استاد کی عظمت، اساتذہ میری شخصیت کے معمار

(یہ تحریر حلقہ احباب ذوق (گلشن معمار)کے زیر اہتمام ’عالمی استاد کے دن‘ کے موقع پر منعقد ہونے والی ادبی نشست جس کا عنوان تھا ”آپ میری شخصیت کے معمار ہیں“میں پڑھا گیا)
استاد کی عظمت، اساتذہ میری شخصیت کے معمار
(یہ تحریر حلقہ احباب ذوق (گلشن معمار)کے زیر اہتمام ’عالمی استاد کے دن‘ کے موقع پر منعقد ہونے والی ادبی نشست
جس کا عنوان تھا ”آپ میری شخصیت کے معمار ہیں“میں پڑھا گیا)
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
استاد کی عظمت
استاد ایک ایسا منفرد و اعلیٰ مرتبہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ دنیا میں جتنے بھی پیشے تھے اور ہیں ان سب میں استاد ہونا تمام پیشوں میں افضل، ارفع و اعلیٰ ہے۔ درس و تدریس کے پیشے کو پیغمبری پیشہ کہا گیا ہے۔ کائینات کا خالق ہمارے پروردگار نے ایک استاد کی حیثیت سے ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام کو چیزوں کے نام سکھائے۔ کلام مجید کی سورہ ’البقرہ‘ میں کہا گیا ”اور آدام کو اللہ نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطا کیا“۔ثابت ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات استاد اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ پھر اللہ پاک نے ہر نبی کو اپنی قوم کو علم و حکمت سیکھانے کے لیے مبعوث کیا۔ تمام نبیوں نے اللہ کا پیغام اپنی اپنی قوم کو پہنچایا۔ ہر نبی کے لیے قرآن میں ”ویعلمہ الکتاب والحکمۃ“ کے الفاظ بیان ہوئے ہیں۔نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”وما ارسلنا ک اِ لا رحمتہ“ پھر نبیﷺ نے کہا ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے“۔ استاد کی اہمیت اس بات سے واضح ہے کہ جنگ بدر میں فتح ہوجانے کے بعد بہت سے قیدی ایسے تھے جو فدیہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ فرمایا ہمارے نبی ﷺ نے کہ جو فدیہ نہیں دے سکتے اور وہ قیدی جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ انصار کے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں، یہی ان کا فدیہ ہوگا۔اسلام نے استاد کو روحانی باپ کا مرتبہ دیا ہے۔ ماں کی آغوش سے علم سیکھنے کا آغاز ہوتا ہے۔ اسلام میں ماں کے اس عمل کے نتیجے میں اسے سو معلموں کے مساوی درجہ عطا کیا گیاہے۔علامہ اقبال نے استاد کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں“۔
اشفاق احمد کا واقعہ
مغرب میں استاد کی کیا اہمیت۔ وہ ممالک جو آج ترقی کی معراج پر ہیں اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ وہاں تعلیم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ استاد کا مرتبہ بلند ہے۔بچوں کی تربیت کسی بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تعلیم عام ہی نہیں بلکہ تعلیم کے حصول میں بچوں کے والدین پر فرض ہے کہ وہ بچوں کو اسکول بھیجیں،مغرب میں اسکولوں میں فیس لینے کا تصور ہی نہیں بلکہ ابتدائی کلاسوں میں بچوں کو وظائف اور کھانے پینے کی اشیاء مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ انہیں اجتماعی طور پر دیگر شہروں میں لے جایا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ تین کروڑ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے۔ ہمارے ملک کے بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کیا جانے والا بجت نہ ہونے کے برابر ہے۔مغرب جس کی ہم نقالی کرتے ہیں، ان کے بنائے ہوئے قوانین پر ہم آج بھی عمل پیرا ہیں، کئی وزیر اعظم مغرب سے امپورٹ ہوئے۔ وہاں استاد کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ ایک معروف واقعہ ہے معروف ادیب اشفاق احمد کا۔ انہوں نے لکھا کہ”ایک مرتبہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف سرزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کرسکا، مجھے کورٹ میں پیش ہونا پرا۔ کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروفیت رہتا ہوں۔ اس لیے میں چالان جمع نہیں کرسکا۔ تو جج نے کہا The Teacher is in the Court اورپھر جج سمیت سارے لوگ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ اس دن اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا“۔
افلاطون کا کہنا ہے کہ ”جہاں لوگ ڈاکٹر کو زیادہ محترم مانے وُہ بیمار ذہنیت کے ہیں، جہاں لوگ جرنیل کو زیادہ محترم مانے وُہ شدت پسند و حشی ہیں، اور جہان کے لوگ سب سے زیادہ استاد کو محترم مانے وہی حقیقی
تہذیب یافتہ ہیں“۔ اب ہمیں اندازہ لگالینا چاہیے کہ ہم کتنے تہذیب یافتہ ہیں۔
میرے اساتذہ میری شخصیت کے معمار
استاد کی اہمیت اور عظمت سے جڑا دوسرا موضوع یہاں ”اساتذہ میری شخصیت کے معمار“ ہے۔ یعنی میں لکھنے پڑھنے اور علم و ادب کے حوالے سے جو کچھ بھی ہوں، میرے شخصیت کے معمار میرے وہ اساتذہ ہیں جن سے میں نے پرائمری اسکول سے لے کر جامعہ تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ مجھے ہر ہر مرحلے پر قابل اور مہربان اساتذہ میسر آئے۔ جن کی رہنمائی اور سرپرستی میں مَیں نے تدریس، تصنیف و تالیف، علم وا دب اور ترسیل علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، نصابی ضرورت کے لیے پڑھنے کے علاوہ دیگر موضوعات پر مطالعہ کی عادت کو اپنی عادت بنایا۔ بعض اساتذہ کی شخصیت، ان کے عمل کو، ان کے
ظاہری طور طریقوں کو، ان کے انداز گفتگوسے مَیں نے بہت کچھ سیکھا اور پھر اس پر عمل بھی کیا۔
میرے اولین اساتذہ میری ماں اور والد صاحب
دنیا میں میری آمد کے بعد میری استاد میری ماں تھیں، جی ہاں میری ماں۔ جس نے مجھے ہنسنا سیکھایا، اشاروں سے مجھے اپنی جانب راغب کیا۔ بعد میں اس عمل میں میرے والد گرامی بھی شامل ہوگئے۔،اس طرح میرے اولین استاد میرے والدین ہیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھا چکا ہوں کہ اسلام نے استاد کو روحانی باپ کا مرتبہ دیا ہے۔ ماں کی آغوش سے علم سیکھنے کا آغاز ہوتا ہے۔ اسلام میں ماں کے اس عمل کے نتیجے میں اسے سو معلموں کے مساوی درجہ عطا کیا گیاہے۔ماں باپ کے بعد باقاعدہ اساتذہ میسرے آتے گئے اور مجھ ناچیز کی صلاحیتوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔
جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی علم بھی بڑھتا گیا
اساتذہ ملتے گئے علم کا خزانہ بڑھتا گیا
پرائمری تعلیم اور اساتذہ اورابو ظفر ذین آزاد بن طاہر مرحوم
میں نے پرائمری تعلیم ایک نجی اسکول غازی محمد بن قاسم اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول کے روح رواں ابو ظفر ذین جو آزاد بن طاہر کے نام سے معروف تھے۔ تھے۔ وہ اسکول کے صدر مدرس بھی تھے، مالک بھی۔ میری رہائش ابتداء میں بہار کالونی میں پھر آگرہ تاج کالونی میں تھی اے مسان روڈ کہا جاتا تھا۔ یعنی قیام پاکستان سے قبل یہاں ہندو اپنے مردوں کو جلایا کرتے تھے۔ ہمیں ایسے شواہد نظر نہیں آئے۔ اسکول آج بھی سرکاری اسکول کی حیثیت سے اسی عمارت میں قائم ہے۔یہ چاردیواری ہندو ں کا مسان گھاٹ تھا۔ نہیں معلوم کس طرح آزاد بن طاہر صاحب نے حاصل کیا، اس میں اسکول قائم کیا، یہاں ان کی رہائش بھی تھی۔
ٓزاد بن طاہر کا تعلق ہندوستان کے علاقے بہار شریف سے تھا۔انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ مجھے سب سے پہلے اساتذہ میں سے اگر کسی نے متاثر کیا تو وہ آزاد بن طاہر مرحوم ہی تھے۔ لمبا قد، سمٹا ہوا بدن، دبلے پتلے، کھڑی ناک، ہمیشہ سفید پاجامہ اور سفید کرتا ذیب تن ہوتا۔ان کی ایک خصوصیت بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان کی شریک حیات محترمہ عطیہ ظفر تھیں جو شادی کے وقت میٹرک یا شایدسیکندری پاس تھیں، آزاد صاحب نے انہیں پڑھنے کی ترغیب دی چنانچہ انہوں نے انٹر کرنے کے بعد ایم بی بی ایس کیا اور ڈاکٹر کے مرتبہ پر فائز ہوئیں، اسکول کی دکانوں میں ڈسپنسری قائم کی، ہمارا گھر کیوں کہ نذدیک ہی تھا چنانچہ وہ ہماری فیملی معالج بھی تھیں۔ آزاد صاحب کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے تمام بیٹے اوربیٹیاں ہی نہیں بلکہ پوتے، پوتیاں، نواسے اور نواسیاں جن کی تعداد چالیس کے قریب بنتی ہے ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے بیٹوں میں ڈاکٹر ٹیپوسلطان، ڈاکٹر سراج الدولہ اور پروفیسر ڈاکٹر شیرشاہ معروف ڈاکٹر ہیں۔ملیر میں ڈاکٹر عطیہ ظفرکے نام سے اسپتال اور دیگر میڈیکل کے ادارے قائم ہیں۔
سیکنڈری تعلیم اور اسکول کے اساتذہ
پرائمری کے بعد سیکنڈری اسکول میں داخلے کا مرحلہ آیا تھا اسکول کاانتخاب پی اے ایف ماری پور (اب یہ پی اے یف بیس مسرور ہے) کے گورنمنٹ اسکول میں داخلہ ہوگیا۔ یہ اسکول بیس کے کیمپ نمبر2 میں تھا اور اب بھی ہے۔ اسکول کا ماحول ہر اعتبار سے مثالی نیم فوجیانہ تھا۔ اسکول کے طالب علموں کی اکثریت ائر فورس کے ملازمین کے بچوں کی تھی، کچھ دیگر بھی مجھ جیسے تھے۔ سیکنڈری اسکول میں جناب محمد احمد قریشی، محمد احمد صدیقی،جناب افسر صاحب مسیز شمیم، مسیزمرتضیٰ اور دیگرنے متاثر کیا۔ میٹرک اسکی اسکول سے1966ء میں کیا۔
کالج کا زمانہ فیض احمد فیضؔ کی سرپرستی
زندگی کی میری بس اتنی سی کہانی ہے
شروع فیض سے ختم حکیم سعید پر ہوتی ہے
جب بھی مڑ کر دیکھتا ہوں زندگی کو اپنی
کبھی اپنی کبھی کسی اور کی کہانی لگتی ہے
ایف ایس سی سندھ مسلم کالج سے کیا،یہاں پروفیسر کوہاٹی پرنسپل ہوا کرتے تھے، لحیم شحیم، صحت مند اور با رُعب انسان تھے، ان کے سامنے کوئی پرندہ پر نہیں مارسکتا تھا، جوں ہی ان کی گاڑی کالج گیٹ کے سامنے آکر رکا کرتی نیچے سے اوپر تک سناٹا چھا جا یاکرتا، کالج کے اساتذہ میں پروفیسر اویس احمد ادیب، پروفیسر اسحاق اور پروفیسر چودھری صاحب اردو کے استاد ہوا کرتے تھے،پروفیسر سید لطف اللہ صاحب تاریخ اسلام
پڑھا یاکرتے تھے، یہ بعد میں میرے ساتھی اور دوست بھی ہوئے۔پروفیسر اویس احمد ادیب معاشیات پڑھایا کرتے تھے انتہائی قابل اور پڑھانے کا انداز بہت ہی منفرد تھا۔
فیض احمد فیض ؔ
بی اے حاجی عبد ا للہ ہارون کالج سے کیا، یہاں ہمارے پرنسپل فیض احمد فیضؔ صاحب تھے۔ فیض صاحب پر میرا خاکہ ’فیضؔ میرا پرنسپل‘ میری خاکوں کی کتاب’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ میں شامل ہے۔ دھیمے لہجے کے ساتھ ساتھ دھیمہ پن ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔یہاں میرے اساتذہ میں یونس صدیقی صاحب، پروفیسرریاض الحسن قدوائی صاحب جو بعد میں کالج کے پرنسپل اور قریبی دوست بھی
ہوئے،پروفیسر شفیق رحمانی صاحب اور دلاور فگار شامل ہیں شامل ہیں۔
جامعہ کراچی اور اساتذہ
جامعہ کراچی کے اساتذہ میں پروفیسر ڈاکٹر عبدعبدالمعید، پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید، پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری تھیں۔ڈاکٹر عبد المعید کی علمیت و قابلیت بامِ عروج پر تھی، بلا کا حافظہ، ذہین اور اچھا بولنے والے تھے، ڈاکٹر انیس خورشید اپنی بیماری کے باعث دھیمی آواز کے مالک تھے لیکن ان کا قلم بلا کا تیز رفتار تھا، بہت لکھا اور بہت خوب لکھا، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری اور ڈاکٹر سید جلا الدین حیدر اچھے استاد تھے، آخر میں ان سے دوستانہ مراسم ہوگئے تھے۔
ڈاکٹر عبد المعید اورڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری
ڈاکٹر عبدالمعید میرے ان اساتذہ میں سے تھے جن کی شخصیت، علمیت اور قابلیت نے میری پیشہ ورانہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، میں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا۔معید صاحب کو پہلی بار دیکھ کر میرا تاثر یہ تھا کہ یہ ایک عام انسان نہیں بلکہ علمیت اور قابلیت کے اعلیٰ مرتبے پرفائزان چند انسانوں میں سے ہیں جوصدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کا حافظہ زبر دست تھا، کتب خانوں کی تاریخ کے حوالے سے آپ کو تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ تاریخیں بھی یاد تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک کہنہ مشق اور قابل استاد اور ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ تقریر کے فن سے خوب واقف تھے
سبزواری صاحب نے اپنی آپ بیتی ”کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گہر ہونے تک“ میں میرے بارے میں لکھا”رئیس میاں ماشاء اللہ تقریر و تحریر میں ماہر القادری ہیں۔ سوانح نگاری میں کمال حاصل کیا ہے۔ اختر صدیقی صاحب،محمد عادم عثمانی صاحب، میری اور کئی حضرات کے سوانحی خاکے اور مضامین کی شکل میں شائع کر چکے ہیں۔ اپنے پر دادا شیخ محمد ابرہیم آزادؔ صاحب کا دیوان اپنے چچا مغیث احمد صمدانی صاحب کی خواہش پر
دوبارہ شائع کیا ہے“۔ ڈاکٹر سبزواری کی بڑائی تو دیکھیے کہ اپنی آپ بیتی پر مجھ سے’اظہاریہ‘ لکھوایا۔ کیوں کہ استاد کا حکم تھا اس لیے تعمیل کی اور اس آپ بیتی کے بارے میں لکھا ”یہ آپ بیتی ڈاکٹر سبزواری کی73 سالہ زندگی کی یادوں، ذاتی تاثرات و مشاہدات اور تجربات کی ایک حسین، دلچسپ، تاریخی و سماجی واقعات کی دستاویز ہے۔ اس میں مصنف کے حوالہ سے واقعات بھی ہیں، تاثرات بھی،، تجربات بھی ہیں مشاہدات بھی،شخصیات بھی ہیں ادارے بھی، والدین بھی ہیں بہن بھائی بھی، شریک سفر بھی ہے بچے بھی، دوست بھی ہیں رشتے دار بھی،استاد بھی ہیں شاگرد بھی، محبوب بھی ہیں محبان بھی، الغرض اس آپ بیتی کی صورت میں ڈاکٹر سبزواری کی یادوں کی بارات چھم چھم کرتی چلی آئی ہے“۔
پی ایچ ڈی (جامعہ ہمدرد)پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری
وقت گزرتا گیا ہماری عمر عزیز 53کی ہوچکی تھی،پڑھائی کا بھوت بدستو رہمارے سر پر سوار تھا، کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے،ہم مسلسل اس چکر میں رہے کہ کسی طرح پی ایچ ڈی کرنے کا موقع مل جائے، نہ معلوم کیوں جیسے جیسے ہمارے مضامین اور کتابیں منظر عام پر آرہی تھیں پی ایچ ڈی کرنے کی ہوس بڑھتی ہی جارہی تھی، یہاں آکر دوستوں نے ہری جھنڈی دکھا دی، وہ دوست جواس پوزیشن میں تھے کہ ہمارا ہاتھ تھام لیتے، تیرنا تو ہم نے خود ہی تھا، بس ڈوبتے کو تنکے کے سہارے والی بات تھی، انہوں نے ایسی کنی کاٹی کے خود تو تیر کر ساحل پر جالگے، ہم رہ گئے وہیں پرکھڑے کے کھڑے، پرہمارے باطن میں جو دیا روشن ہوا تھا اس کی روشنی ماند نہیں پڑی،ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری، ایک جانب عمر کے ماہ و سال ہمیں تیزی سے بڑھاپے کی جانب رواں دواں کیے ہوئے تھے دوسری طرف خواہش تھی کہ اس میں ذرہ برابر کمی نہیں آرہی تھی بلکہ روزبہ روز جوان ہی ہورہی تھی، با لآخِر 2003ء نے دستک دی، میرا ہمدرد یونیورسٹی میں جانا ہواہی کرتا تھا،بیت الحکمہ(ہمدرد لائبریری) کے ڈائریکٹرپروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری جوہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیزاینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر اور جامعہ ہمدرد کے ’لائف پروفیسر‘ بھی تھے،میری ان سے مراسم کی نوعیت قدیمی تھی، عمر کے فرق کے باوجود دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دن ان سے تحقیق پر گفتگو ہوئی، میَں نے ایک موضوع کا اظہار کیا کہ اس موضوع پر کام کیا جاسکتا ہے،ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پی ایچ ڈی سے نیچے بات نہیں ہوگی یعنی ایم فل نہیں کروں گا، انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور مجھے اس موضوع پر synopsis تیار کرنے کو کہا، میَں تو تیار ہی بیٹھا تھا اور ٹاپک بھی اپنی پسند کا، پھر کیا تھا، رات دن لگا کرایک خاکہ تیار کیا اوران کے پاس لے گیا۔ انہوں نے معمولی سی کانٹ چھانٹ کی اور پی ایچ ڈی کا پہلا پتھر رکھ دیا گیا، داخلے سے پہلے ہی کام بھی شروع ہوگیا، جب بھاری بھر کم سپر وائیز رہنمائی کے لیے تیارہو تو پھر کیا چاہیے تھا، ہم نے
کام شروع کردیا۔ آمین۔میں نے حکیم محمد سعید شہید کی شخصیت اور ان کی کتاب و کتب خانوں سے تعلق کو اپنے پی ایچ ڈی مقالے کا موضوع بنایا۔ الحمد اللہ حکیم صاحب شہید اولین پی ایچ ڈی تحقیق کا اعزاز حاصل ہوا۔
ٍ جون2003ء میں کام شروع کر دیا گیا، میَں نے فیصلہ کیا کہ دو سال میں کام مکمل کر لونگا، یہی ہوا، میَں رات رات بھر کام میں لگا رہتا،مجھے مواد کے حصول میں مشکل پیش نہیں آئی، میری ذاتی لائبریری میں اس موضوع پر وافر مواد موجود تھا، 2006 ء میں تھیسس جمع کرا دیا، تھیسس تو مکمل ہوگیا لیکن جاتے جاتے مجھے ایک ایسا تحفہ دے گیا جو میری باقی ماندہ زندگی میں میرے ساتھ رہے گا وہ ہے میرے کمر کے مہروں کی تکلیف، مسلسل اور زیادہ کمپیوٹر پر کام کرنے کے نتیجے میں میَں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا مریض بن چکا تھا۔ مارچ 2009ء میں میَں ریٹائر بھی ہوا اور مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری صاحب جو میری باقاعدہ تعلیم کے استاد تھے انہوں نے ہر طرح میری مدد کی، حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ جامعات میں پی ایچ ڈی کے حوالے سے بے شمار قسم کی مشکلات آتی ہیں وہ ان سے خود ہی نبرد آزما ہوتے رہے۔ اب زبیری صاحب اللہ کو پیارے ہوچکے، اللہ پاک ان کی مغفرت
فرمائے۔
آخر میں حلقہ احباب ذوق (گلشن معمار) کے منتظمین و ذمہ داران کا بے حد شکریہ خاص طور پر فاروقی برادران کا مشکور ہوں کہ انہوں استاد کے عالمی دن کے موقع پر مجھے اپنے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کی سعادت فراہم کی۔ بہت شکریہ!
اساتذہ کے احسانات کا شکر ادا کبھی ہو سکتا نہیں
یارب سب استاد رہیں ترے سایہ رحمت میں
(4اکتوبر2022ء)



Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273569 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More