الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر فحش اور اخلاق بافتہ میٹیریل نوجوان نسل کیلئے زہر قاتل؟

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ متلاشی کی نگاہیں آسمان پر تیرنے والے بادلوں سے بھی اپنے مطلب کی تصویریں بنا لیا کرتی ہیں۔

ہر مہذب معاشرے میں رہنے کے کچھ اصول و ضوابط، دستور، قوانین اورمزہبی رسم و رواج اور ثقافت ہوا کرتی ہے جنکے مطابق وہاں کے رہنے والے اپنی اندگی گزارتے ہیں ۔ ایک معاشری کے رسم و رواج اور دستور دوسریے معاشرے سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔ ٓج ہم جس موضوع کو زیر بحث لا رہے ہیں وہ میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی ہے۔

ہر معاشرے میں فحاشی کی تشریح اور معانی مختلف لئے جاتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ لفط فحاشی یا عریانی کو ہر معاشرے میں نہ ہی ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے نہ ہی اسکے معانی ایک جیسے ہیں ۔ فحش گوئی،عریانی اور فحاشی کیا ہے؟’’فحش گوئی سے مراد قبیح، نامناسب اور غیر اخلاقی پیرایہ یا بیان سے ہٹی ہوئی تقریر یا تحریر ہے جس میں دشنام، گالی، گلوچ، الزام تراشی، عریانی،شہوانی اشارے، تصاویر، لچر گفتگو، اعمال و افعال اوربرہنگی دکھانا، سنانا ، لکھنا اور بیان کرنا بھی فحش گوئی میں آتے ہیں ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستورکی تمہید میں یہ درج ہے کہ جمہوریت، ٓزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرؔح اسلام نے اسکی تشریح کی ہے پوری طرح ئمل کیا جائیگا۔ پھر دستور کے سیکشن ۳۷ (ز) میں اسلامی طرز زندگی کے بارے میں در ج ہے کہ عصمت فروشی، قماربازی، ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت و نشر و اشاعت اور نمائش کی روک تھام کریگی جبکہ غیر مذاہب کے لوگوں پر شراب کی پابندی نہیں ہوگی۔

ایک معاشرے کی فحاشی دوسرے معاشرے کی تفریح بھی تو ہو سکتیی ہے تا حال فحاشی کی مدلل اور جامع تعریف نہیں کیجا سکی۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والا مواد کسی معاشرے کیلئے فحش اور کسی کیلئے تفریح کا باعث ہو سکتا ہے۔ ہماری عدلیہ نے فحش مواد پر پابندی تو لگا دی ہے لیکن تا حال فحش فحش مواد کی وضاحت اور تشریح نہ کر سکی ہے۔ پیمرانے اس بات پر استفسار کیا ہے کہ تا حال ٓئین میں فحاشی کی کوئی واضح تعریف اور تشریح نہیں ہے ۔ہمارے معاشرے کا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم الفاظ سے کھیلنے کے عادی ہیں ۔

کسی بھی چینل پر پابندی عائد کر کے مثبت نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اگر تو ہم خود کو دوسروں کے سامنے مذہبی بنا کر پیش کرتے ہیں مگر ہمارا اندر منافقت سے بھرا ہوا ہے اور ہم اپنے آپکو ایک مذہبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ بات منافقت کے زمرے میں ٓتی ہے ۔ اگر ہم واقعی مزہب کے ماننے والے ہیں تو ہم میں اور ہمارے مذہبی طبقے میں بدمعاشی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ ، چھوٹے بچوں کیساتھ مساجد اور مدرسوں میں زناہ کے واقعات اور قتل نہ ہوں ۔ ہمیں تعلیم کیساتھ حب الوطنی اور اور قوم سے محبت اور رواداری کا درس اور تربیت حاصل کرنیکی ضرورت ہے۔ صرف مثبت ریاستی اقدامات، تربیت، اور تعلیم ہی معاشرے کے لوگو ں کو اس فحاشی سے بچا سکتی ہے جو انکے دماغوں پر چھائی ہوئی ہے،۔ جب تک ہماری تعلیم اور تربیت اتنی مضبوط اور قابل رشک نہیں ہو جاتی ہم کبھی بھی اخلاقی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتے۔

میڈیا پر پابندی عائد کر دی جائیگی تو لوگ نئے نئے راستوں کی تلاش میں ہونگے اور یہ ہماری تہذیب کی ناکامی ہوگی۔ ہمیں ایک کوڈ آف کنڈکٹ کا پابند ہو کر اپنے معاشرے میں رہنا ہے اور معاشرتی پابندیوں کو قبول کرنا ہوگا اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں نو جوان نسل ویڈیو ٹیپ ریکارڈر پر اپنی جنسی تسکین اور تفریح کیلئے چھپ چھپ کر فحش مواد دیکھا کرتے تھے کیونکہ اسنے اپنی طاقت کے زعم میں جو پابندیاں عائد کی تھین انہیں ہماری جوان نسل نے دل سے قبول نہیں کیا تھا جسکا نتیجیہ ٓج ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر پیش کئے جانے والا مواد در اصل ہمارے ہی معاشرے کا سماجی عکس ہے۔ اب سوشل میڈیا پر ہر ایک کو اجازت ہے کہ وہ کسی بھی قسم کاموااد جس میں ڈکیتی کی واردات، چوری، زناہ کا واقع، قتل،کی واردات ، کسی ایکٹریس کا بیڈروم اور اسمیں ہونے والی غیر پارلیمانی حرکات، نیم برہنہ ڈانس، یا پھر مختلف خواتین اور مردوں کی جنسی حرکات و سکنات۔ جو بازاری زندگی کی عکاس ہوتی ہیں در اصل وہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کے اذہا ن کی عکاس ہوتی ہیں جو عموماً ً موبائل فون سے بنائے جاتی ہیں اورہم وہی مواد ڈھونڈتے ہیں جو ہم دیکھنا چا ہتے ہیں ۔ سوشل میڈیا اچھی او بری چیزوں سے بھرا پڑا ہے اب یہ ہم پر موقوف ہے کہ ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔

حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق، پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جسکی ۷۰فیصد سے زیادہ ناظرین لڑکیاں اور لڑکے ہیں قور وہ زیادہ تر فحش ویڈیوز، پروگرام اور تصاویر سوشل نیٹ ورک پر دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ میڈیا پر دکھائے جانے والے ڈرا مے اور عورتوں کے استعمال میں آنے والی اشیاٗ کے بارے بنائے جانے والے اشتہارات پر مبنی ہوتی ہیں اور انمیں زو معنی الفاط کا سہارا لیکر بچوں کے ازھان پر برے خیالات اور رجحان کی ٓبیاری کی جا رہی ہے جس سے بچے اور نو جوان نسل متاثر ہو رہی ہے اور جنسی رغبت کا شکار ہو رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، یو ٹیوب کے علاوہ دیگر ویب سائٹس اور نیٹ ورکس پر فحش ترین اشتہارات کی بھرمار ہے۔جونہی کوئی سائٹ کھلتی ہے ننگی اور فحش عورت لہراتی ہوئی ٓجاتی ہی ہے۔ ایسے تمام اشہارات پر جو بغیر کسی مرضی کے دیکھنے والوں کو دکھائے جا رہے ہیں بند ہونے چاہئیں۔

مختلف تجارتی ادارے ان سوشل میڈیا ویب سائٹس کو رقم ادا کرکے اپنے اشتہارات دیتے ہیں۔ دراصل ان کا مقصد لوگوں کو اپنی مخصوص ویب سائٹ کی طرف لانا ہوتا ہے جہاں آن لائن چیزوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جو انتہائی گھٹیا حرکت کی جاتی ہے وہ خواتین کی فحش تصاویر کے ساتھ ان سے متعلقہ کوئی چیز کا اشتہار ہوتا ہے۔ آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں تو ٹائم لائن پر چند پوسٹوں کے بعد آپ کے سامنے ایسے اشتہارات ضرور آ جاتے ہیں۔ حتی کہ جنسی کھلونوں کے اشتہارات کی بہتات ہے۔ آپ یقین نہیں مانیں گے لیکن ایک افریقی ملک نے باقاعدہ اس حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں یہ کھلونے اس قدر مقبول ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی نوجوان شادی کرنے کو تیار نہیں یا شائد قابل نہیں۔ یہ اب باآسانی دستیاب ہیں اور اکثر اشتہارات ہی ان کے ہوتے ہیں۔ ان کی واضح اور نمایاں تصاویر کے ساتھ اشتہارات دئیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی باشعور انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ اس رحجان کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کا ایک براہ راست طریقہ ہے، لیکن وہ پیسے کی دوڑ میں اتنے غرق ہو چکے ہیں کہ انہیں قوم سے کوئی سرو کار نہیں ۔ جہاں بڑھتی ہوئی فحاشی نوجوان نسل کیلئے تشویش کا باعث ہے وہیں یہ خطرات بھی منڈلا رہے ہیں کہ آنے والی نسل بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ نوجوان نسل کو ا س وبا ء سے بچانے کیلئے اور ذہنی طور پر محفوظ رکھنے کے لیے ایک صحت مند ماحول کا فراہم کیا جانا اشد ضروری ہے، سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی صحیح پرورش نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارا تعلیمی اداروں میں بچوں کی کردار سازی کو مد نظر رکھااجاتا ہے جس سے ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار دم توڑ رہی ہیں۔بچوں اور نوجوان نسل کیلئے غیر نصابی سرگرمیاں نہ ہونے سے انکا مستقبل اور توانائیاں تباہ ہو رہی ہیں ۔ہمارے تعلیمی ادارے پیسے بٹورنے کی مشینیں بن چکے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی تربیت پر غور نہیں کیا جاتا اور ہماری ٓنے والی غیر تربیت یافتہ نسل ہمارے معاشرے کیلئے زوال پزیری کا باعث ہوگی۔
تحریر: سید انیس احمد بخاری

 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.