حکومت نہیں……!مہنگائی کی ذمہ دار عوام……لازمی پڑھیں

 عام آدمی چکن اور مٹن کی قیمت ہی نہیں پوچھ سکتا۔ دام سن کر کرنٹ لگتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی بار بار کی یقین دہانی کے باوجود بجلی نہیں رہتی۔ آتی ہے‘ تو میٹر تیزی سے دوڑ کر اپنی غیر حاضری کا کام بھی پورا کرلیتاہے۔ اس کے بعد بجلی کا بل ایسے ایسے انداز میں جھٹکے لگاتا ہے کہ اچھا خاصا انسان بھی ICUمیں پہنچ جائے۔ حالانکہ عام آدمی کے پاس جنرل وارڈ کے لائق بھی پیسے نہیں ہوتے‘ وہ ICU کے خرچ کیسے اٹھاپائے گا؟اوپر سے ڈاکٹروں کی کوشش کہ علاج کے بل میں مزید کیسے اضافہ کیاجائے۔ گندم،آٹا‘چاول‘دال‘ مسالے او ر سبزیوں کی قیمتیں ہر دوسرے دن بڑھ جاتی ہیں۔ عام آدمی کے گھرکا بجٹ بگڑجاتا ہے۔
مہنگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً
توڑے ہیں حکمرانوں نے پیمان یقیناً

ارباب اقتدار کو بھی یہ پتہ نہیں کہ اشیاء خوردنی کی کیا قیمت ہے کیونکہ انہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں انکا بوجھ تو حکومت پر ہے انہیں تو اسکا علم بھی ٹی وی سے ہوتا ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی اور بھوک کے مارے عوام خودکشیاں کر رہے ہیں ،وٹامن کی کمی سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں یہ خبریں ارباب اقتدار کیلئے اہم نہیں کیونکہ انتخابات میں یہ باتیں ایشو نہیں بنتیں الیکشن تو سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر لڑنا ہوتا ہے انتخابات میں مذہب،ذات برادری جیسے ایشوز کو ہائی لائیٹ کر کے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔

دنیا میں اصول رائج ہے کہ قیمت صرف اس چیز کی بڑھائی جاتی ہے جس کی خصوصیات بہترین ہوں ،کوالٹی اعلیٰ معیار کی ہو اور مارکیٹ میں وہ چیز باآسانی دستیاب ہو اور ایک عام صارف کے لئے فائدہ مندہو مگر بد قسمتی سے وطن عزیز میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ،چیز کی کوالٹی خراب ہو،مارکیٹ سے نایاب ہو ،لوگ حصول کیلئے مارے مارے پھر رہے ہوں تو سمجھ لیں کہ دام بڑھ گئے ہیں ۔

وطن عزیز کی ایسی صورتحال میں ان گنت لوگ ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں کیونکہ لوڈ شیڈنگ کیساتھ بھاری بھر بلوں نے بھی عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے ۔

بجلی کا بل ہی نہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خوفناک اضافے سے پہلے لوگوں کے صرف ہاتھ کانپ رہے تھے اب انکی ٹانگیں بھی لرزنا شروع ہو چکی ہیں اسکے باوجود مہنگائی سمیت دیگر مسائل کی بگڑتی صورتحال پر حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔

حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنے کی خبریں بھی شہ سرخیوں میں نظر آتی ہیں ،صرف یہی نہیں پٹرولیم قیمتوں میں ہوشوربا اضافے نے بھی عوامی زندگی اجیرن بنارکھی ہے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے ۔
روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب
مہنگائی اسقدر ہے کہ مر جائے آدمی

غریب عوام اس وقت اپنے آپ کو بالکل تنہا اور بے سہارا محسوس کر رہے ہیں اور مایوسیوں کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں اور حکومت کی وہ رٹ کہا ہے جس کے تحت عوام کو تحفظ اور سہولیات میسر آتی ہیں کیا عوام کے ان سوالوں کاجواب اور مشکلات کا تدارک حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس ہے ؟
طلب نے چھین لی بینائی میری
یہ روٹی چاندبن کررہ گئی ہے

سوال یہ ہے کہ یہ حالات کب تک رہیں گے اور عوام کب تک اچھے وقت کی آس میں بھوک، افلاس، بیروزگاری اور بد امنی برداشت کرتے رہیں گے ،آخر کبھی تو انکے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگا اس وقت جو حالات پیدا ہوں گے کیاحکمرانوں اور سیاستدانوں کو اسکا کچھ ادراک ہے کہ نہیں ۔ ثابت ہو تا ہے کہ ارباب اقتدار غربت مٹانے کی بجائے ملک سے غریب مٹا رہے ہیں ۔

ایک جانب حکومت کی جانب سے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی کوئی خاص حکمت عملی مرتب ہوتی نظر نہیں آتی اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں قوم کا وقت ضائع کر رہی ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ جماعتیں عوام کی بقا کی جنگ نہیں بلکہ اپنی سلامتی کی جنگ لڑرہی ہیں اگر اپوزیشن جماعتوں کا وطیرہ گزشتہ تین سالوں کی طرح آگے بھی جاری رہا تو مظلوم عوام کو داد رسی ملنا نا ممکن ہے ۔

گزشتہ تین سالوں میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کبھی لانگ مارچ اور کبھی دھرنوں کے بلندو بانگ دعوے کیے گئے مگر پھر انہی اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جسکے باعث حکومت کو مکمل فری ہینڈ ملا اور وہ عوام پر جتنا ظلم کر سکتی تھی اس نے کیا بلکہ ابھی تک جاری ہے غریب آدمی ہر ماہ اشیائے ضروریہ کی چیزوں کو گزشتہ ماہ کی نسبت زیادہ نرخوں پر خریدتا اور دل میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کوستا نظر آرہا ہے مگر بیچارے غریب عوام نہ تو اتنی اچھی مینجمنٹ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی منظم احتجاج کا ادراک رکھتے ہیں تاہم عام آدمی کے دل میں پکنے والا لاوا ہر آنیوالے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جسکا حکومت کو کوئی ادراک نہیں یہ کوئی نئی بات نہیں تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اس کرسی اقتدار پرکسی کو اﷲ تعالیٰ نے بیٹھنے کا موقع دیا تو اسے عوام کی مشکلات کم اور اپنے مسائل زیادہ نظر آئے اسلئے عوام ہر آنیوالے دن کے ساتھ مہنگائی کی چکی میں پستے ہی نظر آئے تاہم اگر یہاں دروغ گوئی کیساتھ کام لیا جائے تو ماضی کی حکومتوں کو بہتر دکھایا جا سکتا تھا مگر میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ ہر حکومت کے آنے کے بعد عام آدمی کے زیر استعمال اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور وہ ہمیشہ مہنگائی کا رونا روتے نظر آئے بس موجودہ دور میں ماضی کی نسبت بہت تیزی سے مہنگائی کے جن نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے جس وجہ سے عوام اس وقت بہت بڑی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں تاہم حکومت نے اس اذیت کو مزید اذیت ناک بنانے کیلئے تیزی کیساتھ مزید اضافے کی روایت بر قرار رکھی ہوئی ہے اور نظر نہیں آتا کہ اس میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نظر آئے گی ایسے حالات سے تو ں یوں لگتا ہے جیسے حکومت چاہتی ہے کہ عوام کے غم و غصہ اور غضب کا نشانہ بنے اور نئے پاکستان کیساتھ ایک نئی عوامی روایت بھی قائم ہوعوام ارباب کے ایوانوں میں بیٹھے ان بے حس حکمرانوں کو اقتدار کی کرسی سے محروم کر دیں ۔

قارئین……!! عوام کی کون سنتا ہے عوام اگر چاہتی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں اسکی داد رسی ہو تو اپنے جیسے لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے نہ کہ ایسے لوگوں کو اقتدارکی کرسی پر پہنچائے جن کے بارے اسے مکمل جانکاری ہے کہ انکا ماضی سیاہ کارناموں سے بھرا ہے ہمارے ہاں شریف آدمی کو ووٹ اس لئے نہیں ملتا کہ اسے تھانہ کچہری کی سیاست کا ادراک نہیں اور پھر اسے طعنے دیے جاتے ہیں کہ یہ شریف آدمی ہے اسے سیاست میں نہیں آنا چاہیے جب عوام شریف آدمی اور ایماندار آدمی کو سیاست میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تو پھر انکی داد رسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے اسلئے عوام خود کو تبدیل کریں کیونکہ ایسا نہیں کریں گے توانکے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔لہٰذا اب عوام پر ذمہ داری ہے کہ آئندہ انتخابات میں اسکا انتخاب کیا ہوگا اور وہ کیسے حکمران چاہتی ہے ۔


 

Sardar Asghar Ali Abbasi
About the Author: Sardar Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Sardar Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 21027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.