شدید بارش یا سیلابی ریلے میں آپ کی گاڑی پھنس جائے تو کیا کریں؟ حالیہ واقعہ بدترین مثال

image
 
پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ملک کے کئی علاقوں میں ہنگامی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ایک جانب سیلابی ریلوں سے درجنوں دیہات زیر آب اور سینکڑوں مکانات پانی میں بہہ گئے ہیں تو دوسری جانب ملک کے مختلف علاقوں میں سڑک پر متعدد حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔
 
اس کی حالیہ مثال وہ واقعہ ہے جس میں کراچی سے حیدر آباد جانے والی مسافر کار ایم نائن لنک روڈ پر آبی ریلے میں بہنے سے میاں بیوی اور 4 بچوں سمیت 7 افراد لاپتہ ہو گئے۔
 
ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ گاڑی کو تباہ حالت میں نکال لیا گیا ہے تاہم لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے آپریشن جاری ہے۔
 
یہ پہلا واقعہ نہیں جس میں کسی مسافر گاڑی کے سیلابی ریلے میں پھسنے کے بعد بہہ جانے سے جانی نقصان ہوا ہو۔ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں بھی ایک ٹریکٹر ٹرالی سیلابی ریلے کی زد میں آ کر ڈوب جانے سے کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے تھا۔
 
ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں سیلابی پانی میں پھنسی گاڑیوں کو بچانے کے لیے کسی اور نے اپنی گاڑی کو پانی میں اتار دیا۔
 
لیکن بعض اوقات مدد کے لیے آنے والے ڈرائیور خود بھی مشکل میں پھنس جاتے ہیں اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
 
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہیں؟ حکومت کے جانب سے حفاظتی اقدامات کے کمی یا عوام کی غفلت؟
 
ہنگامی و سیلابی صورتحال میں حکومت کیا اقدامات کرتی ہے؟
 
image
 
طوفان، سیلاب یا برف باری کی صورت میں ملک کی شاہراہوں پر سفر کرنے والے مسافروں کے لیے کیے گئے اقدامات پر بات کرتے ہوئے این ڈی ایم اے کے ترجمان ادریس محسود کا کہنا تھا کہ 'کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات میں این ڈی ایم اے ایک جامع ایڈوائزری جاری کرتا ہے جس میں واضح طور پر عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے، کسی ممکنہ آفت زدہ علاقے سے نقل مکانی اختیار کرنے، مقامی افراد کا غیر ضروری سفر سے اجتناب کرنا وغیرہ شامل ہے۔
 
یہ ایڈوائزری تمام متعلقہ وفاقی اداروں اور ضلعی و مقامی انتظامیہ کو بھیجی جاتی ہے۔
 
ادریس محسود کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے فوری طور پر آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے جیسا کہ آج کل موبائل فونز پر کال ملانے کے دوران آگاہی پیغامات دیے جا رہے ہیں۔
 
مگر بعض اوقات عوام کی غفلت یا جلد بازی انھیں ایسے حادثات کا شکار بناتی ہیں۔
 
اس بارے میں موٹرویز اینڈ نیشنل ہائی وے پولیس (این ایچ ایم پی) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ترجمان اسد شبیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قدرتی آفات کے دوران سفر محفوظ بنانے کے لیے ریسکیو، محکمہ موسمیات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے نگران ادارے کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جاتا ہے اور ٹی وی، ریڈیو پر تشہیر کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور ہیلپ لائن سروس کے ذریعے مسافروں کو حالات سے باخبر رکھتے ہیں۔‘
 
مثال کے طور پر موسم سرما میں دھند سے متعلق شاہراؤں کی بندش کا نہ صرف خبروں میں بتایا جاتا ہے بلکہ اس بارے میں تشہیری مہم بھی چلائی جاتی ہے۔
 
ان کا کہنا تھا متعلقہ اداروں سے کسی بھی قسم کی ایڈوائزری آنے کے بعد فوری طور پر ریسکیو اور دیگر اداروں سے رابطے قائم کر کے ایک ہنگامی پلان مرتب کیا جاتا ہے۔
 
اسد شبیر کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی ایک روٹ کے مخصوص حصے پر بھی اگر کوئی مسئلہ ہے تو اس بارے میں مسافروں کو آگاہ کیا جائے۔
 
مسافروں کی حفاظت کے پیش نظر سڑکوں پر کیا کوئی انتباہی پیغامات لگائے جاتے ہیں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے ڈرائیوروں کو سڑک پر ممکنہ خطرے سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے لال جھنڈوں سے لے کر مختلف سائن بورڈ لگائے جاتے ہیں۔ ’ٹول پلازوں اور آرام گاہوں پر موجود عملہ آگے کے راستے کے متعلق آگاہی بھی فراہم کرتے ہیں۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ اب موٹرویز اینڈ نیشنل ہائی وے پولیس نے ڈرونز کے ذریعے نگرانی کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔
 
ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
 
image
 
این ڈی ایم اے کے ترجمان ادریس محسود کا کہنا تھا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لیے سب سے پہلے عوام کو غیر ضروری سفر سے گریز کرنا چاہیے۔
 
اس ضمن میں این ایچ ایم پی کے اہلکار اور رابطہ افسر یاسر محمود کا کہنا ہے کہ کسی بھی لمبے سفر پر جانے سے پہلے عوام کو نیشنل ہائی وے اینڈ موٹرویز کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری کو غور سے پڑھنا چاہیے۔ یہ تمام معلومات این ایچ ایم پی کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دستیاب ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ اس ایڈوائزری کے متعلق جاننا اس لیے ضروری ہے کہ جس جگہ سفر کرنا ہے وہاں کے موسمی حالات، سڑکوں کی صورتحال، راستے میں سہولیات اور ممکنہ متبادل راستوں کے متعلق معلومات مل سکے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ انتہائی حالات میں جب سڑک کو بند کر دیا جائے تو اس پر سفر کرنے سے گریز کیا جائے اور بتائے گئے متبادل راستے ہی اختیار کیے جائیں۔
 
اگر مقامی انتظامیہ، پولیس آپ کو سفر سے منع کر رہی ہے تو اس کو سنجدیدگی سے لیں نہ کہ اپنی گاڑی چلانے کی مہارت پر اعتماد کرتے ہوئے کسی مشکل میں پھنس جائیں۔
 
اگر کوئی اچانک ایسی صورتحال میں پھنس جائیں تو کیا کیا جائے؟
 
image
 
ریسکیو 1122 کی اہلکار و ترجمان دیبا شہناز کا کہنا ہے کہ:
سیلابی ریلے یا شدید بارش کی صورت میں سب سے پہلے محفوظ مقام پر جانے یا رکنے کی کوشش کریں۔
دوران ڈرائیونگ اپنی رفتار آہستہ کر لیں۔
ریسکیو سروسز سے رابطہ کریں۔
مقامی لوگوں کی راستے کے متعلق معلومات پر اعتماد کریں اور جان کو خطرے میں مت ڈالیں۔
 
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس کے رابطہ افسر یاسر محمود کا اس بارے میں کہنا ہے کہ قدرتی آفت کی صورت میں 100 فیصد تحفظ ممکن نہیں ہے لیکن شدید بارش کے دوران بادل پھٹنے کی صورت میں فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل ہو جائے۔
 
سیلابی صورتحال میں سب سے پہلے اپنی جان کا تحفظ کریں اور فوری اس جگہ سے واپس کی طرف نکلنے کی کوشش کریں۔
 
سفر کو مزید جاری نہ رکھیں اور اگر گاڑی، موٹر سائیکل بہہ جانے کا خطرہ ہے تو اسے جانے دیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کی گاڑی سیلابی ریلے میں پھنس گئی تو اس کی حتی الامکان کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ گاڑی کو وہاں سے نکالے جبکہ ایسا ہو نہیں سکتا۔
 
’سیلابی پانی میں پھنسنے کی صورت میں فوری گاڑی سے نکلیں اور پانی کم ہونے کا انتظار مت کریں، مزید پانی اس کو ڈبو بھی سکتا ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کے لیے آپ اہم ہیں، گاڑی نہیں۔‘
 
اگر موقع پر کوئی مقامی افراد موجود ہیں تو ان کی ہدایات پر عمل کریں اور خستہ حال سڑک، کمزور پشتوں اور پلوں پر سفر کرنے سے گریز کریں۔
 
سیلابی پانی میں پانی کے بہاؤ کے مخالف یا اس سمت میں گاڑی چلانے کی کوشش بالکل مت کریں۔
 
کسی درخت، چٹان یا محفوظ چیز کے پیچھے رکنے کی کوشش کریں۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: