بزرگ شہریوں کا عالمی دن

سائنس کا کمال ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں دنیا میں عمر کے اعتبار سے عظیم تبدیلی آئی ہے۔آج سے تین صدیاں پہلے انسان کی اوسط عمر تقریباً آٹھ سال تھی۔ پیدائش کی وقت بچوں اور ماؤں کی ایک بڑی تعداد موت کی نذرہو جاتی تھی۔ پانچ سال کی عمر تک پہنچتے بہت سے بچے ہیضہ چیچک، خناق اور چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو ڈالتے تھے۔تب دق ہر گھر کا روگ تھا اور لوگ بڑی تعداد میں اس کا شکار ہوتے تھے۔سائنس نے ترقی کی ، بیماریوں کا علاج دریافت ہوااور ہر سال انسان کی اوسط عمر بہتر ہوتی گئی ۔ 1950 میں انسان کی اوسط عمر 45 سال کے لگ بھگ تھی۔آج 2022 انسان کی اوسط عمر 72.98 یعنی تقریباً73 سال ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ دنیا میں بزرگ شہریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پرانے وقتوں میں پورے محلے میں کوئی ایک آدھ بوڑھا رہ جاتا تھا تو اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ بنا کسی سنگی ساتھی اور بغیر کسی ہم نوا کے کیسے گزارہ کرے ۔ چنانچہ وہ بیچارا تنہائی میں اپنا بڑھاپا بڑے کٹھن انداز میں گزارتا۔ بھارت کے ہندوؤں میں بن باس کی رسم تھی۔ جب آدمی بوڑھا ہو جاتاتو خود ہی گھر چھوڑ کر جنگل کی راہ لیتااس لئے کہ وہ اپنے گھر میں بھی اپنے آپ کو گھر والوں کے ساتھ بہتر محسوس نہیں کرتا تھا۔ گھر کے لوگ اسے ناکارہ اور خود پر بوجھ محسوس کرتے تھے اور اس کا اظہار بھی نظر آتا تھا۔اس لئے وہ زبردستی جلاوطنی اختیار کرلیتا۔مگر اب وہ صورت حالات نہیں۔ اب بزرگ لوگ ہر جگہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ 1951 میں دنیا کے ہر پچیس آدمیوں میں ایک بزرگ شہری تھا جب کہ آج ہرگیارہواں شخص بزرگ شہری ہے اور خیال ہے کہ 2050 میں دنیا کا ہر چھٹا شخص بزرگ شہری ہو گا۔ دنیا کی یہ ترتیب بدلنے کے ساتھ دنیا کی سوچ بھی بدل گئی ہے۔ پہلے بزرگ شہریوں کو ایک ناکارہ چیز سمجھا جاتا تھا۔ اب دنیا انہیں تجربہ کار اشخاص میں شمار کرتی اور ان کے ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی متمنی ہوتی ہے۔

1982 میں ویانا میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں بزرگ شہریوں کی فلاح کے لئے کچھ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔اسی تسلسل میں 14 دسمبر 1990 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ ہر سال یکم اکتوبر کو بزرگوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے۔اس دن کے مقصد بزرگ شہریوں کو حوصلہ افزائی،ان کے ولولوں اور ان کی گذشتہ خدمات کے حوالے ایک بار پھرانہیں بھرپور زندگی گزارنے پر مائل کیا جائے۔چنانچہ ہر سال ایک نیا اور اچھوتا خیال پیش کیا جاتا ہے جس کہ حوالے بزرگ لوگوں کے جذبوں کو ہوا دی جاتی ہے۔ انہیں کار آمد ہونے کا تصور دیا جاتا ہے ۔ ان کے لئے مراعات کا اعلان کیا جاتا ہے۔انہیں ایک اچھی اور بھرپور زندگی گزارنے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا آخری حصہ شاندار انداز میں گزاریں۔

گذشتہ تین سالوں کے دوران کوڈ نے بزرگ لوگوں کی زندگی پر شدید اثر ڈالا ہے۔دنیا نے ہر کام کوڈ سے بچتے ہوئے کچھ پیچھے رہتے ہوئے کیا ہے۔بزرگ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اس سارے عرصے میں زندگی کے ہر شعبے میں ،چاہے وہ سیاسی تھا، سماجی تھا، معاشی تھا اور کوئی دوسرا شعبہ تھا، قابل قدر حصہ ڈالا ہے ۔ مگر نامساعد حالات کی وجہ سے ان کا کام دنیا میں اتنا نمایاں نہیں ہو سکا جتنا ہونا چائیے تھا۔شاید اس کی کچھ وجہ خواتین کے بارے ہمارے معاشرے کا منفی رویہ اور کچھ جنسی امتیاز بھی ہو۔ آج 2022 میں ہم بزرگ شہریوں خصوصاً خواتین کی حوصلہ افزائی اور ان کی محنت کو خواج تحسین پیش کرنے کے لئے جس خیالئے (Theme) کے تحت یہ دن منا رہے ہیں وہ خیالیہ ہے، "Resilience of older persons in changing world"۔اس خیالئے کا مقصد بزرگ شہریوں خصوصاً بزرگ خواتین کو بدلتی دنیا کے نئے مقابلوں اور تقاضوں کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنا اور ان میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے پر مائل کرنا ہے۔"Resilience" کا لغوی معنیٰ نرم، لچکدادراورابھرنے کی قوت ہیں اور اس خیالیے کا مقصد بزرگ شہریوں خصوصاً خواتین کو اس عمر میں نرم ہونے ، اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھالنے کے لئے لچکدار ہونے اور انہیں معاشرے میں ایک بار پھر ابھرنے کی طاقت مہیا کرنا ہے۔

ُپاکستان میں بزرگ شہریوں کے حوالے بہت کم کام ہوا ہے کچھ دن پہلے پاکستان سینٹ نے معمر شہریوں کے بارے ایک بل پاس کیا تھا جس کے مطابق بزرگ شہریوں کی بڑھتی عمر کے مسائل پر تحقیق کرناان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے کام کرنا جس سے بزرگ استفادہ حاصل کریں اور ان کی آمدن کا کچھ ذریعہ بھی بنے، بڑھاپے کے مسائل اور ان کے حل کے بارے تحقیق میڈیکل کالجوں کے سلیبس میں شامل کرنا، ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں پر خصوصی توجہ دلوانا، کلبوں پارکوں اور دیگر ایسے مقامات پرجہاں بزرگ شہری اچھا وقت گزار سکیں وہاں مفت رسائی کی سہولت دینا، بزرگ شہریوں کو ہر طرح کی محفلوں میں نوجوانوں کے ساتھ شریک ہونے کی ترغیب دینا، ایسے پروگرام کرنا جس میں بزرگ شہریوں کو معاشرے کے امور میں فعال شریک شامل ہونے کی ترغیب دی جائے، سینئر سٹیزن ہوم بنانا جہاں وہائش کے ساتھ ساتھ بزرگ شہریوں کی دلچسپی کا بہترین ماحول ہو اور ایسی بہت باتیں اس بل میں شامل تھیں۔اس بل کا سب سے خوبصورت اور شاندار فیصلہ یہ تھا کہ اولاد کسی بھی صورت میں اپنے والدین کوگھر سے بے دخل نہیں کر سکے گی۔بڑھاپے میں بے دخل ہونا اور گھر چھوڑنا انتہائی تکلیف دہ عمل ہیں۔ہاں مکان والدین کا اپنا ہو تو وہ بچوں کے دباؤ میں آئے بغیر انکو بے دخل کر سکتے ہیں لیکن مکان اپنا نہ بھی ہو تو بھی بچے والدین کو اس عمر میں کوئی ایسی تکلیف نہیں دے سکتے۔ایک خاص بات جو میں نے پہلے بھی لکھی تھی کہ بہت سے ملکوں میں یہ قانون ہے کہ کوئی شخص اگر بوڑھا ہو جائے اور اس کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو بنک اس کا ذاتی مکان اگر ہو تو گروی رکھ لیتے ہیں اور اس کے عوض اس کی ماہانہ ضروریات کا تعین کرکے اسے ہر ماہ معقول رقم دیتے رہتے ہیں۔ جب وہ شخص فوت ہوتا ہے تو اس کے ورثا بنک کی واجب الادا رقم واپس کرکے مکان اپنے نام منتقل کر لیتے ہیں بصورت دیگر بنک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ مکان بیچ کر اپنی رقم وصول کر لے۔کاش یہ قوانین کسی طرح نافد ہو جائیں تو بہت سے بزرگ لوگوں کا بھلا ہو جائے گا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441513 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More