گوگل پلے سٹور سے ایپ کی ڈاؤن لوڈنگ پر پابندی پاکستانی صارفین کو کیسے متاثر کرے گی؟

image
 
پاکستان کے سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈائریکٹ کیریئر بلنگ (ڈی سی بی) یعنی براہ راست ادائیگیوں کے نظام کو معطل کر دیا گیا ہے جس کے بعد پاکستانی صارفین اپنے موبائل فون اکاؤنٹ میں موجود رقم کے ذریعے گوگل پلے سٹور سے اپلیکیشنز (ایپس) ڈاون لوڈ نہیں کر سکیں گے۔
 
تاہم صارفین کو ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے گوگل پلے سٹور سے ایپس ڈاون لوڈ کرنے کی سہولت میسر ہوگی۔
 
پاکستان میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں اس کی نشاندہی کی گئی کہ ادائیگی کے اس نظام کی معطلی سے پاکستان میں عالمی اداروں گوگل، ایمازون اور میٹا وغیرہ کی جانب سے پیش کی جانے والی خدمات متاثر ہوں گی اور اس سے ملک کے ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
 
اگرچہ پاکستان میں صارفین کے پاس کریڈٹ اور اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے ادائیگی کا آپشن موجود ہے تاہم پاکستان میں گوگل پلے سٹور سے ایپس ڈاون لوڈ کرنے والے بہت کم صارفین یہ سہولت استعمال کرتے ہیں جبکہ ڈی سی بی کے ذریعے صارفین کے فون میں موجود ری چارج سے ٹیلی کام کمپنی کسی ایپ کے ڈاون لوڈ کرنے پر پیسے کاٹ کر کے اپنے بینک کے ذریعے بین الاقوامی اداروں کو ادائیگی کر دیتی ہے۔
 
image
 
پاکستان میں ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سے ڈی سی بی کے ذریعے ادائیگی کا معطل ہونا تیکنیکی طور پر تو صحیح ہے تاہم اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ گذشتہ 10، 12 سالوں سے یہ نظام چل رہا تھا اور اس کے ذریعے کوئی بہت بڑا زرمبادلہ پاکستان سے نہیں جا رہا تھا کہ جس کی بنیاد پر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔
 
ان ماہرین کے مطابق ادائیگی کے اس نظام کی معطلی سے آئی ٹی کا شعبہ کسی حد تک متاثر ہو سکتا ہے جس میں خاص کر فری لانسرز اور چھوٹے کاروبار ہیں جو ان ایپس کے ذریعے اپنی مارکیٹنگ اور سیلز کرتے ہیں۔
 
دوسری جانب وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس سلسلے میں سٹیٹ بینک کی جانب سے ادائیگی کے نظام کی معطلی پر وفاقی وزارت خزانہ کو کہا ہے کہ وہ مرکزی بینک سے اس سلسلے میں بات کرے ورنہ یکم دسمبر سے ڈائریکٹ ادائیگی کے نظام کے ذریعے ایپس ڈاون لوڈ کرنا معطل ہو جائے گا۔
 
سٹیٹ بینک کی جانب سے کیا اقدام اٹھایا گیا ہے؟
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے ڈی سی بی کی معطلی اور اس کے بعد ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے اس پر اعتراضات کے بعد ایک پالیسی بیان جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق ملک کے اداروں کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے سٹیٹ بینک نے آئی ٹی سے متعلق بعض خدمات کی تخصیص کی جو ایسے ادارے اپنے استعمال کے لیے بیرون ملک سے خرید سکتے ہیں اور وہاں ایک لاکھ امریکی ڈالر فی انوائس تک زر مبادلہ میں ادائیگیاں کیا جا سکتا ہیں۔
 
ان خدمات میں سیٹلائٹ ٹرانسپونڈر، انٹرنیشنل بینڈ وتھ، انٹرنیٹ، پرائیویٹ لائن سروسز، سوفٹ لائسنس، مین ٹیننس، سپورٹ، اور الیکٹرانک میڈیا اور ڈیٹا بیسز استعمال کرنے کی سہولت شامل ہیں۔ اس آپشن کو استعمال کرنے کے خواہاں ادارے ایک نامزد بینک کا تعین کرتے ہیں جس کی سٹیٹ بینک ایک بار منظوری دیتا ہے۔
 
بعد میں، اس تعین کے بعد یہ ادائیگیاں متعین کردہ بینک کے ذریعے مزید کسی ضوابطی منظوری کے بغیر کی جا سکتی ہیں۔
 
تاہم حالیہ آف سائٹ جائزوں کے دوران یہ دیکھا گیا کہ اپنے استعمال کے لیے آئی ٹی سے متعلق خدمات کے لیے رقوم منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی کام کمپنیاں ویڈیو گیمنگ، تفریحی مواد وغیرہ کے لیے، جو ان کے صارفین ڈائریکٹ کیریئر بلنگ (ڈی سی بی) کے ذریعے ایئر ٹائم استعمال کر کے خریدتے ہیں، زیادہ تر رقوم منتقل کر رہی ہیں۔
 
ڈی سی بی عمومی طور پر آن لائن موبائل ادائیگی کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے استعمال کنندگان اپنے موبائل فون کیریئر بل میں ادائیگیاں کر کے خریداری کر سکتے ہیں۔
 
image
 
کمپنیاں اپنے صارفین کو مذکورہ بالا مصنوعات ایئرٹائم کے ذریعے خریدنے کی اجازت دے رہی تھیں اور پھر ان ٹرانزیکشنز کو آئی ٹی خدمات کی خریداری کی ادائیگیوں کے طور پر ظاہر کر رہی تھیں۔
 
اس طرح کمپنیاں عملاً اپنے سبسکرائبرز کی جانب سے خدمات کی خریداری میں سہولت دے کر بطور ثالث انٹرمیڈیری، پیمنٹ ایگریگیٹرز کے طور پر کام کر رہی تھیں۔
 
اس لیے زرمبادلہ ضوابط کی خلاف ورزی کے پیش نظر سٹیٹ بینک نے ان ادائیگیوں کے لیے ٹیلکوز کے بینکوں کے تعین کو منسوخ کر دیا۔
 
تاہم ان کی جائز آئی ٹی سے متعلقہ ادائیگیوں میں سہولت دینے کے لیے ٹیلکوز کو ان کے بینکوں کے توسط سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی درخواستیں دوبارہ دائر کریں۔
 
ٹیلی کام کمپنیوں کا کیا اعتراض ہے؟
پاکستان میں کام کرنے والی چار ٹیلی کام کمپنیوں زونگ، ٹیلی نار، یو فون اور جاز کی جانب سے مرکزی بینک کی جانب سے ڈی سی بی کے ذریعے ادائیگی کی منسوخی کے بعد ایک مشترکہ خط لکھا گیا۔
 
اس خط کے مندرجات کے ذریعے ان کمپنیوں نے نشاندہی کی ہے کہ ڈی سی بی کی منسوخی کے بعد ٹیلی کام کمپنیوں کو انفرادی طور پر بینکوں کے ذریعے ان پیمنٹ کی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس میں تاخیر ہو رہی ہے جب کہ ملک میں آئی ٹی اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔
 
ان کمپنیوں نے پاکستان میں ڈیجیٹل اکانومی بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مہیا کی گئی خدمات پر انحصار کرتی ہے اور گوگل، ایمازون، میٹا وغیرہ کو اس سے ادائیگی متاثر ہو رہی ہے جس کا نتیجہ ان کی سروسز کی معطلی کی صورت میں برآمد ہوگا جس کی وجہ سے صارفین بین الاقوامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی سہولت سے محروم ہوں گے۔
 
کمپنیوں کی جانب سے کہا گیا کہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سیلز اس سے متاثر ہو گی جس سے خدمات اور برانڈز متاثر ہوں گے۔
 
کمپنیوں نے کہا کہ اس اقدام سے سوشل میڈیا کے اس دور میں پاکستان کے بارے میں منفی تاثر بیرون ملک جائے گا۔
 
image
 
وفاقی حکومت کا اس پر کیا مؤقف ہے؟
سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈی سی بی کے ذریعے گوگل پلے سٹور سے ایپس ڈاون لوڈ کرنے کے نظام کی معطلی اور اس پر ٹیلی کام کمپنیوں کے اعتراضات کے بارے میں جب وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ روز قبل تمام ٹیلی کام آپریٹرز کے سربراہان نے وزارت آئی ٹی کو خط لکھا اور بعد ازاں ملاقات میں انھوں نے سٹیٹ بینک کی جانب سے ادائیگیاں روکے جانے کی ہدایات کے بارے میں تفصیلی طور پرآگاہ کیا۔
 
ٹیلی کام آپریٹرز کا بھی یہ مؤقف تھا کہ ادائیگیوں کا یہ سلسلہ اسی طریقہ کار سے کئی سال سے جاری ہے تاہم اگر سٹیٹ بینک اس کسی قواعد کے دائرہ کار میں تبدیلی لانا چاہتا ہے تو انھیں اعتراض نہیں لیکن موجودہ ادائیگیاں کرنے کے بعد اس ضمن میں سٹیٹ بینک کی طرف سے کوئی ٹائم فریم دیا جانا چاہیے تاکہ وہ خود کو اس قاعدے کے مطابق لے آئیں۔
 
کیونکہ اچانک ادائیگیاں روکنے سے وہ پیڈ ایپلی کیشنز جن کی بلنگ ٹیلی کام آپریٹرز کے ذریعے کی جاتی ہے وہ بند ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں، اور ان کی تعداد بھی قابل ذکر ہے جبکہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگیوں والی اور فری ایپلی کیشنز بدستور کام کرتی رہیں گی۔
 
وفاقی وزیر کے مطابق ٹیلی کام آپریٹرز نے ان سروسز کے عوض گذشتہ سال قومی خزانے میں پانچ ارب 30 کروڑ روپے جمع کرائے ہیں۔
 
image
 
سید امین الحق کا مزید کہنا تھا کہ اصولی طور پر کسی بھی ادارے کی جانب سے اپنے قواعد اور پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنانے پر نہ کوئی اعتراض ہو سکتا ہے نہ اس میں کوئی قباحت ہونی چاہیے۔ ہماری واضح پالیسی ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام جس سے پاکستانی شہریوں، یہاں کام کرنے والی کمپنیوں کو کوئی نقصان ہو وہ قابل قبول نہیں۔
 
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستانی اداروں کو بھی کوئی پریشانی لاحق ہو، ہر مسئلے کا حل اور طریقہ کار ہے۔ ہماری خواہش یہی ہے کہ اسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے سٹیٹ بینک اپنی پالیسی کے مکمل نفاذ کے لیے ٹیلی کام آپریٹرز کو کوئی ٹائم فریم دے۔‘
 
انھوں نے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اس ضمن میں ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک کو ہدایت کی جائے کہ وہ فوری طور پر ادائیگیوں کو یقینی بنائے اور مستقبل کے لیے کوئی طریقہ کار وضع کرے۔
 
کیونکہ گوگل نے ٹیلی کام آپریٹرز کو خط لکھا ہے کہ اگر ادائیگیاں نہیں کی گئیں تو سروسز معطل کر دی جائیں گی۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ٹیلی کام سیکٹر پہلے سے ہی مسائل کا شکار ہے ہمیں ان مسائل کے حل کے لیے فوری توجہ دینا ہو گی۔
 
سید امین الحق کے مطابق اصولی طور پر جب آپ ڈیجیٹلائزیشن اور ڈیجیٹل پاکستان کی بات کرتے ہیں تو وزارت آئی ٹی و ٹیلی کام نے اس ضمن میں کئی مؤثر اقدامات کیے اور متعدد پالیسیاں بنائی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد دیگر حکومتی اداروں سے مشروط ہوتا ہے لہٰذا ہمارا یہی کہنا ہے کہ کوئی بھی اداراہ یا محکمہ جب آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن کے حوالے سے کوئی اقدام یا پالیسی وضع کرے تو اس سے قبل وزارت آئی ٹی سے لازمی طور پر مشاورت کی جائے۔
 
سٹیٹ بینک کے اقدام سے کیا عام صارفین متاثر ہو سکتے ہیں؟
ٹیلی کام و آئی ٹی شعبے کے ماہر پرویز افتخار نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر تیکنکی طور پر دیکھا جائے تو مرکزی بینک کا اقدام ٹھیک ہے کیونکہ ملک میں ڈالرز کی کمی ہے اور یہ اقدام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ زرمبادلہ کو باہر جانے سے روکا جائے ۔
 
تاہم انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ کئی سالوں سے جاری تھا اور اس کے تحت کوئی چھ کروڑ ڈالر کے لگ بھگ زرمبادلہ پاکستان سے سالانہ طور پر جاتا ہے جب کہ دوسری جانب آئی ٹی سروسز کی برآمدات گزشتہ سال 2.7 ارب ڈالر رہیں۔
 
انھوں نے کہا اس کا اثر تو یقینی طور پر ہو گا لیکن بہت بڑا منفی اثر پاکستان کی آئی ٹی برآمدات پر نہیں پڑ سکتا۔
 
پرویز کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے بنیادی طور وہ نوجوان متاثر ہوں گے جو فری لانسرز کے طور کام کر رہے ہیں اور انھیں کوئی پیڈ ایپ ڈاون لوڈ کرنی ہے تو اب اس نظام کے ذریعے ادائیگی نہیں ہو سکتی۔
 
انھوں نے کہا فری لانسرز کی اکثریت اپنے موبائل فون میں موجود رقم سے ادائیگی کرتی ہے کہ جب کوئی ایپ ڈاون لوڈ کرتے ہیں تو ان کے فون میں موجود رقم سے ٹیلی کام کمپنی پیسے کاٹ کر کے اسے ڈالر کی صورت میں باہر بجھوا دیتی ہے۔
 
انھوں نے کہا پاکستان میں کریڈٹ اور اے ٹی ایم کارڈ بہت کم لوگوں کے پاس ہیں اور جبکہ موبائل فون ہر کسی کے پاس اور وہ اس سے آسانی سے ادائیگی کر لیتا ہے۔
 
انھوں نے کہا فری لانسرز کی اکثریت اپنا روزگار خود کما رہی ہے اور وہ موبائل میں رقم کے ذریعے ایپ ڈاون لوڈ کرنے کی ادائیگی کرتے ہیں جس سے وہ متاثر ہوں گے۔
 
آئی ٹی شعبے کی ماہر عمارہ مسعود نے کہا مرکزی بینک کے اقدام سے آئی ٹی کے شعبے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا تاہم چھوٹے کاروبار کرنے والے اس سے متاثر ہو سکتے ہیں جو ایپس کے ذریعے اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرتے ہیں اور ان کے ذریعے بیچتے ہیں۔
 
انھوں نے کہا کہ یہ چھوٹے کاروباری افراد کے پاس کریڈٹ یا اے ٹی ایم کارڈ کی سہولت اکثر کم ہی ہوتی ہے اور ایپ ڈاون لوڈ کرنے کے لیے ڈی سی بی نظام کا سہارا لیتے ہیں جسی کی معطلی سے ان کی آمدنی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
 
پاکستان فری لانسرز کی دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے اور حکومت کی جانب سے آئی ٹی برآمدات کو 2024 تک تین ارب ڈالر تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: