معاشرہ کی تشکیل میں ادب کا کردار

معاشرہ کی تشکیل میں ادب کا کردار
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
(حلقہ احباب ذوق /شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی کے زیر اہتمام 31جولائی بروز اتوار ایک مجلس
مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔ جس کا موضوع تھا ”معاشرہ کی تشکیل میں ادب کا کردار“۔
راقم نے بطور صدر اپنے خیالات کا اظہارکیا)
صدارتی کلمات !
منتظمین حلقہ احباب ذوق /شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی
فاروقی برادران
السلام علیکم !
آپ نے ادب معاشرہ میں ادب کی ترویج کو بلند مقام دینے کے لیے آج یہ مجلس مذاکرہ منعقد کیا۔مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی ممنون و مشکور ہوں۔
سامعین محترم!
آج کی گفتگو میں ”معاشرہ“ اورا ”ادب“ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ معاشرہ پہلے وجود میں آتا ہے پھر ادب معاشرہ میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ تو پہلے دیکھتے ہیں کہ معاشرہ کی کیا تعریف بیان کی گئی اور پھر ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے معاشرے میں ادب کے کردار کو کیسے بیان کیا۔
معاشرہ :
معاشرہ افراد کے ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جس کی بنیاد ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں اور معاشرہکی تعریف کے مطابق یہ لازمی نہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو۔
ادب :
ادب کی ایسی تعریف جس پر سب کو اتفاق ہو، ایک مشکل ہے۔ ماہرین ادب علم کو جو کتاب یا دیگر ذریعہ سے لوگوں تک پہنچے ادب قرار دیتے ہیں اور واقعی ایسا ہی ہے۔ ادب ہمارے کتب خانوں میں کتب کی صورت میں محفوظ ہیں۔ادب کی ایک تعریف یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ”ادب میں الفاظ کی ترتیب، افکار اور احساسات کا اظہار اس طرح کیا جاتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والے میں مسرت کا احساس پیدا ہو“۔
جو احباب اس محفل میں یہاں موجود ہیں میری رائے میں یہ معاشرہ ہے اور جن احباب نے ابھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا وہ سب ادب تھا۔ بہت کچھ اچھا اور مثبت لے کر ہم یہاں سے رخصت ہوں گے۔ یہی ادب کاوہ کردار ہے جس سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ کہ حضرت انسان فطری جبلی طور پر فنون کی جانب غیر ارادی طور پر راغب ہوتا ہے، ابھی کوئی ہلکی پھلکی دھن بجنے لگے یا کوئی اچھی غزل گنگنانے لگے تو اس کے اثرات یہاں موجود احباب کے چہروں عیاں ہونا شروع ہوجائیں گے۔ زیادہ کچھ ہوجائے تو بعض لوگ جھومنے لگ جائیں گے۔ فنون میں شاعری اور ادب خاص شعبے ہیں جن سے انسان شغف رکھتا ہے۔کسی نے درست لکھا کہ دراصل ادب انسانی تہذیب کا زیور ہے۔ دنیا کی تاریخ میں معاشرہ میں سدھار لانے میں، معاشرہ کی بہترین تشکیل میں ہمیشہ شاعروں، ادیبوں اہل علم اور اساتذہ نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔
دنیا میں ایسے متعدد ممالک ہیں جنہیں وہاں کے ادیبوں، شاعروں اور اہل علم حضرات نے اپنے اپنے ملک کے معاشرے کو تباہ و بربادہونے سے بچایا۔ انہوں نے اپنے خیالات،نظریات، تعلیم اور ادب کے توسط سے معاشرہ کو ترقی کی راہ پر لگایا۔ ان ممالک میں امریکہ، روس، افریقی ممالک کے نام لیے جاتے ہیں۔ جن مغربی ممالک کے ادیبوں نے یہ عظیم کام سرانجام دیا ان میں خاص طور پر روسو، ملازمے، ژان پال سارتر، میکسم گورکھی، چیخوف، جوزف کانریڈاور دیگر شامل ہیں۔ اردو کے ایک ادیب ذاہد حسین نے اپنے مضمون ”ادب کا معاشرے کی تہذیب اور ترقی میں کردار“ میں اب ادیبوں کے بارے میں لکھا ”اب اہل علم کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات کھل کر سانے آتی ہے کہ ادب نہ صرف زندگی میں سے نئے امکانات کی دریافت اور ترویج و اشاعت کا نام ہے بلکہ انسان کے زندگی کے مسائل اور معاملات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے درکار حوصلے کانام بھی ہے“۔
ادب سکھاتا کون ہے؟ بچہ ماں کے پیٹ سے ادب سیکھ کرتا نہیں آتا۔بلکہ یہی معاشرہ انسان کو اچھائی اور برائی کی جانب معائل کرتا ہے۔ بے شک ماں کی گود ادب کی اولین سیڑھی ہوتی ہے، بڑا ہوتا ہے کس کے سپرد کردیا جاتا ہے، استاد کے، استاد ہی وہ واحد مرکز و منبع ہوتا ہے جو ادب کی راہ دکھاتا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ کو معلم بنا کر بھیجا، جس سے ایک استاد کی عظمت اور مرتبہ عیاں ہوجاتا ہے۔ معاشرے کا اہم فرد استا د ہی تو ہوتا ہے جو ادب سکھاتا ہے۔ استاد اور ادیب کے توسط سے ادب قرطاس
پر منقل ہوتا ہے، مضمون، کتاب کی صورت اختیار کرتا ہے، تحریر و تقریر دونوں ذرائع استعمال ہوتے ہیں ادب کی تشکیل اور فروغ کے لیے، اس عمل میں استاد اور ادیب کا کردار کلیدی ہوتاہے۔ استاد کا رتبہ اور مرتبہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے ایک عمل سے بھی صاف عیاں ہوتا ہے۔برسبیل تذکرہ یہاں بیان کررہا ہوں، یقینا آپ میں سے بہت سو کے علم میں ہوگا۔
شاعر مشرق علامہ اقبال جب’شمس العلما‘کا لقب دیا جانے لگا تو علامہ نے یہ لقب لینے سے انکار کردیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے تو انہوں نے فرمایا کہ”مجھ سے پہلے میرے استاد ’میر حسن‘ کو بھی ’شمس العلما‘ کا لقب دیا جائے اور وہ مجھ سے پہلے اس کے حق دارہیں۔ اس ضمن میں واضع کیا گیا کہ میرحسن نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہو۔اس پر علامہ اقبال نے کہا تو پھر مجھے شمس العلما کا خطاب کیوں دیا جارہا ہے۔ جس پر جواب دیا گیا کہ آپ اپنی شاعری کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جس پر آپ حق دار ہیں کہ آپ کی تعلیمات کا اعتراف کیا جائے آپ نے جو تصنیف کیا ہے وہ انوکھا ہے۔ میر حسن کی کوئی بھی تصنیف نہیں ہے۔ جس پر ان کو اس لقب سے نواا جائے تو اس پر علامہ اقبال نے کہا مولوی میر حسن کی سب بڑی تصنیف میں خود ہوں، میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کی تعلیمات کی وجہ سے ہوں۔ اس وجہ سے ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں شمس العلما ء کا لقب دیا جائے آخر کار ڈاکٹر علامہ اقبال کے اصرار پر ان کے استاد کو اس لقب سے نوازدیاگیا۔ استاد کی عزت و مرتبہ اور تعظیم کے حوالے سے متعدد واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔
استاد سب سے بڑا ادیب ہوتا ہے۔ دیگر ادیب، دانشور اور شاعروں میں ادراک کی صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اس کی سوچ اور وسعت بہت گہری ہوتی ہے کہ اس کا تخلیق کردہ ادب انفرادی و ذاتی ہونے کے باوجود آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا دیب ہوگا اس کے قلم سے تخلیق پانے والا ادب اتنا ہی آفاقی ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ادب ہی وہ ذریعہ ہے جو معاشرہ میں پائی جانے والی خرابیوں کودور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور معاشرے کو اچھائی کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔آخر میں ایک بار پھر منتظمین حلقہ احباب ذوق /شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی، خاص طور پر فاروقی برادران کا مشکور ہوں کہ وہ مجھے ادبی تقریبات میں مدعو ں کرتے ہیں۔ (31جولائی2022ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273773 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More