کوشیاری کے نہلے پر سدھانشو کا دہلا

مہاراشٹر میں شیواجی پر گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اور بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی کے بیانات کو پڑھ کر ’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ‘ کی یاد آتی ہے۔ صوبے کی نئی مخلوط حکومت کو عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے کچھ ایسا کارنامہ کرنا ضروری ہوگیا تھا کہ جو پہلے والی وکاس اگھاڑی کی سرکار سے نہیں ہوسکا ۔ اس مقصد کی حصول کی خاطر برطانیہ سے شیواجی کی تلوار واپس لانے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ ان لوگوں نے سوچا ہوگا رشی سونک کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد یہ کام آسان ہوجائے گا لیکن اس سے پہلے کہ اس جانب کوئی پیشقدمی ہوتی ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ صوبے کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے شیواجی کے نمونے کو فرسودہ قرار دے کرنتن گڈکری کوعصرِ حاضر میں متبادل کے طور پر پیش فرمادیا۔ اس طرح شیوسینا کو سونے کی طشتری میں ایک ایسی تلوار رکھ کر پیش کرنے کے مترادف تھا کہ جس سے وہ بی جے پی کا سیاسی قتل عام کردے ۔

گورنر کی اس احمقانہ حرکت سے گھبرا کر بی جے پی والوں نے کسی طرح اپنا پلہّ جھاڑا تو ان کی حمایت میں نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈ نویس کی زوجہ امرتا کود پڑیں ۔ انہوں نے کہا :’’میں گورنر کوذاتی طور پر جانتی ہوں۔ انہوں نے مہاراشٹر آنے کے بعد مراٹھی سیکھی ۔ وہ مراٹھیوں سے حقیقی محبت رکھتے ہیں ۔ میں نے خود بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن ایسا کئی بار ہوا ہے کہ انہوں نے کچھ کہا اور اس کی کچھ اور تشریح کردی گئی۔ وہ دل سے مراٹھی مانوس ہیں‘‘۔ امرتا فڈنویس کا تجربہ درست ہوسکتا ہے اورگورنر دل دل سے مراٹھی بھی ہوسکتے ہیں ۔ انہیں مراٹھیوں سے محبت بھی ہو سکتی ہے ، بہت ممکن ہے اسی لیے انہوں نے مودی کے بجائے مراٹھی مانوس نتن گڈکری کو عصرِ حاضر میں شیواجی کا متبادل قرار دیا لیکن سوال یہ ہے کہ گورنر صاحب کو شیواجی کا احترام کرتے ہیں یا نہیں؟ اپنے بیان میں انہوں نے شیواجی کی توہین کی یا نہیں؟ کوئی شخص اگر دل سے مراٹھی مانوس ہو تو کیا شیوسینا اس کے ذریعہ اپنے آئیڈیل شیواجی راجہ کی تحقیر برداشت کرلے گی ؟ ادھو ٹھاکرے کا بیان اس کی تردید کرتا ہے ۔

سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے مرکز کو خبردار کیا ہے کہ چار دن میں اگر گورنر کوشیاری کو واپس نہیں بلایا گیا توشیوسینا اس کے خلاف اپنے انداز میں احتجاج کرے گی ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ شیوسینا کا اپنا انداز پرتشدد ہوتا ہے۔امرتا فڈنویس کی حمایت کے بعد ادھو ٹھاکرے نے یاد دلایا کہ پچھلے ہفتہ گورنرکوشیاری نے شیواجی مہاراج کو پرانے دنوں کے آئیکن کہہ کر ان کی توہین کی تھی۔ انہوں نے کوشیاری کو مرکزی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا ایک ’ایمیزون پارسل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر کو یہ پارسل نہیں چاہیے۔ ادھو نے مرکزی حکومت سے استدعا کی چونکہ ہم یہ نہیں چاہتے اس لیے آپ اسے واپس لے لیں اور جہاں مرضی ہو بھیج دیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مرکزی حکومت ریاستوں پر اپنی پسند کے گورنرس کا تقرر کرتی ہے لیکن ایک آئینی عہدے پر فائز ہوجانے کے بعد اس سے غیر جانبداری کی توقع کی جاتی ہے۔ ادھوٹھاکرے نےمرکزی حکومت سے سوال کیا کہ کیا گورنر کوشیاری کے ذریعہ پہلے جیوتی با پھولے اور اب شیواجی مہاراج کی توہین مرکزی حکومت کے جذبات و خیالات کی عکاس ہے؟ مرکزی حکومت کو اس کا جواب دینا ہوگا ورنہ ان کی یہ سوال درست ہو جائے گا کہ کیا گورنر کا عہدہ اولڈیج ہوم جیسا ہوگیا ہے؟

ادھو ٹھاکرے نے گورنر کی واپسی کے لیے دباو بنانے کی خاطر مختلف سیاسی جماعتوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ۔ اس کا نہایت موثر جواب مہاراشٹر کےمعمر ترین سیاسی رہنما شرد پوار کی جانب سے آیا۔ انہوں نے کوشیاری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو اہم عہدہ نہیں دیا جانا چاہیے۔ سابق مرکزی وزیر نے مطابق کوشیاری نے ساری حدیں پ عبور کردی ہیں ۔ نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران شرپوار نے کہا گورنر کی جانب سے کی جانے والی شیواجی کی تعریف و توصیف بہت تاخیر سے سامنے آئی۔ ادھو کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے این سی پی سپریمو نے کہا کہ اب صدر اور وزیر اعظم کو کوشیاری کے بارے ایک حتمی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ بی جے پی کی رعونت دراصل اس کی راہ کا بہت بڑا روڑا ہے۔ اس سے جب کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو وہ توجہ دہانی کے بعد بھی مائل بہ اصلاح ہونے کے بجائے اڑ جاتی ہے اور اپنا نقصان کر بیٹھتی ہے۔ گورنر کوشیاری کو اپنی ناک کا مسئلہ بناکر وہ اپنا ناقابلِ تلافی نقصان کروا رہی ۔ امرتا فڈنویس اور بھگت سنگھ کوشیاری نے مل کر شیوسینا کو جو مدعا عنایت کیا ہے کہ اس کی مدد سے مہاراشٹر میں بی جے پی کی ارتھی اٹھائی جاسکتی ہے ۔

گورنر کے اس تنازع نے ساورکر پر راہل گاندھی کے تبصرے سے پیدا ہونے والی دراڑ کو پرُ کردیا۔ ہندوستانی سیاست میں کانگریس کی مخالفت کے لیے گاندھی جی پر تنقید کرنا جن لوگوں کےلیے ضروری تھا ان کی خاطر ونایک دامود ساورکر حمایت ایک مجبوری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ساورکر کو گاندھی کا متبادل بناکر پیش کیا گیا۔ اس مہم میں شیوسینا سمیت سارے ہندوتوا نواز شامل تھے ۔ راہل گاندھی نے ساورکر کو بزدل کہا تو شیوسینا کے لیے دھرم سنکٹ کھڑا ہوگیا اور اس کے لیے راہل سے خود کو الگ کرنا لازمی ہوگیا۔ اس لیے پہلے ادھو ٹھاکرے نے اور پھر سنجے راوت نے ساورکر کے معافی نامہ والے بیان سے برأت کا اعلان کیا۔ اس کے برعکس گورنر کے ذریعہ شیواجی کی توہین نے مہا وکاس اگھاڑی کے سارے فریقوں کو پھر سے متحد کردیا۔ حالات بدلے تو سنجے راوت نے راہل گاندھی کی تعریف کرکے مہا وکاس اگھاڑی کے ٹوٹنے کا خدشہ دور کردیا ۔ راوت نے کہا یاترا کے دوران ان سے صحت کے متعلق مزاج پرسی کرکے راہل نے قابلِ تحسین انسانیت نوازی کا ثبوت دیا ہے ۔

ساورکر واپر تنقید کو لے کر مدافعت میں آنے والی کانگریس پھر سے جوش میں آگئی ۔ اس کے ترجمان جے رام رمیش نے نامہ نگاروں سے کہا کہ آپ ہمیشہ ہم سے ساورکر پر سوال کرتے ہیں۔ وہ بولے میں بی جے پی رہنماوں، مہاراشٹر کے گورنر اور بی جے پی کے ترجمان سدھانشو چترویدی سے پوچھتا ہوں کہ شیواجی مہاراج کے بارے میں بی جے کا موقف بتائیں؟ انہوں نے الزام لگایا کہ ان لوگوں نے شیواجی مہاراج کے بارے میں کیا نہیں کہا؟ اس لیے کانگریس سے وی ڈی ساورکر پر سوال کرنے کے بجائے بی جے پی سے شیواجی کی بابت استفسار کیا جانا چاہیے۔ جئے رام رمیش نے ساور کر کے بچاو میں شیواجی پر بی جے پی کے ترجمان سدھانشو ترویدی کے جس بیان کی جانب اشارہ کیا ہے وہ تاریخٰی حقیقت ہونے کے باوجود بھی مہاراشٹر کے عوام کو ہرگزقابلِ قبول نہیں ہے اور اگر حزب اختلاف اس کو ٹھیک سے بھنانے میں کامیاب ہوجائے توبی جے پی کو یہ بہت مہنگا پڑے گا۔

ونائک دامود ساورکر کا معافی نامہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس انکار ناممکن ہے۔ اس لیے پروفیسر سدھانشو نے اس کی تردید کرنے کے بجائے اس کو ایک معمولی سی واردات کہہ کرہلکا کرنے کی کوشش کی ۔ یہ موقف کے درست ہونے پر بی جے پی کے ذریعہ راہل کی تنقید بیجا قرار پاتی ہے ۔ ویسے ترویدی نے ساورکر کے معافی نامہ کا جواز فراہم کرنے کے لیے انہوں نے ایک نجی چینل پر مباحثے کے دوران کہا کہ چھترپتی شیواجی مہاراج نے بھی اورنگ زیب کو پانچ خط لکھ کر معافی مانگی تھی۔ راہل گاندھی کے ذریعہ ساورکر پر انگریزوں کا ساتھ دینے اور ان سے معافی مانگنےکا عنوان پر بی جےپی کے قومی ترجمان نے کہا کہ ’’چھترپتی شیواجی مہاراج نے بھی اورنگ زیب کو پانچ بار خط لکھا تھا ۔ اس وقت سیاسی مشکلوں سے باہر نکلنے کیلئے کئی لوگ معافی نامہ لکھا کرتے تھے۔‘‘ سدھانشو تریویدی نے ساورکر کا دفاع میں کہا تھا کہ اس وقت کے مجوزہ فارمیٹ کے تحت ساورکر نے خط لکھا تو کیا ہوگیا، انہوں نے برطانوی آئین کی قسم تو نہیں اٹھالی تھی ۔اس طرح بزدلی کی حمایت تو کوئی ڈرپوک ہی کر سکتا ہے اور راہل کی بات سچ ہوجاتی ہے۔

شیوسینا کے لیے تو یہ بیان ایک ایٹم بم سے کم نہیں تھا۔ بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی کے اس متنازع بیان پر سنجے راؤت نے انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا ۔ انہوں نے ترویدی پرشیواجی مہاراج کی توہین کالزام لگایا ۔ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کے لیے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی مخالفت کرنے کا یہ نادر موقع تھا ۔ سنجے راوت نے سوال کیا کہ اقتدار کے لالچ میں بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر عزت نفس کی بات کرنے والے ایکناتھ شندے اب کیوں خاموش ہیں؟ راؤت نے پوچھا کہ کیا آپ شیواجی کی توہین برداشت کر سکتے ہیں؟ سدھانشو کی اس سیاسی حماقت سے مستفید ہونے کے لیے این سی پی رہنما جتیندراوہاڑ بھی میدان میں اتر گئے ۔ انہوں نے سدھانشوترویدی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ شیواجی کے بارے میں ایسا تبصرہ کرنے والا بی جے پی ترجمان پاگل ہی ہو سکتاہے۔

ساورکر اور شیواجی کا یہ مسئلہ چل ہی رہا تھا کہ کرناٹک کے وزیر اعلی واسوراج بومئی نے کہا ہے کہہ دیا کہ سانگلی ضلع کے 42 گاؤں اور سولاپور کی اکل کوٹ تحصیل کے لوگ کرناٹک میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد کرناٹک کی بسوں کے خلاف مہاراشٹر-کرناٹک سرحد پر احتجاج ہوا۔ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ نے بومئی کی سختی سے تردید کی تو جواب میں کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نےان کے تبصرے کو اشتعال انگیز قکہا ان کا ایک انچ بھی زمین نہیں دینے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ بومئی کے مطابق پانی کا بحران مہاراشٹر کے گاوں کو کرناٹک ،یں انضمام کے لیے مجبور کررہا ہے۔ فڈنویس نے اس مسئلہ کے وجود سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے اندر کرناٹک حکومت کے ذریعہ 865گاوں پر دعویٰ 2004سے زیر التواء ہے۔ اس معاملے میں مہاراشٹر اور کرناٹک کی بی جے پی حکومتوں نے گلوان تنازع سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کرلی ہے۔ اس سے چونکہ انتخابی مفاد وابستہ ہے اس لیے اگر وہاں تصادم ہوجائے ہند چین سرحد سے زیادہ خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کی یہ علاقائی عصبیت ایک خانہ جنگی کی پیش خیمہ ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207231 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.