طالبان کے خلاف شکست خوردہ طاقتوں کی پروپگینڈا جنگ

افغانستان میں طالبان نے امریکہ اور نیٹو ممالک کی بیس سالہ ناکام جنگ کے بعد جس طرح دوبارہ اقتدار حاصل کیا ساری دنیا اس سے واقف ہے ۔دنیا کی نظریں طالبان پر ٹکی ہوئی ہے اور دشمنانِ اسلام نہیں چاہتے کہ افغانستان میں شرعی قوانین کے مطابق طالبان کی حکومت قائم رہے۔کسی نہ کسی بہانے یا مسئلہ پر میڈیا کی جانب سے طالبان کے خلاف زہر افشانی کی جارہی ہے کبھی خواتین کا مسئلہ اٹھایا جارہا ہے تو کبھی ملک میں طالبان کے درمیان اختلافات کو لے کر غلط تشہیر کی جارہی ہے۔ طالبان کا غیر معمولی طور پر افغانستان پر مختصر سی مدت کے اندر قبضہ عالمی سطح پر حیرت زدہ ہے۔ طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضے کے بعد عام معافی کا اعلان کرکے افغان عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جہاں دشمن کو بھی معافی دی جاتی ہے ۔ طالبان کی جانب سے خواتین کو شرعی قوانین کے مطابق مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا ہے اس کے باوجود بعض طالبان دشمن میڈیا کی جانب سے کسی نہ کسی بہانے غلط پروپگینڈا کیا جارہا ہے ۔ معاشی اعتبار سے طالبان کو کمزور کرنے کے لئے مغرب دشمنی اور طالبان پر عدم اعتماد کے باعث اربوں ڈالرز کی امداد اچانک بند کردی گئی ۔تاہم جنیوا میں منعقدہ کانفرنس میں عطیہ دہندگان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بیس سال گزارنے کے بعد وہاں کے عوام کی مدد جاری رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر کتنے ممالک تسلیم کرتے ہیں اور کتنے نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن فی الحال طالبان حکومت کو اپنے عوام کی خوشحالی کیلئے کئی اقدامات کرنے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مختلف ممالک کی جانب سے افغانستان میں جو سرمایہ کاری کی گئی تھی طالبان کے لئے یہ ایک نعمت کے طور پر ہاتھ آئی ہے لیکن معاشی اعتبار سے نصف افغان عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔امریکہ اور عالمی بینک اور دیگر ممالک کی جانب سے افغانستان کے لئے امداد بند کرنے کی وجہ سے ملک میں سخت معاشی بحران پیدا ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ اسی کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے طالبان کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں پر زور دیا ہے اور کہا ہیکہ امداد کو انسانی حقوق کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سکریٹری جنرل 13؍ ستمبرپیر کو جینیوا میں افغانستان کے لئے امدادی کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر کہاکہ افغانستان کو انسانی بحران سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ کو 60کروڑ ڈالرز کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ افغانستان میں انسانی ضروریات طالبان کے قبضے سے پہلے ہی بہت زیادہ تھے۔ انتونیو گترین نے عالمی برادری پر زور دیا کہ افغانستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے مالی امداد کے استعمال کے طریقے تلاش کئے جائیں ، افغانستان کی معیشت کو چلنے دیا جائے تاکہ اسے تباہی سے بچایا جاسکے۔ اس کانفرنس کا مقصد چھ سو ملین ڈالر سے زائدرقم اکھٹا کرنا تھا ۔ دیکھنا ہیکہ عالمی برادری کس طرح طالبان حکومت کو امداد فراہم کرتی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کی درخواست پر عالمی برادری نے افغانستان کے عوام کے لئے ایک ارب ڈالر سے زائد کی امداد کے وعدے کئے ہیں۔ امریکہ ، یورپی یونین اور برطانیہ نے کہا ہیکہ وہ افغان طالبان سے رابطے کرینگے لیکن افغانستان میں ان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کرینگے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ قطر، ترکی ،متحدہ عرب امارات ، چین ، پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک و عالمی تنظیمیں افغان عوام کے لئے غذائی اشیاء خوردو نوش، ادویات سمیت دیگر امداد بھیج رہے ہیں۔ یورپی یونین نے افغانستان کے لئے 10کروڑ یورو امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈیرلین نے افغانستان کے لئے اضافی امداد کا اعلان کیا ہے، ان کا کہنا ہیکہ 27ملکوں کا اتحاد افغان شہریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں اپنے طور پر تمام اقدامات کرنا ہونگے تاکہ قحط اور انسانی بحران کے خطرات کو ٹال سکیں۔ اس طرح انکا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کیلئے انسانی ہمدردی کی امداد میں 10کروڑ یورو کا اضافہ کرینگے۔ امریکہ نے افغان عوام کی مدد کیلئے تقریباً64ملین ڈالر اضافی امداد کا اعلان کیا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ امریکہ کا بین الاقوامی ادارہ یو ایس ایڈ اور امریکہ محکمہ خارجہ کی جانب سے فراہم کی گئی یہ امداد اقوام متحدہ اور بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں کے ذریعہ فراہم کی جائے گی۔

طالبان کی عبوری حکومت کے اعلان کے بعد سے ہی بعض ممالک کے میڈیا اداروں بشمول سوشل میڈیا سے یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ طالبان کے درمیان شدید اختلافات ہوچکے ہیں اور ملا عبدالغنی برادرعبوری حکومت کے نائب وزیر اعظم اور حقانی نیٹ ورک کے رہنما خلیل الرحمن وزیر مہاجرین کے درمیان صدارتی محل میں وزارت کے مسئلہ پر اختلافات ہوچکے ہیں اور اس کے بعد ملا عبدالغنی برادر قندھار چلے گئے ہیں جبکہ بعض طالبان دشمن گوشوں یا میڈیانے یہ بتانے کی بھی کوشش کی کہ صدارتی محل میں بحث و مباحثہ دوران فائرنگ کے نتیجہ ملا عبدالغنی برادر ہلاک یا زخمی ہوگئے ہیں۔ اس خبر کے عام ہونے پر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کی جانب سے طالبان حکومت کے نائب وزیر اعظم اور سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کا ایک آڈیو پیغام جاری کیا گیا جس میں ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ وہ گذشتہ دنوں سفر میں تھے اور کہیں گئے ہوئے تھے، انہوں نے کہاکہ ’’الحمد ﷲ میں اور ہمارے تمام ساتھی ٹھیک ہیں‘‘ انہو ں نے مزید کہاکہ’’ اکثر اوقات میڈیاہمارے خلاف ایسے ہی شرمناک جھوٹ بولتا ہے‘‘۔افغانستان میں طالبان کا دورِ اقتدار شروع ہوچکا ہے پورے ملک میں طالبان اقتدار میں آچکے ہیں۔ پنجشیر میں سابق افغان نائب صدر امر اﷲ صالح اور احمد شاہ مسعود کی طالبان کے خلاف ناکام جدوجہد بھی ناکام ہوچکی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق احمد شاہ مسعود طالبان نے افغان وزارت میں 30فیصد شمولیت اور پنجشیر میں طالبان کا جھنڈا نہ لہرانے اور طالبان کی جانب سے گورنر متعین نہ کرنے کی شرط رکھی تھی جسے طالبان نے مسترد کردیا اور آخر کار مسعود اور امر اﷲ صالح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۰۰ ۰ذرائع ابلاغ کے مطابق امراﷲ صالح اور جنرل رشید دوستم کے گھروں پر بھی طالبان نے قبضہ کرلیا ہے جہاں سے لاکھوں ڈالرز اور کثیر مقدار میں سونا اور دیگر اہم اشیاء ملے ہیں۔ ماضی کی افغان حکومت میں کئی وزرا و عہدیدار پرتعیش زندگی گزار رہے تھے جس کی رپورٹس میڈیا کی جانب سے منظر عام پر آرہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہیکہ طالبان کو پاکستان نے مشورہ دیا تھا کہ سابق حکومت کے صدر حامد کرزئی اور سی ای او عبداﷲ عبداﷲ کو طالبان حکومت میں جگہ دی جائے جس پر طالبان کے رہنماؤں نے عمران خان حکومت سے سوال کیا کہ کیا وہ سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اورسابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو اپنی حکومت کا حصہ بنانا پسند کرینگے؟

کابل میں خواتین کی جانب سے طالبان حکومت کی حمایت
طالبان کے خلاف عالمی سطح پر غلط تشہیر کی جارہی ہے، میڈیا بشمول سوشل میڈیا پر جو چاہے ، جیسا چاہے غلط پروپگینڈا کیا جارہا ہے۔ افغان خواتین کے حقوق پر ایسا ردّعمل ہورہا ہے جیسے انکی اپنی خواتین پر ظلم و ستم ہورہا ہے۔ جبکہ ان ممالک میں جہاں افغان خواتین کے حقوق کی بات کی جارہی ہے وہاں کی خواتین و لڑکیوں پر جو ظلم و ستم ہورہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہیے۔کابل میں خواتین کی جانب سے طالبان حکومت کی تائید میں ایک اہم اجلاس اور مظاہرہ منعقد کیا گیا۔ ہفتہ کے روز منعقدہ اس اجلاس میں مکمل حجاب میں ملبوس خواتین کابل یونیورسٹی کے لیکچرہال میں جمع تھیں۔ جہاں انہوں نے صنفی علیحدگی سے متعلق طالبان کی سخت گیر پالیسیوں سے اتفاق کا اظہار کیا۔فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق سر سے پیر تک برقعے میں ملبوس تین سو خواتین نے طالبان کے جھنڈے لہرائے ۔خواتین مقررین نے مغرب پر تنقید کی اور طالبان کی پالیسیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ان میں سے چند خواتین مقامی نیلا برقع پہن رکھا تھا جن کی آنکھوں پر جال لگے تھے جبکہ زیادہ ترخواتین نقاب لگائیں تھیں۔ بہت سی خواتین نے کالے دستانے بھی پہنے تھے۔

واضح رہے کہ طالبان کے پہلے دور اقتدار یعنی 1996 سے 2001 کے دوران افغان خواتین کے حقوق کافی حد تک محدود ہو گئے تھے لیکن گذشتہ ماہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ وہ نسبتاً کم سخت گیر حکمرانی نافذ کریں گے۔طالبان کے محکمہ تعلیم نے کہا ہے کہ اس مرتبہ خواتین کو یونیورسٹی جانے کی اجازت ہوگی اور صنفی بنیاد پر کلاسز علیحدہ ہونگی یا کم از کم درمیان میں پردہ ڈال کر کلاس میں لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ رکھا جائے گا۔ لڑکیاں ضرور عبایا یا نقاب پہنیں گی۔ شہید ربانی ایجوکیشن یونیورسٹی کابل کے اس پروگرام میں خواتین مقررین نے ان خواتین مظاہرین پر تنقید کی جنہوں نے حالیہ دنوں میں مظاہرے کیے تھے۔انہوں نے اسلامی امارات افغانستان کے نئے حکومت کا دفاع کیا، جس نے حال ہی میں مظاہروں پر پابندی عائد کی ہے۔اسلامی امارت نے احتجاجی مظاہروں کے لیے وزارت انصاف سے اجازت لینے کیلئے کہا ہے۔بتایا جاتا ہیکہ خواتین نے اس پروگرام کے لئے اجازت حاصل کی۔ اس موقع پر پہلی خاتون اسپیکر نے کہا کہ ’ہم ان خواتین کے خلاف ہیں جو سڑکوں پر مظاہرے کر رہی ہیں اور دعویٰ کر رہی ہیں کہ وہ خواتین کی نمائندہ ہیں‘۔انہوں نے دعویٰ کیا ’کیا یہ آزادی ہیکہ سابق حکومت کو پسند کیا جائے؟ نہیں، یہ آزادی نہیں ہے۔ پچھلی حکومت خواتین کا غلط استعمال کر رہی تھی۔ وہ خواتین کو صرف ان کی خوبصورتی کی وجہ سے بھرتی کر رہے تھے۔‘ایک طالبہ شبانہ عمری نے خواتین سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ طالبان کی اس پالیسی سے متفق ہیں کہ خواتین سر ڈھانپیں۔’وہ جو حجاب نہیں لیتی وہ ہم سب کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔‘ ’حجاب ایک انفرادی چیز نہیں ہے۔‘ایک اورمقررہ سمعیہ نے کہا کہ طالبان کی واپسی کے بعد تاریخ بدل گئی ہے۔ ’اس کے بعد ہم بے حجابی نہیں دیکھیں گے۔‘’خواتین اس کے بعد محفوظ ہونگی۔ ہم اپنی پوری قوت کے ساتھ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں‘۔ تقاریر کے بعد خواتین سڑکوں پر بھی نکلیں۔ بتایا جاتا ہیکہ یہ عوامی مظاہرہ کابل اور دیگر علاقوں کے ان مظاہروں کے بالکل برعکس تھا ۔ اس موقع پر مظاہرے میں ایک بینر پر لکھا ہوا تھا کہ ’جن خواتین نے افغانستان کو چھوڑا وہ ہماری نمائندگی نہیں کر سکتیں۔‘ایک اور پر لکھا تھا کہ ’ہم مجاہدین کے رویے اور سلوک سے مطمئن ہیں‘۔اب دیکھنا ہیکہ خواتین کی جانب سے طالبان حکومت کی تائید کئے جانے پر کتنے میڈیا ادارے یا افراداس کی صحیح انداز میں تشہیر کرتے ہیں۰۰۰
ٌٌٌ***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.