چین کا کول پاور پلانٹ سے انکار

چین کا کول پاور پلانٹ سے انکار

چین جیسے بڑے ملک کی جانب سے ابھی حال ہی میں یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر نہیں تعمیر کرے گا۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی عام بحث سے خطاب کے دوران اس پالیسی کا اعلان کیا جسے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔اس اعلان کے فوری بعد ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ وہ صدر شی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ امریکی صدر کے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خصوصی ایلچی جان کیری نے اسے "انتہائی خوش آئند فیصلہ" قرار دیا۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس نے بھی چین کے اعلان کو بھرپور سراہا۔

یہ چین کی جانب سے عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اٹھایا گیا تازہ ترین اقدام ہے اور بلاشبہ ایسے فیصلوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے مضبوط عزائم اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔اس سے قبل بھی جب چین کی جانب سے 2060 تک کاربن نیوٹرل کے حصول کا اعلان کیا گیا تو دنیا کے بیشتر ممالک نے چین کی پیروی کرتے ہوئے باقاعدہ وقت کے تعین سے تخفیف کاربن کے عزائم ظاہر کیے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے موسمیاتی تبدیلی ،ماحولیاتی تحفظ اور شفاف توانائی کے اعتبار سے دنیا کو ایک نئی تحریک دی ہے۔یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ چین دنیا میں شفاف توانائی کی مصنوعات سازی کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے ،چین قابل تجدید توانائی میں وسیع تعاون کے ذریعے فعال طور پر سبز اور کم کاربن عالمی توانائی کی منتقلی کی جانب کام کر رہا ہے۔

چین کی یہ کوششیں اور عملی اقدامات چین اور مختلف ممالک کے درمیان جاری بین الاقوامی تعاون منصوبوں میں دیکھی جا سکتی ہیں مثلاً پاکستان میں کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور قائداعظم سولر پارک ، گنی میں کالیٹا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ، ہنگری میں کاپوسوار پی وی پاور اسٹیشن پروجیکٹ ، مونٹی نیگرو میں موزورا ونڈ پارک پروجیکٹ وغیرہ۔چین قابل تجدید توانائی کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔ چینی مارکیٹ میں قابل تجدید توانائی ٹیکنالوجی کا وسیع استعمال دنیا بھر میں سبز وسائل کی لاگت کو کم کرنے اور توانائی کی نئی صورت میں منتقلی کے عمل کو تیز کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

شمسی توانائی جیسی قابل تجدید توانائی میں چین کی بے پناہ سرمایہ کاری نے ٹیکنالوجی کی مہارت میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور عالمی رسد میں اضافہ کیا ہے۔حقائق کے تناظر میں اگر قابل تجدید توانائی کے شعبے میں چین کی وسیع اور فراخدلانہ سرمایہ کاری نہ ہوتی تو دنیا قابل تجدید توانائی تک وسیع اور سستی رسائی تیزی سے حاصل نہ کرتی۔

چین کی یہ خوبی بھی اسے دوسری طاقتوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی معاون رہا ہے۔ چین جنوب۔ جنوب ماحولیاتی تعاون کو گہرا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں چین نے 2016 سے 2020 کے آخر تک 10 کم کاربن پائلٹ صنعتی پارکس قائم کیے ،تخفیف کاربن کے حوالے سے 100 مختلف پروگرام شروع کیے ، اور ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے 1000 تربیتی کورسز کا انعقاد کیا ہے تاکہ یہ ممالک بھی صاف اور کم کاربن توانائی سمیت دنیا کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر عالمی موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر توجہ دے سکیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے ردعمل نے صنعتی انقلاب کا ایک نیا دور شروع کیا ہے ، اور تمام ممالک کی جانب سے روایتی صنعتوں کو گرین صنعتوں میں ڈھالتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھانا یقیناً ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔

پاکستان کے تناظر میں توانائی کی کمی ملکی معیشت کے لیے ایک سنگین چیلنج رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کی تقریبا 80 فیصد توانائی کی سپلائی رکازی ایندھن سے حاصل ہوتی ہے ، جیسے تیل جو پاکستان کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔دوسری جانب پاکستان کے پاس قابل تجدید توانائی کے قدرتی وسائل جیسے سورج کی روشنی اور ہوا وافر دستیاب ہے جبکہ پاکستان کی شمسی صلاحیت کا تخمینہ ایک لاکھ میگاواٹ سے زائد لگایا گیا ہے۔چین شمسی توانائی میں عالمی رہنما ہے اور فوٹو وولٹک صنعت کی زبردست ترقی سے دنیا بھر کی مانگ کو پورا کر رہا ہے۔ چینی حکومت کی بروقت ،دوراندیش اور دانشمندانہ پالیسیوں کی بدولت آج چین نہ صرف خود قابل تجدید توانائی میں سرفہرست ہے بلکہ اپنی شمسی ٹیکنالوجی ، کامیاب تجربات اور ماحولیاتی تحفظ کی موئثر پالیسیوں کا باقی دنیا کے ساتھ تبادلہ بھی کر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کی تحفظ ماحول کی کوششیں ، نئی ماحول دوست پالیسیاں اور شمسی توانائی سے فائدہ اٹھانے کا عزم چینی سولر کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی ایک ساتھ مل کرشفاف اور پائیدار ترقی کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ساتھ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ چین کی مدد سے پاکستان میں بھی گرین ماحول دوست منصوبے سامنے آئیں گے اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے احسن طور پر نمٹا جا سکے گا۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 410555 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More