ناول ’’وہ جو خواب ہی رہا‘‘

یہ ایک ناول کی کتاب ہے جوایک کشمیری عاقب شاہین ضلع بلوامہ مقبوضہ کشمیر نے، کشمیر کے ایک خاندان زینب اور زبیرکو محور بنا کر لکھی ہے ۔ یہ ناول نسیم حجازی طرزکا ہے۔ نسیم حجازی نے نوجوانوں کواسلامی تاریخ کے درخشاں اور شاندار پہلو دکھا کر نشاۃ ثانیہ کے لیے آزادی کی شمع روش کرنے کے لیے اُبھارہ تھا۔مگر اسلامی دنیا کے ہمالیہ کے دامن میں واقع وادیِ کشمیر میں تو ابھی تک دکھ ،درد، کرب، نسل کشی اور غلامی کے دور سے گزر رہی ہے۔ یہ ناول اسی دور کی عکاسی کرتا ہے۔

کشمیر ڈوگرہ راج کے ظلم ستم پھراس بھی قبل انگریزوں کے قوم فروختد دور کے دکھ ،کہ انگریز نے پوری کشمیری قوم کو 75 ہزار نانک شاہی سکوں کے عوض سکھوں کو فروخت کیا تھا۔ جس کشمیر کے کے ایک ہونہار فرزند شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے اس انداز سے اپنی قوم کا دکھ بیان کیا تھا کہ:۔
دہقاں وکشت وجو وخیابان وفروختند
قومے فروختند وچے ارزاں فروختند

مقبوضہ کشمیر کو تو ابھی بھی دکھ درد بھری داستان، محاسرے،خواتین کی بے حرمتی،جیل کی سختیاں،جنگلوں میں مشکل زندگی، سیکڑوں کی شہادتیں ۔ جیلوں میں زیریلی خوراک دے کر نوجوں کو چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے بنا کر معاشرے میں پیش کرنا ،تا کہ دوسرے نوجوان عبرت حاصل کرکے آزادی سے توبہ کر لیں۔ (راقم کی لائبیریری میں یہ دستاویزی کتاب موجود ہے) دس ہزار سے زاہد عزت ماآب کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماہی آبروریزی،(یہ کتاب بھی میری لائبیریری میں موجود ہے) مستقل کرفیو کی سختیاں اور اب 5؍ اگست 2019ء میں کشمیر کو ہٹلر سفت مودودی کا بھارتی آئین کے خلاف وردی کرتے ہوئے بھارت میں ضم کر لیا۔تاحال وادی میں کرفیو جاری ہے۔ کشمیر کی آبادی کی ساخت تبدیل کرنے کے لیے لاکھوں ہندوؤں کو کشمیر میں بسا دینا۔کشمیریوں کی نسل کشی کرنا ۔ اس بھی بڑھ بہت مظالم ہیں جو میڈیا پر پابندی کی وجہ سے سامنے نہیں آرہے ۔ان حالات میں کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے اس ناول’’جو خواب ہی رہے‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔پہلے حصہ میں کشمیر جنت نظیر کی خوبصورتی بیان کی گئی جس پر شاعر اسلام، علامہ شیخ محمد اقبالؒ یہ شعر ہی کفالت کرتا ہے کہ: ۔
اگر فردوس روئے زمیں است
ہمیں است، ہمیں است ،ہمیں است

مصنف لکھتے ہیں کہ کسی طرح ایک عمر رسیدہ کشمیری کو بھارتی فوجی مارے رہے ہیں۔بتاؤ مجائدین کہاں چھپے ہیں۔ زبیر کا دادابوڑھا الیاس کہتا ہے کہ اگر مجھے معلوم بھی ہوتا تو بھی نہیں بتاتا۔پھر اسے مار مار اسے شہید کر دیتے ہیں۔’’اُس پار رہنے والے‘‘ حصہ میں’’بیٹا باپ سے معلوم کرتا ہے۔ بابا!!! پاکستانی شہیدوں کے بچے بھی ہوں گے نا‘‘۔ با با جواب دیتا ہاں بیٹا وہ یتیم ہو گئے۔

زبیر کا بیٹا بدر اب بڑاہو کر اسکول جانے لگا۔ کئی دفعہ فوجی راستے کو کارڈن کرلیتے۔مزاحمت کرنے والوں کو مارتے ہیں۔ زیادہ احتجاج کرنے والے نوجونوں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔بدر تلاشی دینے سے انکار کرتا ہے تو ایک فوجی نے دھپڑ مارتا ہے۔ وہ بے حوش ہوجاتا ہے۔ زبیر بھی بے بس تھا۔کشمیر گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہراتے۔بھارت سفاک فوجی اسے اُتار کر پر پیروں میں روندتے ہیں۔ زبیر نے اپنے ہونہار بیٹے بدر کو گھر میں رکھنا مناسب نہیں سمجھا ۔ اسے مکتب میں داخل کروانے لے گیا۔ پرنسپل نے انٹرویو لیا ۔زبیر نے کہا کہ میں بڑا ہو کر مصنف بنوں گا۔وہاں بدر کی ایک عمیر کی لڑکی تقویٰ سے ملاقات ہوئی۔ ایک لڑکے آکاش اور بدر کی دوستی ہوجاتی ہے۔آکاش کے گھر کے بارے بدر نے اُس کے گھر کے حالات معلوم کیے۔ تو آکاش نے آہ بھرتے ہوکہا کہ انڈین آرمی نے میرے پورے گھر کو پاکستان کی محبت کی وجہ سے موت کی نید سلا دیا گیا۔چچا یعقوب نے مجھے اپنے پاس رکھا اور میں جوان ہوا۔ بدر نے اسے تسلی دی۔ غم نہ کرو میں تمھارا ساتھ ہوں۔ آکاش نے ماں باپ کے کی موت کے بعد میں کچھ مخلص طلبہ ساتھیوں کو ساتھ ملاکر تحریک آزادی کشمیر میں شامل ہوگیا۔بدر کیا تم میری طلبہ تحریک کا حصہ بننا پسند کرو گے۔بدرنے اسے کہا کہ میں تو کب سے ایسی طلبہ تحریک کا منتظر تھا۔آکاش کی طلبہ تحریک ایک رسالہ ’’پیغام طلبہ‘‘ کے نام سے چلا رہی ہے۔ کیاتم اس میں لکھانا پسند کروو گے۔بدر نے اس رسالہ میں اپنی قابلیت کونکھارا۔بدر کی تقویٰ سے ملاقات ہوتی ہے۔ تقوٰیٰ کی ایک تحریر’’اے میرے قوم کے نوجونوں اپنا فرض پہنچانو‘‘ دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور کہتا کہ آب بھی ہمارے ساتھ مل کر لکھا کریں۔بدر نے تقویٰ سے کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ملک کر طلبہ تحریک کے لیے

کام کریں۔جسے تقویٰ نے قبول کر لیا۔بدر کے ساتھ اور بہت سے لڑکے طلبہ تحریک میں شامل ہو گے۔ پھر بدر اور تقویٰ کے شادی ہو جاتی ہے۔ دونوں کو اﷲ نے ایک پیارا بیٹا تحسین شاہین عطا کیا۔ بیٹا ایک سال کا ہو گیا۔ زینب اورزبیرکو اپنے بیٹے بدر سے اپنے پوتے کی فکر رہنے لگی۔ عام ناولوں کی طرح خاتون کو سینے سے لگانے کا ایک واقعہ اس ناول میں بھی ہے۔ مگر بدر کسی غیر عورت سے نہیں بلکہ اپنی بیوی تقویٰ کو سینے سے لگا تا ہے۔ حکومت کے خلاف موادتلاش کرنے میں لگی رہتی۔ بدقسمتی کہ ہر دور میں غدار پیدا ہو جاتے ہیں۔کسی غدار نے طلبہ تحریک کی سرگرمیوں کا پتہ حکومت کوبتا دیا۔بدر کو اس کا ہیڈ تھا۔حکومت نے بدر کو گرفتار کر لیا۔جیل میں تکلیفوں کے ساتھ بدر پر مقدمہ چلا۔ بدر کو سزا موت سزا دی گئی۔اس پر طلبہ تحریک نے زور پکڑا ایک نعرہ پوری وادی می میں گوجنے لگا کہ :۔
بدر کا خون رائیگاں نہیں جائے گا
بدر کے خون سی ہی انقلاب آئے گا
اُدھر تقویٰ کی نظر بدر کی ڈائری پر پڑی۔لکھا تھا تقویٰ تم میری دنیا اور آخرت کی بہترین ساتھی ہو۔ میں تمھارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا!!!تقویٰ نے بدر کی یاد میں ایک نظم لکھی ۔ نظم پڑھ کر بدر کو یاد کر کے رو رہی تھی۔ نوجوان بیٹا تحسین شائین سامنے کھڑا تھا۔ امی میں آپ کا بیٹا تحسین ہوں۔امی فکر نہ کیا کریں۔ میں آپ کا نوجوان بیٹا ہوں!!!

کتنے مائیں، بینیں اوربیویاں اپنے اپنے بچے پیچھے چھوڑ گئے ۔ تحسین شاہین کے آنسو نکل گئے۔ مگر اپنے آنسو چھپا لیے۔ناول ’’وہ خواب ہی رہا‘‘ماں بیٹے کے اس غم بھری گفتگو پر ختم ہوتا ہے۔

 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 951236 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More