|
|
کراچی جو کہ ملک کا سب سے بڑا میٹرو پولیٹن شہر ہے مگر
اس شہر کے ساتھ جو سوتیلا سلوک گزشتہ تیس سالوں سے روا رکھا جا رہا ہے اس
نے اس شہر کے مکینوں کو شدید احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔ |
|
لاہور کے اورنج لائن منصوبے کے بعد پشاور کے لوگوں کے
لیے بی آر ٹی منصوبہ یہاں کے شہریوں کے لیے ایک خواب کی مانند بن گیا تھا۔
سندھ گورنمنٹ کے بڑے بڑے وعدے اور اس کے بعد ان پر عمل پیرا نہ ہونے کی
روایت نے یہاں کے شہریوں کو اس بات کا احساس دلا دیا تھا کہ ان کا نصیب وہی
پرانی بسیں ہیں جس میں سفر کے لیے کنڈیکٹر کے طعنے٬ پھٹی ہوئی سیٹیں، روکنے
کے لیے دروازے پیٹنا اور رش زیادہ ہونے پر ڈنڈا پکڑ کر لٹکنا یا چھت پر چڑھ
کر بیٹھنا ہی ان کا نصیب ہے- |
|
پیپلز بس سروس یا ریڈ بس
|
جب سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کی سڑکوں پرریڈ بس لانے کا اعلان کیا گیا
تو کراچی کی عوام کو اس اعلان پر بھی زيادہ خوشی نہیں ہوئی کیوں کہ ماضی کی
روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو یقین تھا کہ جلد ہی یہ بسیں کسی نہ کسی
بڑی شخصیت کے گودام میں کھڑی اسکریپ میں تبدیل ہو جائيں گی اور اس کے بعد
ہر روٹ پر موجود منی بسوں کی بلیک میلنگ میں اضافہ ہو جائے گا- |
|
|
|
لیکن یہ اگر ہونا بھی ہے تو ابھی کچھ دن سکھ کے کراچی
والوں کے نصیب میں آئے ہیں تو ان کو چاہیے کہ یہ سب ہونے سے قبل کم از کم
ایک بار تو کراچی کی اس ریڈ بس میں سفر کر لیں تاکہ ان کو بھی پتہ چل سکے
کہ حقیقت میں بس میں سفر کرنے پر کون کون سی سہولیات ایک حق کی طرح ان کو
مل سکتی ہے- |
|
ریڈ بس کا کرایہ |
چونکہ یہ بسیں حکومت کی جانب سے چلائی جا رہی ہیں جس کو
وہ سبسڈائیذڈ بھی کر رہے ہیں اس وجہ سے اس کا کرایہ صرف 50 روپے رکھا گیا
ہے جو کہ منی بسوں کے کرائے کے مقابلے میں کافی کم ہے کیوں کہ منی بس اس کے
مقابلے میں اس سے دگنا کرایہ وصول کر رہی ہیں- |
|
تو کراچی والوں کو بہت ہی خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا
پڑتا ہے جب کہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس ان کے بس میں چڑھنے پر ادب سے ان
کے سامنے ایک ٹکٹ پیش کرتا ہے اور اس کے بدلے میں پچاس روپے وصول کرتا ہے- |
|
یہ کنڈیکٹر نہ تو بدتمیزی سے یہ کہتا ہے کہ
کہاں جانا ہے اور یہاں کا کرایہ اتنا ہوگا اور نہ ہی یہ کہتا ہے کہ ڈنڈا
پکڑ کر آگے آگے ہو جاؤ بھائی- |
|
ٹھنڈی اور پر سکون فضا
|
منی بس میں دھوئيں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے اٹھنے والے گرد
و غبار کے ساتھ سفر کرنے والے کراچی کے رہائيشیوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز
منظر ہوتا ہے کہ وہ جب بس میں داخل ہوں تو وہاں کا ٹھنڈا اے سی ان کا
استقبال کرے جس کی ٹھنڈک ان کو بس سے اترنا ہی بھلا دیتی ہے- |
|
پرسکون ماحول میں ان کو کھڑے ہو کر سفر کرنا بھی برا
نہیں لگتا ہے اور ان کا دل چاہتا ہے کہ جب بھی گھر کی لائٹ جائے وہ اس بس
میں بیٹھ کر پچاس روپے دے کر آخری اسٹاپ تک سفر کریں اور سوتے ہوئے جائيں
اور اسی طرح 50 روپے دے کر واپس آجائيں اور صرف 100 روپے میں سارا دن خوش
رہیں- |
|
|
|
موبائل چارجر
کی سہولت |
جی جی ہم نے ٹھیک کہا موبائل چارجر کی سہولت
بھی اس بس میں موجود ہے ورنہ اس سے قبل باقی بسوں میں تو موبائل کے چھن
جانے کا ڈر رہتا تھا تو اس بس میں ایسے پوائنٹ موجود ہیں جہاں پر آپ اپنی
ڈيٹا کیبل کی مدد سے اپنا موبائل بھی چارج کر سکتے ہیں۔ جب بھی اس بس میں
بیٹھیں اس چارجر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کراچی کے بجائے
دبئی میں سفر کر رہے ہیں- |
|
بھائی اسٹاپ پر
روکنا کہنے کی ضرورت بھی نہیں |
عادتیں پختہ ہو جائيں تو ان سے جان چھڑانا مشکل
ہوتا ہے یہی حال کراچی والوں کا بھی ہے ریڈ بس میں سفر کرتے ہوئے ابھی بھی
کسی نہ کسی کونے سے یہ آواز آتی ہے روکنا بھائی اسٹاپ پر، حالانکہ اس بس
میں ایسا کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اس میں ایسے بٹن لگے ہیں جن کو
دبانے سے ایک گھنٹی بجتی ہے اور ڈرائيور کو خود بخود پتہ چل جاتا ہے کہ
یہاں اس نے بس روکنی ہے اور دروازہ آٹومیٹک طریقے سے کھولنا ہے تاکہ وہ
مسافر اتر سکے- |
|
کراچی والوں کے لیے ریڈ بس ایک نعمت کی صورت ہے
کیوں کہ کراچی کو ایک جدید ٹریفک کے نظام کی ضرورت کئی دہائيوں سے تھی-
اگرچہ یہ ریڈ بسیں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں مگر امید کی جاتی ہے
کہ یہ بسیں اپنا سفر جاری رکھیں گی اور سندھ حکومت اس کو مزید بہتر بنائے
گی- |