|
|
ایک عورت کی جنت اس کا گھر اس کا شوہر اور اس کے بچے
ہوتے ہیں یشودھا بھی ایسی ہی ایک عورت تھی جس کی کم عمری میں شادی ہوگئی
تھی اور پھر ایک بیٹا اور ایک بیٹی کی پیدائش نے اس کے گھر کو مکمل کر
دیا-30 سال کی عمر تک یشودھا ایک خوشگوار ترین زندگی گزار رہی تھی۔ س کی
رہائش مدھیہ پردیش کے کانتی گاؤں میں تھی۔ |
|
زندگی اچانک بدل گئی
|
سال 1977 میں یشودھا کی زندگی ایک حادثے نے بدل کر رکھ
دی جبکہ ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں اس کا شوہر اور بیٹا بیٹی کی زندگی ختم
ہو گئی اور وہ یک لخت اس کی زندگی کے سارے مقاصد دم توڑ گئے- |
|
اب یشودھا ایک بیوہ عورت تھی ہندوستان سے تعلق رکھنے کے
سبب بیوہ کی حیثیت سے اس پر معاشرے کی جانب سے بہت ساری پابندیوں کا سامنا
بھی کرنا پڑا جس کے سبب یشودھا متھرا کے ایک مندر بانکے بہاری میں پناہ لے
لی جہاں اس جیسی سیکڑوں بیوہ عورتیں زندگی کے باقی دن گزار رہی تھیں۔ |
|
بیوہ کے طور پر شب و روز |
یشودھا جب اس مندر میں آئی تو وہ اپنی زندگی کی ساری خوشیاں اور خواہشات
پیچھے چھوڑ آئی اور اس نے وہاں سنیاس اپنا لیا۔ گیروے رنگ کی ساڑھی میں
ملبوس اس مندر میں اس نے اپنے شب و روز انتہائی سادگی سے گزارنا شروع کر دی
اب وہ صرف یشودھا نہیں بلکہ یشودھا داسی تھی- |
|
|
|
یہاں اس کے دن کا آغاز صبح تین بجے ہو جاتا تھا۔ صبح کی
روشنی پھیلنے تک عبادت کرنے کے بعد وہ دن چڑھتے ہی مندر کے ساتھ موجود
گوشالہ چلی جاتی جہاں پر ہندو مذہب میں مقدس مانی جانے والی گائے موجود
ہوتی تھیں اور یشودھا ان کو کھانا دیتی اور ان کی دیکھ بھال کرتی۔ اس دوران
یشودھا نے اپنے بچوں کی کمی اور شوہر کی موت کے غم کو ان بے زبان جانوروں
کی خدمت میں ڈھونڈ لیا- |
|
صبح کے ساڑھے سات بجے یشودھا مندر آجاتی اور وہاں آنے
والے لوگوں کی خدمت میں جت جاتی یشودھا نے اپنے طور پر وہاں آنے والے افراد
کے جوتوں کی سنبھال کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی تھی اس کے بعد دوپہر کو
کھانے کے بعد یشودھا ایک بار پھر سے گو شالہ چلی جاتیں اور دوبارہ سے ان
جانوروں کی خدمت میں جت جاتی۔ شام چار بجے یشودھا ایک بار پھر مندر آتی اور
دوبارہ سے وہاں آنے والوں کے جوتوں کی دیکھ بھال کرنے لگتی تھی۔ |
|
یشودھا کی کل کائنات
|
یشودھا نے چالیس برسوں میں اپنے کام سے ایک دن بھی چھٹی
نہیں کی اس دوران اس کی کل کائنات دو گیروے رنگ کی ساڑھیاں اور چند برتنوں
کے علاوہ کچھ نہ تھی۔ چونکہ کھانے کے یشودھا کو دو وقت دال چاول اور سبزی
مل جاتی تھی تو اس کے ان برتنوں کا بھی کوئی مقصد نہیں رہ گیا تھا- |
|
تاہم یشودھا کو جوتوں کے سنبھالنے اور ان کی دیکھ بھال
کرنے کے بدلے ہر روز 800 روپے ملتے تھے جن کو وہ جمع کرتی تھی۔ اور اس کے
بعد ہر کچھ دنوں کے بعد اس رقم کو بنک میں جمع کروا دیتی تھی- |
|
|
|
یشودھا کی
زندگی کا مقصد |
یشودھا کی اب باقی زندگی کا مقصد 50 لاکھ روپے
جمع کرنا تھا۔یشودھا اس رقم کو گوشالہ میں دینا چاہتی تھی تاکہ ان کی بہبود
کے لیے کچھ کر سکے، تاہم یشودھا کو یہ رقم جمع کرنے میں 40 سال کا طویل وقت
لگا۔ جس کے لیے یشودھا نے چالیس سالوں میں ایک روپیہ اپنے اوپر خرچ نہیں
کیا- |
|
یہاں تک کہ جب یشودھا کے 50 لاکھ پورے ہوئے تو
اس نے گاؤں میں موجود اپنے شوہر کے گھر کو بھی فروخت کر دیا اور اس سے ملنے
والے پیسے بھی اپنے جمع شدہ پیسوں میں ملا کر 61 لاکھ کی رقم گوشالہ میں
وہاں موجود جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے دے دی تاکہ ان کی حالت بہتر
بنائی جا سکے- |
|
یشودھا داسی کا یہ عمل سوشل میڈيا کے ذریعے
دنیا بھر میں اس وقت مشہور ہو گیا مگر اس کا کوئی بھی اثر یشودھا کے دن رات
پر نہ پڑا اور وہ اس رقم کو عطیہ کرنے کے بعد ایک بار پھر سے اسی شب و روز
میں جت گئی ہے تاکہ دوبارہ سے جب تک اس کی زندگی ہے وہ مزید رقم جمع کر کے
بے زبان جانوروں کی مدد کر سکے- |