بہو کو پاندان نہیں دیا تو ساس ناراض، جہیز کی کچھ ایسی اشیا جو ماضی میں ضروری مگر اب غیر ضروری قرار

image
 
شادی بیاہ کے تہوار کا شمار عام طور پر ہر معاشرت کی روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں لڑکی کو شادی کے وقت کچھ سامان جہیز کی صورت میں ماں باپ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔ عام طور پر جہیز کو ایک لعنت قرار دیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود صدیوں سے لڑکی کے والدین جہیز دے رہے ہیں اور لڑکے کے والدین اس کو اپنا حق سمجھ کر لے رہے ہیں- تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جہیز کے سامان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی بھی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ آج ہم کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں آپ کو بتائيں گے جو کہ ماضی میں تو لازم سمجھی جاتی تھیں مگر حالیہ زمانے میں آؤٹ آف فیشن ہونے کے ساتھ ساتھ جہیز میں ان کی جگہ دوسری اشیا نے لے لی ہے-
 
1: پاندان
ماضی میں لڑکی کے جہیز میں پاندان کا ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ اگر لڑکی کے جہیز میں پاندان نہ ہو تو اس کے سسرال والے اور خاص طور پر ساس بہت برا مناتی۔ پاندان ایک اسٹیل یا مس خام کا بنا ایک چھوٹا سا ڈبہ ہوتا جس کے اندر مختلف چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوتے اور ان خانوں میں کسی میں چھالیہ کسی میں الائچی کسی میں قوام اور کسی میں کتھا اور چونا ہوتا۔ اسکے علاوہ اس میں پان کے پتوں کو رکھنے کی بھی جگہ ہوتی- جہیز میں پاندان کے ساتھ ساتھ لڑکی کو نہ صرف پان لگانا بلکہ اس کو تہذیب کے ساتھ پیش کرنا بھی سکھایا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے سسرال والوں کی مہمان داری پان کو پیش کر کے کر سکے-
image
 
2: اسٹیل کا لوٹا اور سلفچی
جہیز میں اسٹیل کا لوٹا اور سلفچی کا ہونا بھی ایک انتہائی ضروری جز سمجھا جاتا تھا جس کا کام گھر کے مردوں اور گھر آئے مہمانوں کے ہاتھ دھلانے کے لیے کیا جاتا تھا- ماضی میں مہمان جہاں بیٹھا ہوتا تھا کھانے سے قبل اور کھانے کے بعد اس کے بیٹھے بیٹھے اس کے ہاتھ دھلائے جاتے تھے جس کے لیے اسٹیل کے لوٹے اور سلفچی کا استعمال کیا جاتا تھا اور گھر کی بہو بہت ادب اور تہذيب کے ساتھ یہ فرض ادا کیا کرتی تھی- چونکہ حالیہ دور میں یہ رواج ختم ہو گیا ہے اس وجہ سے بیٹیوں کے جہیز میں بھی ان اشیا کو رکھنے کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے-
image
 
3: یخدان
عام طور پر کپڑوں کو استری کرنے سے قبل ان پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے ماضی میں جب کہ بجلی اور استری موجود نہ تھی تو اس دور میں کپڑوں کی تہہ درست کرنے کے لیے ایک خاص قسم کے صندوق استعمال کیے جاتے تھے جو لکڑی گتے اور کپڑوں کے مختلف تہوں پر مشتمل ہوتے تھے- اس میں رکھے ہوئے کپڑے ٹھنڈے رہتے تھے اور ان کو جس طرح تہہ کر کے رکھا جاتا تھا تو ٹھنڈک کے سبب ان کی تہہ جم جاتی تھی جس کو جب پہننے کے لیے نکالا جاتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے استری شدہ ہیں- مگر اب جہیز میں استری کے رواج کے سبب اس کا استعمال ختم ہو گیا ہے اس وجہ سے ان کو بنانا بھی لوگوں نے بند کر دیا ہے-
image
 
4: ہاتھ کا پنکھا
ہاتھ سے جھلنے والا پنکھا بھی بہت ہی خوبصورت انداز میں سجا کر جہیز میں دینے کی روایت ماضی کا حصہ تھی جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ گرمی لگنے کی صورت میں دلہن اس خوبصورت پنکھے سے اپنے شوہر کو ہوا دے اور اس کی ضروریات کا خیال رکھے- مگر حالیہ دور میں بجلی کے آنے کے بعد ان پنکھوں کی حیثیت شو پیس سے زيادہ نہیں رہی-
image
 
5: سروتا
سروتا کا کام ایک جانب تو پاندان میں موجود چھالیہ کو توڑنے کے لیے ہوتا تھا اس کے علاوہ ڈرائی فروٹ کو توڑنے کے کام بھی آتا تھا خاص طور پر بادام اور اخروٹ کو توڑنے کے لیے سروتا استعمال کیا جاتا تھا اور پاندان کے ساتھ اس کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی تھی- مگر جس طرح پاندان کو جہیز میں دینا اب برا سمجھا جاتا ہے بلکہ پان اور چھالیہ کھانا منہ کے کینسر کا سبب مانا جاتا ہے اس وجہ سے جہیز میں اس کو دینے کا رواج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے-
image
 
یہ کچھ اشیا تھیں جو کہ ماضی میں تو جہیز میں ہوتی تھیں مگر اب ان کی جگہ جدید اشیا نے لے لی ہے مگر امید ہے کہ ان اشیا کے بارے میں جان کر آپ کو ماضی کی یاد آگئی ہوگی-
YOU MAY ALSO LIKE: