مستقبل کا سائنسدان کلرک!

البرٹ آئین سٹائین کے نام سے کون نہیں واقف۔بیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں جس نے اپنے نظریات سے ساری دُنیا کو حیران و ششدر کر دیا ان کا نام البرٹ آئین سٹائین تھا۔جس نے سائنس کی اس عمارت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں جو عمارت نیوٹن کے قوانین حرکت اور کشش ثقل پر استوار تھی۔ اپنے نظریہ اضافت سے ہمیں اپنے ارد گرد پھیلی کائنات کو نئے انداز سے دیکھنے اور سمجھنے کی دعوت دی۔ اُنہوں نے ہمیں وقت ’توانائی اور روشنی کے راز ہائے سربستہ سے متعارف کروایا۔ اسے لیے انہیں نوبل کمیٹی نے 1922 کے فزکس کا نوبل انعام سے نوازا۔

سید شہابُ الدین دِسنوی نے اپنی کتاب ”آئین سٹائین کی کہانی“میں لکھا ہے کہ”کتنا کند ذہن لڑکا ہے!جواب کیوں نہیں دَیتا ہے؟-نالائق!“ٹیچر نے گرجتے ہوئے ایک چھوٹے سے لڑکے کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ جس کی عمر چھ سال تھی۔ لیکن وہ لڑکا اپنے ٹیچر کے بھاری بھر کم ڈیل ڈول اور گھن گرج سے بے پروا اس طرح بیٹھا رہا جیسے اس سے نہیں کسی اور سے یہ باتیں کہی جارہی ہوں۔ لڑکے کا قصور یہ نہیں تھا کہ وہ جواب دے نہیں سکتا تھا۔ وہ جواب جلد دَینا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ہر بات پہلے اچھی طرح سوچتا‘پھر کوشش ہوتی کہ جو جواب دے وہ معقول اور صحیح ہو بس اس میں دیر لگتی تھی۔ ایک دِن جب اس کے گھر چچامیاں آئے ہوئے تھے‘تو اس ٹیچر کا ذکر آگیا۔ ماں ماممتا کے جوش میں آکر اپنے بیٹے کی غیر معمولی سنجیدگی اور خاموش طبیعت کی طرفداری کرتی ہوئی کہنے لگی:”اس ٹیچر نے کا سمجھ رکھا ہے‘میرے بیٹے کو!میاں دیکھ لینا‘میرا بیٹا ایک دِن پروفیسر بنے گا۔ پروفیسر!“چچا میاں نے بڑے زور دار قہقہ لگایا: ”البرٹ آئین سٹائین اور پروفیسر! ہاہا‘ہاہا قہ قہ قہ۔پھر ایک دِن وہ آیا جب وہ لڑکا یعنی البرٹ آئین سٹائین سچ مچ پروفیسر بن گیا-اور پروفیسربھی کیسا!دُنیا کا سب سے نامور پروفیسر!

آئین سٹائین کو جہاں ریاضی اور طبعیات سے عشق تھا‘ وہیں اسکول کے امتحانوں سے نفرت تھی۔ اس رویے کی وجہ سے طالب علمی کے زمانے میں اسے طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جوں توں کر کے یہ زمانہ گزر گیا۔ ملازمت کا مرحلہ آیا‘تو اس کی خاطر کئی امتحان دینے پڑے۔ آخر میں اسے پیٹنٹ آفس میں معقول تنخواہ پر کلرک کی جگہ مل گئی۔پیٹنٹ آفس میں لوگ اپنی ایجادوں یا صنعتی طریقوں کو رجسٹر کراتے تھے۔ آئین سٹائین کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ لوگوں کے داخل کئے ہوئے بیشمارنقشوں اور تصویروں کی اچھی طرح جانچ کر کے فیصلہ کرے کہ وہ پہلے سے رجسٹر کئے ہوئے کسی ڈائزین یا ایجاد کی نقل تو نہیں۔ اس ملازمت کے لیے انٹرویو میں جب آئین سٹائین سے پوچھا گیا: ”کیاآپ یہ کام کر سکیں گے؟ توحسبِ عادت اس نے جواب دینے میں اتنی دیر لگائی کہ قریب تھا کہ درخواست ہی رَد کر دِی جاتی اور کسی دوسرے کو بلا لیا جاتا۔ لیکن جب آئین سٹائین نے سر ہلا کر کہا: ”جی ہاں‘میرا خیال ہے کہ میں یہ کام کر سکوں گا“ تو اس وقت اس کے چہرے سے خود اعتمادی اور اطمینان کے آثار جھلک رہے تھے۔

دُنیا بھر کے سائنسدان سوچ میں پڑ گئے ان ہی میں ایک چھبیس سالہ کلرک سوئزر لینڈ کے شہر بَرن کے سٹپنیٹ آفس میں معمولی درجے کا چھبیس سالہ کلرک جس کا نام البرٹ آئین سٹائن تھا۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے آئین سٹائین نے ایک مختصر مقالہ شائع کرایا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایتھر کا وجود تسلیم کر لینا ہی غلط تھا۔اور یہ بھی صحیح نہیں کہ فضائے بسیط ایک ساکن نظام کا نام ہے۔ اس وقت تک یہ بات قابلِ تردید مانی جاتی تھی کہ روشنی کی رفتار پر زمین کی رفتارکا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ آئین سٹائین نے اپنی ان باتوں کا اطلاق ساری کائنات پر کیا۔ اس نے کہا کہ اگر زمین کی رفتار کے باوجود روشنی کی رفتار مستقل اور یکساں رہتی ہے تو پھر سورج‘چاند‘ستارے اور فضاے بسیط کے دوسرے متحرک اجرام ِ سماوی کے لحاظ سے بھی روشنی کی رفتارمیں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ اس سے ایک عام کلیہ یہ بنا کہ قدرت کے کارخانے میں جتنے بھی متحرک نظام ہیں‘وہ سب کے سب ایک ہی طرح کے قوانین کے ماتحت ہیں۔ یہی سیدھی سادی مختصر سی بات آئین سٹائین کے اُس عظیم نظریے کا لب ِ لباب ہے‘جو اس کے خصوصی ”نظریہ اضافیت“کی شکل میں دُنیا کے سامنے پیش ہوا۔ اس نظریے میں گلیلیوکا وہ نظریہ بھی شامل ہے‘جس میں کہا گیا ہے کہ کائنات میں ایک ہی سمت میں سارے متحرک نظام پر ایک ہی طرح کے میکانکی قوانین کا عمل ہوتا ہے۔ گلیلو نے صرف میکانکی قوانین کے اطلاق کی بات کی تھی۔آئین سٹائین نے یہ دکھایا کہ روشنی اور دوسرے برقناطیسی مظہروں پر بھی یکساں قوانین عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اپنے اس نظریے کو آئین سٹائن نے اِن الفاظ میں پیش کیا: ”قدرت کے سارے مظہر اور قوانین ہر اس نظام کے لیے یکساں ہوتے ہیں‘جو ایک دوسرے کی نسبت غیر متبدل یکساں طور پر حرکت میں ہوتے ہیں“۔

بظاہر آئین سٹائین کے اس اعلان میں کوئی تہلکہ خیز یا انقلابی بات نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ اس سے یہی ظاہر ہوا کہ سائنسداں اس بات کے قائل ہوتے جا رہے تھے کہ کائنات ِ بسیط میں قدرت کے جو قوانین نافذ ہیں‘ان میں مکمل ہم آہنگی اور ربط پایا جاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ساری کائنات ایک اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے۔ چاند‘کہکشاں‘سحابے اور دوسرے تجاذبی نظام مسلسل حرکت میں ہیں۔ لیکن حرکت صرف ایک دوسرے کی نسبت سے ہے۔ کیونکہ فضائے بسیط میں نہ حدود ہیں‘نہ سمت۔ اس صورت میں تکوینی نظام کی ”اصلی“رفتار معلوم کرنے کی خاطر روشنی کی رفتار کو معیار قرار دینا بے معنی ہو گا چونکہ کائنات میں روشنی کی رفتار یکساں ہے۔ اس لیے اس کا کوئی اثر نہیں پڑیگا کہ جہاں سے روشنی نکل رہی ہے‘جہاں پڑ رہی ہے وہ خود بھی حرکت میں ہے یا نہیں! اس طرح آئین سٹائین نے یہ ثابت کیا کہ فضائے بسیط کا کوئی مطلق معیار پیمانے کے طور پر معلوم نہیں کیا جا سکتا۔

یہ وہ نالائق! لڑکا تھا جو دُنیا کا نامور پروفیسر بنا‘جسے علامہ اقبالؒ نے بھی زبردست انداز میں خراج ِ تحسین پیش کیا۔ من چہ گویَم از مقامِ آں حکیمِ نکتہ سنج کردہ زردشتے ز نسلِ مُوسیٰ و ہاروں ظہُور‘ اس رمز آشنا حکیم کی کیا تعریف بیان کروں‘بس یہ کہ وہ ایک ایسا زردشت ہے جس نے موسیٰ اور ہارون کی نسل میں ظہور کیا ہے۔ آئن سٹائین کو علامہ کا یہ ایک زبردست خراجِ تحسین ہے۔

انسان کے اندر کامیابی کی صلاحیت ہوتی ہے‘ ہمیں معاشرہ ناکام بناتا ہے‘ ہم خود مایوسی کی دلدل میں پھنس کر زندگی کی مشکلات میں گر جاتے ہیں۔ ہمیں کتابیں پڑھنی چاہیے‘ ایسے افراد جنہیں دُنیا نالائق کے نام سے جانتی ہے ان کے اندر قدرت نے کیا کمالات رکھے ہیں‘ ان کی مثالیں ہماری زندگی بدل سکتی ہیں۔
 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 185 Articles with 141675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.