مہنگے ترین لباس تھے نہ میک اپ زدہ چہرے٬ آج کے نئے پاکستانی اداکار پرانے اداکاروں سے کیوں مختلف ہیں؟

image
 
اچھی اداکاری سبجیکٹو ہے۔ ہم کسی اداکار کی کارکردگی کو بالکل مختلف وجوہات کی بنا پر پسند یا ناپسند کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جس پر کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ یہ سب انفرادی ذائقہ پر منحصر ہے۔ ایک وقت تھا جب مین اسٹریم اداکاروں میں میلو ڈرامہ فیشن میں تھا۔ جب ڈرامے سماجی مسائل پر مبنی جذباتیت سے بھرپور ہوتے تھے۔ اداکار اپنی ظاہری نمودونمائش کے بجائے اپنی اداکاری میں حقیقت کا رنگ ڈالنے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلیمر اور نمودو نمائش نمبر 1 پر آگئی۔
 
جہاں پہلے ایکٹر اپنی اداکاری کی بناء پر پسند کیا جاتا تھا وہیں اب ہیروئن اور ہیرو اپنے گلیمر کی وجہ سے سراہے جانے لگے ہیں ایک طرح سے یہ اداکار ماڈل ہونے کا گمان دیتے ہیں کیونکہ ان میں زیادہ تر لوگوں کا انتخاب ان کی اچھی شکل پر کیا جاتا ہے اب ان میں اداکاری کے جراثیم ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی خاص سروکار نہیں۔
 
image
 
ایک اچھا اداکار وہ ہے جس کا کردار حقیقت کا گمان دیتا ہے۔ یہ متوازن کردار نگاری کے تقاضے کے مطابق باڈی لینگویج اور نفسیات کا امتزاج ہے۔ ماضی کے پی ٹی وی کے ایکٹرز لوگوں کے دلوں پر راج کرتے تھے ان کہی، دھوپ کنارے، دیواریں، اندھیرا اجالا، دھواں، تنہائیاں وغیرہ مثال کے طور پر جب تنہائیاں کی زارا اور ثنیہ خوش ہوتی تھیں تو پورا پاکستان خوش ہوتا تھا لیکن جب وہ ایک بہت بڑی ٹریجیڈی سے گزرتی ہیں، ان کے والدین ایک کار حادثے میں مر جاتے ہیں تو پورا پاکستان اس طرح اداس ہو جاتا ہے کہ جیسے یہ ان کے گھر کی کہانی ہو۔ نہ کوئی مہنگے ترین لباس تھے نہ میک اپ سے لپے پوتے چہرے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اداکار دنیا سے ماورا نظر آنے کے بجائے اسی سوسائٹی کا کردار محسوس ہوتے تھے۔ ساری توجہ صرف اور صرف اداکاری پر ہوتی تھی۔ ہر اداکار اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتا تھا۔
 
اب اگر آج کے اداکاروں کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے تو سرجری کروا کر زیادہ تر اداکار ایک جیسی ہی شکلوں کے نظر آنے لگ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ایک نقلی اور تاثرات سے عاری چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ مرد ہو یا عورت سب پر ایک ہی جیسا میک اپ استعمال ہوتا ہے اور ایکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم چہرے پر تاثرات لائے جائیں تاکہ میک اپ نہ خراب ہو۔ دوسری طرف کسی بھی کلاس کے لوگ دکھائے جائیں لباس وہ انتہائی شاندار پہنیں گے۔
 
حبس میں عائشہ کی ماں ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کے کپڑوں سے کہیں سے نہیں لگتا کہ وہ اس طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ صباء فیصل اچھی ایکٹریس ہیں لیکن ان کی اداکاری کم وبیش ہر ڈرامے میں ایک جیسی لگتی ہے۔ اسکرپٹ مختلف ہے اداکار بھی اچھے ہیں لیکن اداکاروں کے حلیے اور چہرے کے تاثرات میں بھی توان کی کلاس دکھنی چاہئے۔ غریب گھرانے کے لوگ ہیں لیکن چہرے ان کے چمک ر ہے ہوتے ہیں جبکہ غربت اور پریشانی کے آثار ان کے چہروں پر ہونے چاہئیں۔ ایسا دکھنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے اداکاروں کو اپنے کردار میں پورے طور پر رچنا بسنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ شاید آج کا تیز زمانہ ہے۔ ایک اداکار کئی ڈراموں میں کام کر رہا ہوتا ہے آخر وہ کس کس کردار کو اپنے اندر جذب کرے۔ پی ٹی وی کے زمانے میں 12 قسطوں کے ڈرامے ہوتے تھے اور پروڈکشن بھی کم تھی تو ایکٹرز اور پروڈیوسرز کے لئے قدرے آسان تھا۔
 
image
 
معیار پر تو کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے جس طرح کسی بھی فیلڈ میں اسی فیلڈ کے ماہر لوگ ہائر کئے جاتے ہیں بالکل اسی طرح اداکاری کے میدان میں بھی وہ ہی لوگ آنے چاہئیں جن کو اداکاری کا شوق ہی نہیں خبط ہو تبھی اس فیلڈ سے انصاف ہو سکے گا محض اچھی شکل کی بناء پر اس فیلڈ میں آجانا اس فیلڈ کے ساتھ ذیادتی ہے اسی لئے ہمیں معیار تیزی سے گرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: