تعلیم، معلم، متعلم اور پاکستان

مملکتَ پاکستان میں کا جانی والی تعلیمی اصلاحات تبھی مفید ثابت ہو سکتی ہیں جب نظامَ تعلیم کے تینوں اہم عناصر، تعلیم، معلم اور متعلم جدید تحقیقات سے آشنا ہونے کا زوق و شوق رکھتے ہوں۔

مس کیا آپ جانتی ہیں ناسا نے سیارہ مریخ کی نئی تصاویر اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دی ہیں اور مریخ کی زمین اس میں بہت آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔فزکس کی کلاس میں کشور نے یہ خبر کلاس کو سنائی تھی۔ اور غیر متوقع طور پر اس کو اس کی معلم صاحبہ سے ڈانٹ پڑی کہ وہ ایسی بے تکی اور غلط معلومات کلاس میں زیرِ بحث لا رہی ہے۔ کشور جب اپنی خبر پر ڈٹی رہی تو استانی صاحبہ نے مریخ سے متعلق معلومات خود گوگل پر سرچ کرنے کی ٹھانی اور یہ معاملہ رفع دفع ہوا ۔ یہ پاکستان کے گنجان آباد علاقے کے اک ایسے کالج کی سچی کہانی ہے جو اپنے علاقے میں بورڈ میں 100 ٖفیصد کارکردگی دکھانے پر مشہور ہے۔ ریاستِ پاکستان میں نظامِ تعلیم کو ہمیشہ ہی پسِ پشت رکھنا ہمارے سیاستدانوں کو مناسب اور اپنے حق میں مناسب لگا موجودہ حکومت نے تعلیمی اصلاحات لا کر اس نظام کو جلا نخشنے کی کوشش تو کی ہے مگر نجانے کیوں مجھے وہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ایسا نہیں کہ پاکستان میں تعلیم تک رسائی نہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا اور سمجھتا ہے تو غلط ہےسکول نہ جانے والے بچوں کے اعداد و شمار تو مل جاتے ہیں۔ پھر ہم ان اعداد و شمار کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس سب کا اک پہلو اور بھی ہے،موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیت تک کتنے بچوں اور لوگوں کی رسائی ہے؟ اور وہ اس ٹیکنالوجی کا کس طرح اور کس مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں؟ پاکستان میں سرچ کی جانے والی فہرست میں تعلیمی مواد یا تعلیمی ویب سائٹ کتنی شامل ہیں اور کس اس فہرست میں کس نمبر پہ ہیں؟ یہ دونوں سوال بتائیں کہ تعلیم مہنگی ہے یا شوق ہی ختم ہے تعلیم کے لئے؟ تعلیم مہنگی نہیں ہے ۔۔ بالکل بھی نہیں ڈگری مہنگی ہے۔ اور ہمارے معاشرے نے تعلیم اور ڈگری کے فرق کو مٹا کر اگلی نسل کے لئے دشواری پیدا کر دی ہے۔ ملکِ پاکستان میں پرورش پاتے نظامِ تعلیم نے ہی یہ سکھایا کہ علم ڈگری ہے۔ اور یہاں ہم نے پستی میں جاتے معاشرے کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیا۔ ہمارے ہاں ےتعلیم دہائیوں پرانا ترتیب دیا گیا نصاب ہے اس نصاب کو جدید تحقیق سے مزین کرنا دور کی بات ہے ہمارے معلم تحقیق کی اس جہت سے آشنا نہیں ہیں۔یہ بھی خوب ہوا کہ تعلیمی نظام کے جمود کو توڑتے ہوئے تعلیمی اصلاحات تشکیل دیں۔یقینا ،خوش آئندقدم تھا مگر میر اسوال یہ ہے کہ محکمہ تعلیم اصلاحات تشکیل دیتے ہوئے اس بات کو مدِ نظر کیوں نہیں رکھتا کہ اس سب پلان کا عملدرآمد کن لوگوِں کے ہاتھ میں ہوگا؟ بورڈز میں سوفیصد کارکردگی دکھانے والے اداروں کا حال میں نے مختصرا لکھ دیا اور بدقسمتی سے یہاں نجی کالجز کو گورنمنٹ کالجز سے بہتر سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہے بھی۔ اب ان نجی کالجز میں تعلیم دینے والے معلم حضرات و خواتین کی مجموعی ذہنیت یہ ہی ہے جو میں درج بالا سطروں میں لکھ چکی ہوں ، (البتہ اختلاف آپکا جمہوری حق ہے آپ کسی ایسے معلم سے واقف ہوں تو میں ضرور ان سے ملنا چاہوں گی جو تعلیم کو مقدس امانت سمجھ کر معلم بننے کی ٹھانتے ہیں اور پھر اس کو فریضہ سمجھ کر نبھاتے ہیں) اس طرح کے اساتذہ کے ساتھ آپ تعلیمی میدان میں انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں؟ تو یہ مذاق سے کم نہیں ہوگا۔ جس معاشرے میں ریٹائرڈ گورنمنٹ استاد، ٹیوشن سنٹر بنا کر بورڈز کے گزشتہ پرچوں کو رٹے لگوا کر سو فیصد رزلٹ سے اپنے شاگردوں کو کامیاب کرواتے ہیں۔ جس معاشرے میں پریکٹیکل پیپر کے نمبر ''چائے پانی'' کی بناء پر دیئے جاتے ہوں وہاں آپ ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینے کی بات کر رہے ہیں جس میں طلبہ تخلیقی طور پر کسی بھی موضوع پر اپنی رائے رکھتے ہوں اور ان کو اس رائے کے میعار کی بناء پر نمبر دیئے جائیں گے۔ کہنے کو تو یہ اک شاندار قدم ہے اور معاشرے تعلیمی میدان میں یوں ہی ترقی کیا کرتے ہیں جب وہ کسی بھی موضوع کو سمجھ کر اس پر سوچ کر اپنی رائے قائم کر سکیں اور اس رائے کو مہذب اور مؤثر طریقے سے دوسروں تک پہنچا سکیں۔ مگر میری پریشانی یہ ہے کہ ایسے تخلیقی موضوعات طلبہ کو سمجھائے گا کون؟ طلبہ کی پرچہ میں لکھی گئی تخلیقی رائے کو چیک کون کرے گا اور اس کو کس میعار کے مطاق نمبر دے گا؟ کیونکہ یہاں تو پیپر چیک کرنے کے لئے کتابیں کھول کر سامنے رکھی جاتیں تو ہوبہو لکھنے والا ذہین ترین متعلم قرار پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر اصلاح سے پہلے غلطی کا تعین کیا جائے، اس غلطی کو سامنے رکھ کر اصلاحات کی بات کی جائے۔ کرنے والوں کو بتایا جائے جو کرتے آرہے ہیں اس میں کیا غلط ہے، اس کی بہتری کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اسے بہتر کرنا کیسے ہے، یہ گفتگو، سیشنز ایک ماحول بناتے ہیں اور اس ماحول میں بہتری کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ بہتری کا تحرک یا موٹیویشن نوٹیفیکشنز،پالیسیز اور احکامات سے تو جنم نہیں لیتی۔ ہمیں آج کے معلم کو سکھانا ہوگا کہ سیکھنا کتنا ضروری ہے اور جدید علم اور تحقیق سے خود کو لیس رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ، ہمیں ایک متعلم کو سکھانا ہوگا کہ علم اور ڈگری میں فرق ہے اور علم آپ کے ہاتھ میں ہے جب چاہیں، جہاں چاہیں آپ حاصل کر سکتے بشرطیکہ آپ حاصل کرنا چاہیں اور تعلیم ۔۔۔ جو تعلیم انسان میں اصلاح کا مادہ اور بہتری کا تحرک پیدا نہیں کر سکتی وہ تعلیم نہیں بوجھ ہے، لفظوں اور اعداد و شمار کا بوجھ۔تعلیم کو لفظوں اور اعداد و شمار کے بوجھ سے آزاد کر کے جدید تحقیق سے اراستی کرنا ہوگا ، معلم کو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئےذوقِ زمہ داری پیدا کرنا ہوگا اور متعلم کو شوقِ علم پیدا کرنا ہوگا ۔ تب کہیں جا کر ہم اپنے معاشرے کو آنے والی نسلوں کے لئے تعلیم کے صحیح معنی و مقہوم سے آشنا معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔

 a

Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 20965 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More