رہبری کا شوق

اب ملاحظہ فرمائیں کسی قصہ کو سنانے کا فرسودہ مگر ٹکسالی انداز جو آج بھی مقبول عام ہے یعنی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چوہے میاں دریا کنارے مٹر گشت پر نکلے۔ شام کا سہانا سماں تھا، دریا سےٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں نےجناب پرخوشگوار اثر مرتب کیا تھا۔ اسی مست خرامی کے عالم میں ان کی نظر جو سامنے کو اٹھی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اونٹ صاحب چلے جا رہے ہیں اور ان کی مہار ان کے پیچھے زمین پر گھسٹ رہی ہے۔ چوہے پہ کیفیت توپہلے سے طاری تھی مزید برآں اونٹ کی بے مہاری دیکھ کران کے سر میں قیادت کا سودا سمایا اور لپک کر انہوں نے مہار اپنے دانتوں تلے دبا لی۔ اب بزعم خود چوہے میاں اونٹ کی رہبری کا فریضہ سر انجام دینے کو تیار تھے۔ شاہانہ انداز میں انہوں نے اونٹ کے آگے مہار تھامے چلنا شروع کیا تو فخر و غرور سے گردن اکڑا لی۔ اونٹ یہ ماجرا دیکھ کر زیر لب مسکرایا اور کچھ سوچ کر اس نے چوہے کواپنے ارمان نکالنے کا موقع دے دیا۔ لیکن ابھی چوہے کی رہبری کا آ غاز ہی ہوا تھا کہ آزمائش کی گھڑی سر پر آ پہنچی۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ سامنے دریائے بے کنار ہے۔ اب مہار تھامے سرجھکاکر اسی فکر میں متردد تھے کہ آ گے کا سفر کیسے طے کیا جائے۔ اونٹ نےجو یہ ماجرا دیکھا تو اپنے رہبر سے باادب درخواست کی کہ قدم بڑھاؤ رہبروں ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن یہاں تو چوہے کے ہاتھوں کے طوطے آڑے ہوئے تھے۔ چوپے نے خجلت و شرمندگی سے سر جھکا کر جواب مرحمت فرمایا کہ آ گے دریا کا پانی ہماری رہبری کے سامنے سدسکندری بنا ہوا ہے۔اونٹ نے اسے اطمینان دلایا کہ پانی کچھ زیادہ نہیں اور خود آ گے بڑھ کر دریا کو پامال کرتے ہوئے بتلایا کہ پانی تو میرے گھٹنوں تک ہے، آپ بے خطر مہار تھامے رہبری کرتے ہوئے میرے آ گے پیش قدمی فرمائیں۔ چوپے نے روتی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ تمہارے گھٹنوں تک پانی میں تو میری سات نسلیں غرقاب ہو جائیں گی۔

کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے معاشرے کی ہو گئی ہے کہ دین مبین کے مسلمات میں ہرزہ سرائی کرنا ہر کس و ناکس نے اپنا فرض منصبی سمجھ لیا ہے۔ قرآن وحدیث کے سے ذرا مس نہیں مگر کسی بھی مسئلہ پر رائے زنی کرنا مقصود ہو تو پھر ان جہلاء کی تقریر کی طولانی ملاحظہ فرمائیں۔کسی کو پردے کا حکم نعوذ باللہ عورتوں کو قید میں ڈالنے کے مترادف لگتا ہے۔کسی کو داڑھی عرب کے رسم ورواج کا حصہ دکھائی دیتی ہے ۔ کوئی تجارتی سود کی حرمت کا منکر ہے تو کوئی عید الاضحی پر قربانی کو پیسے کا ضیاع گردانتا ہے ۔ حیرت ہے کہ اپنے محدود و مخدوش مطالعہ پر خود کو علامہ دہر سمجھنے والے اپنے جسمانی علاج کے سلسلے میں ڈاکٹروں کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں حالانکہ جدید و قدیم علم طب کی تمام کتابیں ان کے دسترس میں ہیں، ان کاخود مطالعہ کرکے اپنا یا اپنے عزیز و اقارب کا آپریشن یا دیگر علاج خود کیوں نہیں کرتے۔ مقدمات میں وکیلوں کے پیچھے پیچھے کیوں پھرتے ہیں۔ تعمیرات کے لیے انجینئروں کے محتاج کیوں ہوتے ہیں۔ ان تمام دنیاوی امور میں اپنے علم وفن کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔ صرف علماء کرام کے آ گے زانوئے ادب طے کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے جو حاملان علوم شریعت اور وارثین انبیاء ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو (سورہ نحل، آ یت 43) مگر جدید تعلیم یافتہ افراد دنیاوی علوم وفنون کے گھمنڈ میں قرآن وحدیث کے علوم و معارف کے شناورں سے کچھ دریافت کرنا شاید اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دین تختہ مشق بن رہ جاتا ہے۔ جہالت کا ہر طرف بازار گرم ہوتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ یہ بد مستیاں بس آنکھ بند ہونے تک ہے۔ اس کے بعد جو آنکھیں کھلیں گی تو کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ اسی چوہے کی طرح جو دریا کے سامنے اپنی رہبری کا خواب بھلا بیٹھا تھا۔
 

Muhammad Faisal
About the Author: Muhammad Faisal Read More Articles by Muhammad Faisal: 27 Articles with 21284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.