ناراضگیاں وقتی ہونی چاہیے

ناراضگیاں وقتی ہوتی ہیں انسان جذبات میں بہت سی باتیں کہہ جاتا ہے لیکن جو انسان رنجشوں کو دل ودماغ میں بسا لیتا ہے وہ کبھی بھی مشکل حالات کا سامنا کرسکتا ہے اور نہ ہے مقابلہ دوست انسان کے بازوں ہوتے ہیں اور تعلق جتنا پرانا ہو اتنا ہی مضبوط بنتا جاتا ہے ہر انسان کی فطرت اور عادت مختلف ہوتی ہے اس وقت دنیا میں تقریبا 8ارب انسان بستے ہیں ان آٹھ ارب لوگوں کے سولہ ارب انگھوٹے ہیں جن کے چھوٹے سے حصے میں ایسا ڈیزائن بنا ہوا ہے کہ ہر ایک ڈیزائن سولہ ارب انسانوں کے ڈیزائنوں میں سے کسی سے نہیں ملتا یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جسے قران کریم نے یوں بیان کیا ہے کہ اور خود تمہاری ذات میں بھی ہماری قدرت کی کئی نشانیاں ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ۔ہم انسان عقل کا اتنا ہی استعمال کرتے ہیں جتنا اسکے اختیار میں ہوتا ہے ایک اور بات جو ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ نیکیاں اور دعائیں فنا نہیں ہوتیں یہ نسل در نسل ساتھ چلتی ہیں اور نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری نسلوں کو بھی اپنی حفاظت میں رکھتی ہیں اس لیے دوسروں کے ساتھ نیکیاں کرتے رہنا چاہیے اور جو اختیار ہمیں کسی نہ کسی عہدے کی وجہ سے ملتا ہے اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا بلکہ یہ کوئی نہ کوئی نیکی کا صلہ ہی ہوتا ہے جو اگر ہم نے نہیں کی تو ہمارے والدین نے کی ہوگی ورنہ تو لولے لنگڑے اور معذور افراد بھی انسان ہی ہیں وہ بھی دنیا میں زندہ ہیں اس لیے ہمیں ہر وقت اﷲ تعالی کا شکر گذار بن کررہنا چاہیے تاکہ وہ ذات پروردگار ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو اپنی پناہ میں رکھے میں بات کررہا تھا کہ انسان غضے اور جذبات میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے اور خوبصورت انسان وہی ہوتا ہے جو معاملات کو درگذر کرجائے ایسے افراد اداروں کے لیے خوشنما پھول تو ہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ معاشرے کا خوبصورت چہرہ بھی ہوتے ہیں مجھے تو ایسے انسان بہت کم نظر آئے ہیں جو حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیں جبکہ کچھ انسان اداروں کا مان ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ انکے اندر اﷲ تعالی نے کچھ خاص صلاحیتیں رکھ چھوڑی ہیں اب یہ اس انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیوں کو مثبت طرف لے کر جاتا ہے یا منفی اگر کوئی انسان اپنی خوبصورتی کو لوگوں کی دل آزاری کی طرف موڑ دیگا تو اس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور اگر کوئی انسان اپنے اندر کی صلاحیتوں کو کدمت خلق کی طرف موڑ دیگا تو اس سے نہ صرف لوگوں کی مشکلات ختم ہونا شروع ہوجاتیں ہیں بلکہ زندگی بھی پرسکون ہو جاتی ہے ویسے تو بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اپنے کام کے ساتھ انصاف کررہے ہیں ہم اخباری لوگ ہیں اس لیے ہمارا زیادہ واسطہ اور تعلق محکمہ اطلاعات کے ساتھ ہی رہتا ہے اس وقت پنجاب کے محکمہ اطلاعات میں سیکریٹری راجہ منصور اور ڈی جی پی آر افراز نوجوان بھی ہیں اور خوبصورت بھی دونوں اپنے اپنے کام کے ماہر ہیں اور جو کام اس محکمہ میں ہونا چاہیے وہ اس سے بڑھ کرکررہے ہیں چوہدری پرویز الہی کی عوام کو سہلولیات فراہم کرنے کے حوالہ سے جوکاوشیں ہیں انہیں جس انداز سے عوام تک پہنچا رہے ہیں انہیں شعور کی بلندیوں تک لے جارہے ہیں وہ انہی دو افراد کا کمال ہے یہ الگ بات ہے کہ دونوں کو اس وقت اندرونی اور بیرونی سازشوں کا بھی سامنا ہے اور یہ جانتے بھی ہیں مگر اسکے باوجود انکے اندر انتقام کا کوئی جذبہ ہے اور نہ ہی انکے دل میں کسی کے خلاف کوئی رنجش ہے عظیم انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے دل میں کوئی بات چھپا کر نہ بیٹھا رہے اسی طرح سابق سیکریٹری اطلاعات اور موجودہ کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر بھی خوبصورت اور عظیم انسان ہیں میری انکے ساتھ دوستی بھی رہی اور سخت مخالفت بھی مگر اسکے باوجود انہوں نے کوئی بات کی اور نہ ہی کوئی گلہ کیابلکہ جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے ہمیشہ بھائیوں جیسا پیار دیا انکے خلوص ،پیار اور محبت کا بھی اپنا ہی انداز ہے مخالفت کے باوجود وہ تعلق نبھانا جانتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ انسان محسوس کرتا ہے کہ اتنے پیارے اور خوبصورت انسان کے ساتھ ہمیں ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا خیر وقت گذر جاتا ہے اور یادیں رہ جاتی ہیں تلخ یادیں انسان کو پریشان کرتی ہیں اور خوشگوار یادیں انسان کو مسکرانے پر مجبور کرتی ہیں اور یہی مسکراہٹ انسان کی ترقی ،خوشحالی اور بقا کی ضامن بن جاتی ہے ایسا انسان دنیا میں بھی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا ہی چلا جاتا ہے پچھلے دنوں میرے دو دوستوں کے درمیان کچھ تلخ باتیں ہوئی میں سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کو بھول کر ہمیں ملکر آگے بڑھنا چاہیے گلے شکوے زندگی کا حصہ ہوتے ہیں انہیں اپنے گلے کا طوق نہیں بنا نا چاہیے بہت سی مثالیں ہم کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں اور بہت سی ہمارے سامنے کی باتیں ہیں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے اور چوک چوراہوں میں لٹکانے کے دعوے اور وعدے کرنے والے آج ایک دوسرے کے گلے لگ کر حکومت کررہے ہیں تو دو دوستوں کو بھی تلخ باتوں کو بھلا کر اگلی منزل تک پہنچنا چاہیے محکمہ اطلاعات اور اخباری دنیا کے کارکن ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں ہاں کبھی پنکچر ہو جاتی ہیں ہوا کم ہو جاتی ہے ایسی صورت میں ہم انہیں گاڑی سے نکا نہیں دیتے بلکہ کچھ دیر کی تکلیف برداشت کرنے کے بعد ہم بڑے سکون سے آگے بڑھنا شروع کردیتے ہیں بکل ایسے ہی کچھ غلط فہمیوں کے بعد جب دو دوست ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں تو پہلے سے زیادہ دوستی اور یاری پکی ہوجاتی ایک دوست کو دوسرے پر مان ہوتا ہے اور وہ اسی مان میں کوئی بات تلخ بھی کرجاتا ہے اگر دوسرا برداشت کرجائے تو یہی دوستی ہوتی ہے لیکن اگر ان مقدس رشتوں میں کوئی دراڑ آجائے تو اسے باقی کے دوست ملکر ختم کردیتے ہیں میں سمجھتا ہوں سردار خان نیازی اور افراز کے درمیان جو رشتہ پہلے تھا وہی اب رہنا چاہیے غصہ وقتی ہوتا ہے جسکے بعد وہی پچھتاوا بن جاتا ہے رنجشوں کے بیج کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے اور نہ ہی انکی آبیاری کرنی چاہیے انکی جگہ پیار ،محبت ،خلوص اور عقیدت کو پنپنا چاہیے جسکی سب سے بڑی مثال خود پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی ہیں جنہیں کبھی عمران خان پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے مگر پھر کیا ہوا عمران خان نے ہی چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلی کے لیے نامزد کیا اس لیے جذبات میں کہی ہوئی باتوں کو اہمیت نہیں دینی چاہیے زندگی بہت مختصر ہے کام بہت زیادہ ہیں اس لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا ہوگا بلکہ بڑھتے ہی چلے جانا ہوگا ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 510028 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.