ہم سے ہمارا گھر نہ چھینیں! یہ بچے کون ہیں، ان بچوں کی یہ تصویر سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز کیوں

image
 
حالیہ دنوں میں یہ تصویر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں چار کم عمر بچے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہیں اور اس تصویر کا کیپشن ہے کہ ہم سے ہمارا گھر نہ چھینیں۔ ایسی کوئي بھی تصویر سینے میں دل رکھنے والے انسانوں کو متاثر کرنےکے لیے کافی ہوتی ہے اور سب کے دل میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ ان معصوم بچوں کو کون بے گھر کر رہا ہے
 
یہ تصویر درحقیقت کراچی کے نسلہ ٹاور کے رہائشی بچوں کی ہے نسلہ ٹاور کراچی کے سندھی مسلم سوسائٹی کا ایک رہائشی منصوبہ ہے جہاں پر پندرہ منزلہ عمارت اور فلیٹس بنائے گئے۔ شہر کے مرکز میں ہونے کے سبب ان فلیٹس کو بلڈرز سے مہنگے داموں خریدا اور اس خریداری میں اپنی عمر بھر کی پونجی بھی خرچ کردی-
 
چار سال قبل اس بلڈنگ کے رہنے والے افراد کی زندگی کو اس وقت جھٹکا لگا کہ نسلہ ٹاور کے حوالے سے ایک کیس داخل دفتر کیا گیا جس میں اس کی تعمیر کے حوالے سے دو شکایات درج کی گئيں جس میں سے ایک نسلہ ٹاور کو الاٹ شدہ زمین صرف 782 گز تھی جو کہ رہائشی زمین تھی- مگر اس زمین کو غیر قانونی طریقے سے نہ صرف کمرشل کروایا گیا بلکہ اضافی زمین پر قبضہ کر کے 1440 گز زمین پر اس کی تعمیر کی گئی جس کے نتیجے میں سروس روڈ بھی بند ہو گیا- جس سے عوام کو سخت ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑا-
 
image
 
جون 2021 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت پر فیصلہ دیتے ہوئے فوری طور پر نسلہ ٹاور کے انہدام کا حکم جاری کیا- اس حکمنامے میں سپریم کورٹ نے بلڈر کو پابند کیا کہ وہ عوام کو جن کے گھر نسلہ ٹاور میں ہیں ان کو ان کی رقم واپس کرنے کا پابند ہے-
 
مگر اس بات کو ہم سب جانتے ہیں کہ قطرہ قطرہ کر کے اپنی عمر بھر کی کمائی جس طرح یہاں کے رہائشیوں نے بلڈر کو دی تھی اس رقم کی واپسی آسان عمل نہیں ہے- اور صرف بلڈر سپریم کورٹ کے ایک حکم پر فوری طور پررقم واپس نہیں کر سکتا جس کا واحد اثر یہاں کے مکینوں پر پڑے گا جس کی وجہ سے وہ بے گھر ہو جائيں گے-
 
لہٰذا یہاں کے مکینوں نے سپریم کورٹ کے اس حکم کے خلاف نہ صرف عدالت میں اپیل دائر کی بلکہ سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر اس فیصلہ کے خلاف احتجاج بھی کر رہے ہیں- مگر اب ان کی اپیل بھی سپریم کورٹ نے مسترد کر دی ہے اور ایک مہینے کے اندر بلڈنگ کے انہدام کے اپنے فیصلے کو قائم رکھا ہے-
 
image
 
یہاں کے رہائشیوں کا یہ کہنا ہے کہ جب اتنے سالوں میں اتنی بڑی بلڈنگ کی تعمیر کے دوران کسی کو اس میں کوئی بے ضابطگی نظر نہیں آئی تو اب راتوں رات ایسا کیا ہو گیا اور اگر اس بلڈنگ کا انہدام کیا بھی جائے تو اس کے نعم البدل کے طور پر ان کو گھر فراہم کیا جائے جو کہ ان کا حق ہے-
 
یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا مگر جس طرح الہ دین پارک کا انہدام ہوا اس سے یہ اندیشہ ہے کہ سپریم کورٹ اپنے اس حکم پر بھی عمل درآمد کرائے گی۔ مگر اس عمل درامد سے قبل ان معصوم بچوں کی اپیل پر بھی نظر ثانی کی جائے تو وہ زیادہ بہتر ہوگا کیوں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے جو سر پر چھت دیتی ہے سر سے چھت کھینچتی نہیں ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: