دشمن کی آبدوزوں کی بار بار پاکستانی پانیوں میں گھسنے کی کوشش، 5 سال بار میں تین بار یہ کوشش پاک بحریہ نے کیسے ناکام بنائی؟

image
 
 آبدوز ایک پیچیدہ مشین ہے، دوستوں یہ صرف جنگ کرنے کا ہتھیار نہیں، یہ ایک جاسوسی کا اعلیٰ کار بھی ہے- یہ اُسی طرح بنا پیغام دیے، پیغام وصول کرتی ہیں، باہر موجود ریڈیو سگنلز پکڑتی ہیں، لیکن ایک آبدوز کو سمندر میں ڈھونڈنا، کوئی آسان کام نہیں- یہ اتنا ہی مشکل ہے جیسے پانی میں سوئی ڈھونڈنا ہو-
 
خیر پاکستان نیوی کی جس طرح سب میرین فورس پروفیشنل ہے، اس کا ہوائی بازو یعنی نیول ایوی ایشن بھی اتنا ہی پروفیشنل ونگ ہے- اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ سالوں میں دشمن کی صفوں میں کچھ بے چینی محسوس کی جاسکتی اس کی وجہ ہے اور وجہ سی پیک ہے، ان جب سی پیک بن رہا ہے تو پاک بحریہ کو مضبوط کرنے کا عمل بھی جاری ہے ۔
 
دشمن کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگائیں نومبر 2016، مارچ2019 اور اب سال خبر آئی کہ 16 اکتوبر کے روز پاکستان نیوی کے لانگ رینج سروائلنس (دیکھ بھال پر مامور) ایئر کرافٹ نے دشمن کی ایک اور آبدوز کو کمال مہارت سے تلاش کر لیا اور اس کو روک کر واپس جانے پر مجبور کردیا۔ دوستوں کو بتاتا چلوں یہ لانگ رینج میریٹائم پیٹرول ایئر کرافٹ کون سا ہے ، اور اس نے یہ عمل کیسے اور کب کس تاریخ کو کیا؟
 
پاکستان نے نوے کی دہائی میں پہلی بار امریکا سے پی تھری اورین طیارے حاصل کیے تھے، ان کی تفصیل پہلے بھی ہماری ویب کے قارئین کو دی جا چکی ہے- اب یہ کیسے یہ عمل کامیابی سے انجام دیتا ہے، اس جانب آتے ہیں، پی تھری اورین کے پچھلے حصے کے نیچے کی جانب بہت سارے سوراخ ہوتے ہیں ، جہاں ایک انسٹرومنٹ سنو بوئے کافی تعداد میں نصب کیے جاتے ہیں، جن کو دوران پرواز، مختلف اوقات میں جہاز سے پھینکا جاتا ہے ، جس کی بدولت گہرائی میں چھپی آبدوز کو بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
 
image
 
نومبر 2016
18 نومبر 2016 میں پہلی بار یہ خبر سامنے آئی کہ پاک بحریہ کے طیارے نے انڈین نیوی کی آبدوز کو بحیرہ عرب میں تلاش کر لیا، بحوالہ ڈان نیوز (19 نومبر 2016 ) پاک بحریہ کے سابق اینٹی سب میرین وار فیئر ایکسپرٹ( یعنی آبدوزوں کے خلاف کارروائی کے لئے ماہر) کموڈور ریٹائرڈ ظفر اقبال نے اس حوالے سے کہا کہ ہو سکتا ہے، یہ آبدوز دشمن کے جاسوس، اور دہشت گردوں کو سپلائی کے لئے بھی استعمال ہو رہی ہو۔
 
خیال ظاہر کیا جاتا ہے یہ روسی ساختہ کلو کلاس آبدوز تھی جس کو بھارت میں سندھو گھوش کلاس کہا جاتا( کلاس میں ترمیم ویسے ہی ہوتی ہے جیسے ہر سال گاڑیوں کے نئے ماڈل میں بڑی تبدیلیوں کے بعد نام تبدیل کر دیا جاتا ہے)، اس آبدوز کی انتہائی رفتاری 18 ناٹس بتائی جاتی ہے۔
image
 
مارچ 2019
 آئی این ایس کلویری کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ 4 مارچ2019 یہ وہ دوسری آبدوز ہے جو پاکستانی سمندری حدود میں سمندری مٹر گشت کرتے ہوئے پائی گئی تھی- یہ ایک فرانسیسی ساختہ اسکارپین آبدوز تھی جو اسی کمپنی ڈی سی این نے بنائی تھی جس کمپنی کی بنائی ہوئی آبدوز آگسٹا پاکستان نیوی میں زیر استعمال ہے۔ اس کی انتہائی رفتار 20 ناٹس بتائی جاتی ہے ، یہ گوادر سے 86 ناٹیکل میل دور ہمارے لانگ رینج اورین طیاروں نے تلاش کی- ڈان نیوز کی خبر کے مطابق اس فاصلے سے یہ آبدوز گوادر، پسنی، اورماڑہ پر میزائل حملہ کر سکتی تھی،بارودی سرنگیں بچھانا، اور جاسوسی دیگر عوامل کا بھی واضح امکان ہے۔
image
 
 اکتوبر 2021
 19 اکتوبر 2021 کی شام چھ بجے پاکستانی ٹی وی چینلز پر ایک بار پھر بھارت کی سمندری در اندازی کی خبر سامنے آئی، آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ اس بار بھی دعویٰ نہیں بلکہ ٹھیک ویسی ہی فوٹییج جو اقوام عالم کو بتانے کے لئے کافی ہے- یہ خلاف ورزی 16 اکتوبر 2021 کو ریکارڈ کی گئی، آبدوز پیرا اسکوپ ڈیپت پر ویسے ہی واضح دیکھی جاسکتی ہے، جیسے اس پہلے نظر آئی، یہ کون سی آبدوز تھی، اس حوالے سے ابھی کوئی دعوے سے نہیں کہا جاسکتا ۔
image
 
خیر یہ تین واقعات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں ایک تو دشمن پاکستان اور چین کی دوستی سے درحقیقت گھبرایا ہوا ہے، دوسرا، ہماری طرف سے مناسب تیاری کی وجہ سے ہر بار اس کے عزائم خاک میں مل جاتے ہیں۔ لیکن لڑائی لڑنے کے لیے کسی بھی فوج میں نظم و ضبط بھی درکار ہوتا ہے، اور بھارتی سب میرین فورس کی نظم و ضبط کی ایک اور مثال بے مثال پیش خدمت ہے ۔
 
14 اگست 2013ء کے دن بھارتی آبدوز ممبئی کے ڈاکیارڈ میں عملے کے 13 ارکان کے ساتھ ڈوب گئی ،لیکن بھارتی بہت ہی نکمے واقع ہوئے ہیں، کچھ عرصے پہلے ان کی ایک 2 اشاریہ 9 ملین ڈالر کی آبدوز محض اس لئے غرقاب ہو گئی کہ اس کے عملے میں کسی نے ہیچ( ہیچ ایسے دروازے کو کہتے جو آبدوز میں اوپر سے اندر داخل ہونے کے لئے کھولا جاتا ہے ) کھلا چھوڑ دیا، جب کے آبدوز کو زیر آب جانا تھا ۔
YOU MAY ALSO LIKE: