وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی توجہ کے لیے

انگریزوں نے برصغیر پاک وہند میں بیشک اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے ہی سہی ۔دشوار گزار علاقوں میں بھی ریلوے سسٹم کو تعمیرکرکے یہاں کے رہنے والوں پر احسان عظیم کیا تھا ۔پاکستان میں بھی ریلوے سسٹم موجود تو ہے لیکن عدم توجہی کی بناپر اس کی حالت دن بدن بگڑتی جارہی ہے ۔ بیشمار برانچ لائنوں پر ٹرین چلنا بند ہو چکی ہے اور ریلوے املاک چوروں کے سپرد ہو چکی ہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک بتیس افراد مختلف ادوار میں ریلوے کے وزیر بنے لیکن کسی ایک نے بھی ریلوے ٹریک کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی 1897ء کے بنے ہوئے دریاؤں اورنہروں کے پلوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کسی کو توفیق ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ وزیرآباد کے قریب ایک فوجی ٹرین کے کئی بوگیاں بڑی نہر میں جا گریں اور فوج کے کتنے ہی افسر اور جوان اس حادثے میں شہید اور زخمی ہوئے ،چند دن انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی پھرتیاں دیکھنے میں آتی رہیں اس کے بعد چیف انجینئر سمیت تمام عملہ پھر لمبی تان کے سو گیا ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ملتان سے حیدر آباد تک ریلوے ٹریک کی بوسیدگی کی بناپر ہی درجنوں حادثات ہو چکے ہیں۔ ان حادثات میں سینکڑوں انسان ہلاک ہوچکے ہیں ۔انجن اور بوگیوں کی تباہی کی شکل میں جو مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے وہ اس کے علاوہ ہے ۔مزید برآں جن سیکشنوں پر ٹرین چلنا بند ہو چکی ہے وہاں تمام املاک اور تنصیبات سمیت ہزاروں ایکڑ اراضی بھی لاوارث پڑی ہوئی ہے۔میری مراد بہاولنگر، ہارون آباد ، چشتیاں ،فورٹ عباس، چکوال اور لکی مروت سے ہے۔ایسے ہی اور بھی مقامات یقینا موجود ہونگے جہاں اسٹیشنوں کی بوسیدہ عمارتیں تو کسی نہ کسی حالت میں موجود ہیں لیکن ٹریک اور تنصیبات کو غائب کردیا گیا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ریلوے ،پاکستان میں ایک لاوارث محکمہ ہے ،جو ریلوے پولیس حفاظت کے لیے تعینات ہے اسی کی چشم پوشی کی بناپر املاک کو ہر جگہ نقصان پہنچتا ہے۔کچی آبادیوں کا وجود توانہی کی محنتوں کا ثمر ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جتنے بھی افراد ریلوے کے وزیر بنے، انہوں نے ریلوے کو جدید پر استوار کرنے کی بجائے من پسند افراد کو اہم ترین عہدوں پر فائز کرنا ضروری سمجھا۔اسی تناظر میں اخبارات میں مجھے خواجہ سعدرفیق کا یہ بیان پڑھنے کو ملا کہ میں نے وزارت سنبھالنے سے پہلے وزیراعظم میاں محمد شہبا زشریف کو صاف لفظوں میں کہہ دیاہے کہ کوئی بھی شخص ریلوے میں ملازمت دینے کی سفارش نہ کرے۔مجھے یاد ہے کہ ۔پچھلے دور میں بھی خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی وزارت کا چارج لیا تھا تو اس وقت ریلوے بربادی کی انتہاء پر پہنچ چکی تھی مسافر ریلوے سے روٹھ چکے تھے ، اسٹیشن ویران ہو چکے تھے ،کچھ لوگوں نے یہ بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ جس نے ٹرین پر سفر کرنا ہے وہ اپنی ذمہ داری پر کرے ۔وہ زندہ منزل مقصد تک پہنچ بھی جائے گا یا نہیں ۔اس کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ۔لیکن خواجہ سعد رفیق نے چند سالوں میں ایک بار پھر ریلوے کو نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا بلکہ روٹھے ہوئے مسافروں کو ٹرین پر سفر کرنے پر آمادہ بھی کرلیا۔میں ان کی توجہ دو اہم مسائل کی جانب دلانا چاہتا ہوں ۔ایوب دور میں لاہور سے خانیوال تک بجلی کا ایسا سسٹم تعمیر کیا گیا تھا جس پر اس وقت کے اربوں روپے خرچ ہوئے تھے ،ٹریک کے دونوں جانب 25ہزار واٹ بجلی کی لائنیں بچھائی گئی تھیں ،اور بجلی سے چلنے والے انجن بھی بھاری زرمبادلہ خرچ کرکے منگوائے گئے تھے ۔ 1999ء تک بجلی سے چلنے والی ٹرینیں کامیابی سے رواں دواں رہیں۔ لاہور اور خانیوال میں ان انجنوں کی شیڈز بھی تعمیر ہوئیں ۔پھر نہ جانے کیا ہوا ۔بجلی سے چلنے والی ٹرینیں بند کردی گئیں ۔ اور الیکٹرک انجنوں کو کھڈے لائن لگا دیا گیا لیکن لاہور سے خانیوال تک 25ہزار واٹ والی بجلی کی تاریں کہاں گئیں ،آج تک اس کا سراغ نہیں مل سکا ۔یہ اربوں روپے مالیت کا سیکنڈل ہے ۔ریلوے پولیس جس کی ذمہ داری میں ریلوے املاک کی حفاظت ہے وہ اپنے فرائض سے غافل رہی ۔ دوسرا مسئلہ کراچی سے پشاور تک ریلوے کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر کچی آبادیوں کی بے جا تعمیر ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جس کا جہاں جی چاہتا ہے ریلوے پولیس کی مٹھی گرم کرکے زمین پر قبضہ کرلیتا ہے ۔کچی آبادیوں کو ختم کرنا تو ناممکن ہے، اس لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ گورنمنٹ ریٹ پر قابضین سے قسط وار پے منٹ لے لی جائے اور انہیں اپنی زیر قبضہ زمین کی رجسٹریاں دے دی جائیں ۔اس طرح ریلوے مالی طور ایک مستحکم ادارہ بھی بن جائے گااورقابضین کے سروں پر عدم تحفظ کی تلوار بھی لٹکنا بند ہو جائے گی اور وہ اپنے گھروں کے حقیقی مالک بن جائیں گے۔ ریلوے کو جدید بنانے کے لیے مالی وسائل بھی میسر آسکیں گے ۔خواجہ سعد رفیق جیسے مخلص اور دیانت دار وزیر سے ہمیشہ اچھائی کی توقع رکھنی چاہیئے۔جنہوں نے نہ پہلے مایوس کیا تھا اور نہ اب کرینگے۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.