت کے مطابق شہداء کے قبرستان میں دفن کرنے کی بجائے انہیں ان کےگھرکے قریب قبرستان میں زبردستی دفن کردیااوراس طرح سیدعلی گیلانی بھی ان نوجوان شہداء کی طرح شیطانی قوتوں کاشکارہوگئے مگراشک بارآنکھوں سے سو بارچومنے کے لائق ہیں یہ کہ فرشتے اورہزاروں شہداءان کواٹھاکراللہ کے ہاں حاضرہوگئے ہیں اورسیدگیلانی کی ساری عمراوران شہداءکی جوانیاں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ دنیاپرنہیں یہ آخرت پرنثارہوئی ہیں۔انہوں نے دنیاکی کسی چیزسے نہیں خودرب سے عشق کیا،انہوں نے دنیاکی ساری اشیاءاوعیش وعشرت پرنہیں خودرسول اکرم ﷺکی ذاتِ مبارک پرایمان کی بنیادرکھی،انہوں نے دنیاکی نشیلی چھاؤں میں نہیں بلکہ مکارہندوکی 8لاکھ فوج کے حصارمیں اپنے لاکھوں مداحوں کو زندگی کایہ نصب العین یادکروادیاکہ”ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہماراہے” جس پرعمل کرتے ہوئے ہرنوجوان نے اس کی تکمیل میں شہادت کے پرشوق سائے میں پناہ ڈھونڈی،اورآج بھی اپنے اس عظیم رہنماء کی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے زندگی کی دلفریب اورایمان کی شاہکار شاہراہ پراس طرح سفرکررہے ہیں کہ جب تک اس مکار دشمن سے کشمیرکوآزادنہیں کروالیتے اس وقت تک زندگی سے ہٹ کر شہادت اور شہادت کے اس پار تک کچھ سوچنے کاکوئی سوال ہی نہیں۔وہ آج بھی شباب وحسن سے وجدکرتے ہوئے اللہ کے ہاں اس طرح حاضر ہورہےہیں کہ حسن وجوانی باربارایسی حسرت کرے۔

سیدعلی گیلانی زندگی اوردنیاپرجھومنے کی بجائے سچائی اورآخرت پرمرجانے کی رسم اداکرگئے تاکہ زمین وآسمان ان کی موت پر آنسو بہائیں لیکن میراکریم رب اپنے فرشتوں کی محفل میں خوش ہوکہ اس کابندہ اس کی بارگاہ تک آن پہنچا۔دراصل کشمیرکوآزاددیکھنے والے سیدعلی گیلانی ہی نہیں بلکہ ہرنوجوان کومعلوم ہوگیاہے کہ ان کاگھراس دنیامیں کہیں نہیں بلکہ اس دنیامیں ہے جوجسم وجاں کاتعلق ٹوٹتے ہی شروع ہوتی ہے۔ایسی دنیاجہاں خودمیرارحیم رب اپنے بندوں کامنتظرہے کہ کون ہے جودنیاکے بدلے آخرت اورآخرت کے بدلے اپنی دنیافروخت کرکے مجھ سے آن ملے۔جہاں وہ جنت ہے جس کے گہرے اورہلکے سبزباغات کی سرسراہٹوں اورشیروشہد کی اٹھلاتی لہراتی ہوئی ندیوں کے کنارے خوف وغم کی پرچھائیوں سے دورایک حسین ترین دائمی زندگی،سچے خوابوں کے جال بن رہی ہے۔جہاں فرشتوں کے قلوب بھی اللہ کے ہاں پکاراٹھیں گے کہ خدایا…..!یہ ہیں وہ تیرے بندے،جن کی ساری دنیاتیرے عشق میں لٹ گئی ہے،یہ سب کچھ لٹا کرتیری دیدکوپہنچے ہیں،ان کے قلوب میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ راہِ حق میں ماراجاناہی دراصل تجھ تک پہنچنے کاذریعہ ہے اور شہادت کے معنی ہی ہمیشہ زندہ رہناہے۔یہ توسب کچھ لٹاکراس یقین تک پہنچے ہیں۔اورہاں!کتناقابل رشک ہے سیدعلی گیلانی اوران کے تربیت یافتہ نوجوانوں کایقیں اورایمان،جن پرملائکہ ایسی گواہی دیں گے اورکس قدررونے کے لائق ہیں ہمارے ایمان جن کیلئے ہمارے دل بھی گواہی دیتے دیتے کسی خوف سے چپ ہوجاتے ہیں۔کل جب میدان حشرمیں سیدعلی گیلانی اوران کے تربیت یافتہ اشک ولہومیں نہائے ہوئے یہ نوجوان خداوندی لطف و اعزازسے سرفرازکئے جارہے ہوں گے،خداجانے ہم کہاں اورکس حال میں ہوں گے۔

انڈیانے سیدعلی گیلانی کانمازجنازہ پڑھنے سے جبراًروک دیالیکن تمام دنیامیں ان کاجنازہ پڑھاگیااورجس طرح ملاعمرکی قبرپرافغانستان کی فتح کی خبرپہنچی اسی طرح سیدعلی گیلانی کی قبرپرکشمیرکی فتح کی خبرضرور پہنچے گی ان شاءاللہ
(Visited 133 times, 5 visits today)

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.