سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیکل کیمپس

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کی وجہ سے جہاں دیگر بہت سے چیلنجز درپیش ہوئے ، وہیں سیلاب متاثرین صحت کے مسئلے سے بھی بڑی تعداد میں دوچار ہورہے ہیں ۔ متاثرہ علاقوں میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ صحت کا مسئلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ متاثرین مختلف وباؤں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ دوسری جانب طبی سہولیات کے شدید فقدان کے باعث صحت کے مسائل کا احاطہ ایک سخت چیلنج کے طور پر سامنے آ رہا ہے ۔ ہر روز نِت نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں ۔ ہسپتال ، جو پہلے ہی سہولیات کی کمی کا شکار رہتے تھے، سیلاب کی وجہ سے تباہ حال ہیں ۔ یعنی سیلاب متاثرین کی رہی سہی امید جو ناکافی ہسپتالوں کی صورت میں موجود تھی ، وہ بھی فی الوقت میسر نہیں ہے ۔ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر کے آنے والے، اشکوں کے ساتھ وہاں کے حالات بتاتے ہوئے متاثرین کے صحت کے حوالے سے درپیش مسائل اور چیلنجز کا بالخصوص تذکرہ کرتے ہیں ، تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں طبی سہولتیں کتنی ناپید اور ہسپتال کس قدر وسائل کی قلت کا شکار ہیں ۔

ایسے میں چند اداروں کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپس کا انعقاد مختلف بیماریوں کا شکار افراد کیلئے نہایت حوصلہ افزاء ہیں ۔ سرور فاؤنڈیشن بھی ان چیدہ چیدہ اداروں میں سے ایک ہے جو دور دراز ، پسماندہ جگہوں پر جا کر سیلاب متاثرین کو طبی سہولیات مہیا کر رہا ہے ۔ سرور فاؤنڈیشن سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیکل کیمپس لگا کر اب تک کم و بیش 19 ہزار سے زائد متاثرین کو استفادہ کروا چکی ہے ۔ ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان کی بیشتر پسماندہ مگر سیلاب سے متاثرہ تحصیلوں اور گوٹھوں میں مختلف بیماریوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی رضاکار ٹیمیں متاثرین کا تسلی بخش چیک اپ اور مرض کی تشخیص کرتے ہوئے انہیں مفت ادویات کی فراہمی یقینی بنا رہی ہیں ۔ سرور فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے میڈیکل کیمپس کا یہ سلسلہ ان تمام سیلاب متاثرہ علاقوں تک وسیع کیا جا رہا ہے جہاں وبائی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور صحت کی قریب قریب کوئی سہولیات دستیاب نہیں ہیں ۔ ایسے میں ان رضاکار ڈاکٹروں کو خراج تحسین پیش کرنے کی جی چاہتا ہے جو اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر ، متاثرین کے علاج معالجے کیلئے میڈیکل کیمپس میں دن رات موجود ہیں ۔

متاثرین کو ان کی دہلیز پر صحت کی سہولیات مہیا کرنا وقت کی ترجیحی ضرورت ہے ۔ اسی تناظر میں سرور فاؤنڈیشن کا ہدف سیلاب زدہ ایک لاکھ متاثرین کو میڈیکل کیمپس کے ذریعے مفت علاج و ادویات کی سہولت سے مستفید کرنا ہے ۔ سرور فاؤنڈیشن سمیت جو چند ادارے یا گروپس میڈیکل کیمپس کے ذریعے متاثرین کی خدمت اور وبائی بیماریوں کا تسلی بخش علاج کرنے میں مصروف ہیں ، یقینا ایک بڑی خدمت کر رہے ہیں ۔ میڈیکل کیمپس کا یہ سلسلہ مزید وسعت کا متقاضی ہے تاکہ بیماریوں کو پھیلنے سے روکا جا سکے ۔

ریلیف کا پہلا مرحلہ متاثرہ افراد کی غذائی ضروریات پورا کرنے اور انہیں سایہ دینے کا مرحلہ تھا ، جسے بڑے پیمانے پر پورا کیا گیا ہے۔ اب دوسرا مرحلہ درپیش ہے، جو پہلے مرحلے سے مشکل مگر بہت اہم ہے ۔ اس مرحلے میں متاثرین کی صحت کے حوالے سے بھی بہت سے کام کرنے ہیں ۔ گھروں اور سکولوں کی تعمیرِ نو کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں کی بحالی اور ان میں سہولیات کی فراہمی کا مشکل مرحلہ بھی ہمیں درپیش ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وقت مسٹر ایکس وائی کی سیاست سے باہر نکل کر ملکی بقا اور استحکام کیلئے مل جل کر کچھ کرنے اور مباحثوں سے آگے بڑھنے کا وقت ہے ۔ اس وقت سیلاب متاثرین کیلئے حکومت اور فلاحی اداروں کو جس قدر امداد مل چکی ہے اور جتنی مزید دی جا رہی ہے ، وہ متاثرہ افراد کو دوبارہ سے آباد کرنے، انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے کافی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس امداد سے لوگوں کے گھروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان کے روزگار کا بھی موثر انتظام کیا جا سکتا ہے ۔

عالمی شراکت داروں نے اب تک اس حوالے سے پاکستان کا بہت ساتھ دیا ہے ۔ اس وقت سیلاب متاثرین سمیت امداد دینے والے تمام ممالک کی نظریں حکومت پر ٹھہری ہوئی ہیں ۔ حالات عملی کردار کو موثر انداز میں بڑھانے کے متقاضی ہیں ۔ جمع شدہ امداد کے درست مصرف کے آغاز کی بجائے ، اگر ہم اب بھی کشکول لئے دوسرے ممالک سے رابطے ، اپیلیں اور دورے کرتے رہے ، یا ٹیلی تھونوں میں ہی الجھے رہیں گے تو پھر سیلاب متاثرین کی حالت زار یونہی رہے گی اور مستقبل میں دنیا ہم پر اعتماد کرنے سے کترائے گی ۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے بھی ہے کہ جب تک انفراسٹرکچر بالخصوص ہسپتال بحال اور سہولیات سے آراستہ نہیں ہو جاتے ، تب تک متاثرین کیلئے میڈیکل کیمپس جیسی سرگرمیوں کا انعقاد ہوتا رہنا چاہئے، تاکہ ان کی صحت کے مسائل کا احاطہ ہوتا رہے ۔ وگرنہ بیماریاں بڑھتے اور پھیلتے دیر نہیں لگتی ۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 82 Articles with 69936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.