اب کسی کو موبائل فون اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی... وزیراعظم ہاؤس میں کونسی نئی پابندیاں لگا دی گئیں؟

image
 
وزیراعظم ہاؤس سے آڈیو لیک کے واقعے کے بعد حساس اداروں کے اہلکاروں نے وزیر اعظم ہاؤس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کا سائبر سکیورٹی کے حوالے سے جائزہ لیا ہے۔
 
وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے تناظر میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں رائج او ایس پیز میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔
 
بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ پر لگائی گئی تنصیبات کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا گیا ہے اور مستقبل میں ایسے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے جدید آلات نصب کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے وزیر داخلہ کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی کمیٹی کرے گی۔
 
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز اور وفاقی کابینہ کے ارکان کی آڈیوز کے بعد پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک نئی آڈیو سامنے آئی ہے جن میں عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو امریکی ’دھمکی‘ سے متعلق مراسلے کے معاملے پر گفتگو کرتے سنا جا سکتا ہے۔
 
اس صورتحال کے بعد وزیراعظم ہاؤس کی سائبر سکیورٹی کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے۔
 
وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق ایس او پیز میں تبدیلی میں جو تجویز دی گئی ہے اس میں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں اگر کسی سرکاری افسر (سکریٹری) کو بریفنگ کے لیے بلایا جائے گا تو وہ اجلاس میں شریک ہونے سے پہلے بریفنگ کی تمام تفصیلات وزیر اعظم کے پرنسل سکریٹری کو بھیجے گا۔
 
اہلکار کے مطابق اگر وزیراعظم کا پرنسپل سکریٹری سمجھے کہ جس وفاقی سکریٹری کو اجلاس میں بریفنگ کے لیے بلایا گیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ لیپ ٹاپ اپنے ساتھ لے کر آئے تو اس سلسلے میں پرنسپل سکریٹری کو وزیر اعظم ہاؤس میں تعینات سکیورٹی انچارج کو اس بارے میں قبل از وقت آگاہ کرنا ہوگا۔
 
اہلکار کے مطابق وفاقی سکریٹری لیول کے افسر کو بھی اپنا موبائل اور لیپ ٹاپ وزیر اعظم ہاؤس میں لے کر جانے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ اس سے پہلے گریڈ 22 کے افسران وزیر اعظم ہاؤس میں اجلاس میں شرکت کے لیے جانے کے لیے لیپ ٹاپ اور سرکاری موبائل فون لے کر جانے پر کوئی ممانعت نہیں تھی۔
 
image
 
اہلکار کے مطابق گریڈ 20 سے نیچے جتنے بھی سرکاری افسران وزیراعظم ہاؤس جاتے تھے تو ان کے زیر استعمال موبائل فون کو وزیر اعظم ہاؤس کے مرکزی دروازے پر ہی رکھ لیا جاتا اور واپسی پر انھیں یہ موبائل واپس کر دیے جاتے تھے۔
 
اہلکار کے مطابق اگر کوئی اجلاس وزیر اعظم کی سربراہی میں وزیر اعظم سکریٹریٹ میں ہونے جا رہا ہے تو وزیر اعظم سکریٹریٹ میں ہونے والے اجلاس کے دوران بھی یہی ایس او پیز اختیار کیے جائیں گے۔
 
اہلکار کا کہنا ہے کہ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس، وزیر اعظم سکریٹریٹ اور ایوان صدر میں جتنے میں قانون نافد کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات ہیں ان کی سکروٹنی کا عمل ہر تین ماہ کے بعد کیا جائے جبکہ اس سے پہلے سکرونٹی کا عمل سال میں ایک مرتبہ کیا جاتا تھا۔
 
اہلکار کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر تعینات پولیس اور قانون نافد کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو اپنا موبائل فون وزیر اعظم ہاؤس کے اندر لے کر جانے کی اجازت نہیں ہو گی اور وزیر اعظم ہاؤس کے اندر کسی بھی پولیس اہلکار سے رابطہ کرنے کا واحد ذریعہ وائرلیس سیٹ اور یا پھر انٹرکام ہو گا۔
 
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابیبنہ کے اجلاس میں اس آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قواعد و ضوابط کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں قائم ہونے والی ٹیم اس معاملے پر اپنا کام شروع کر دے گی۔
 
وفاقی تحققیاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کے سابق سربراہ عمار جعفری کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حساس عمارت کی تعمیر سے پہلے سویلین اور حساس اداروں کے اہلکار اس کو ہر قسم کی سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے دیتے ہیں اور ان کی سفارشات کی روشنی میں ہی اس عمارت کی تعمیر اور دیگر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
 
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سائبر سکیورٹی کی ذمہ داری اگرچہ سویلین خفیہ ادارے کے پاس ہوتی ہے لیکن دیگر حساس ادارے بھی اس سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
 
انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت تمام اداروں میں سرکاری افسران جو بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ای میلز کا استعمال کرتے ہیں اس کا تمام تر ریکارڈ رکھنے کی ذمہ داری این ٹی سی کے پاس
 
انھوں نے کہا کہ بعض سرکاری افسران نے سرکاری ای میلز کے علاوہ دوسرے نیٹ روک پر بھی اپنے نجی اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں جس کو مانیٹر کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
 
image
 
عمار جعفری کا کہنا تھا کہ حساس عمارتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ورنہ اگر روایتی انداز ہی اپنایا گیا تو اس طرح کی آڈیو لیکس کا سلسلہ روکنا کافی مشکل ہو جائے گا۔
 
واضح رہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور ڈاکٹر توقیر شاہ کی آڈیو منطر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم نے اسے سنگین سکیورٹی کی خامی قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیات کا حکم دیا تھا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: